سڑکوں اور چوراہوں سے لے کر سرکاری دفاتر اور کوئے اقتدار تک تماشے کا سماں ہے۔ عجیب افراتفری اور بھاگ دوڑ جاری ہے‘ لیکن کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ ان حالاتِ پریشاں کا انت کیا ہوگا۔ہر خاص و عام ایک دوسرے سے پوچھتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ بڑے بڑے واقفانِ حال اور دور کی کوڑی لانے والے بھی اس سوال کے آگے لاجواب ہو جاتے ہیں کہ اب کیا ہوگا یا کب کیا ہوگا؟ سٹیرنگ پر بیٹھے ڈرائیور ہی جب لاعلم ہوں تو گاڑی میں کھچاکھچ بھری سواریوں کو خاک معلوم ہوگا کہ گاڑی کس منزل کی جانب اور کیوں رواں دواں ہے؟ تبدیل ہوتے سنگِ میل پون صدی سے کبھی منزل سے بھٹکاتے تو کبھی نہ ختم ہونے والے راستے پر ڈال کر نجانے کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف دلدل میں دھنسی معیشت کی گاڑی کو ٹریک پر لانے کے لیے کریک ڈاؤن اور کڑے فیصلوں کی بازگشت ہے تو دوسری طرف قلمدانوں کی بندر بانٹ جاری ہے‘ اوریہ معمہ روز بروز گمبھیر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ مطلوبہ اہداف اور مشکل فیصلے ان ہاتھوں سے کیونکر ممکن ہیں جنہیں قلمدان تھمائے جا رہے ہیں۔
ریٹائرڈ بابوؤں کی بڑی کھیپ وفاقی نگران کابینہ میں زیادہ سے زیادہ کیا کر لے گی ؟کس کس کا نام لیں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ کسی کو لمبی چوڑی خدمات کے صلے میں تو کسی کو اسیری اور ثابت قدمی کے انعام کے طور پر حکمرانی کا جھولا جھلایا جا رہا ہے۔ مگر کسی کے پلے کچھ ہے نہ کسی کے کریڈٹ پر کوئی ایسا کارنامہ‘ البتہ ماضی کے حکمرانوں کے سرچڑھے اور آنکھوں کے تارے ہر خاص و عام کو دن میں تارے دکھاتے رہے ہیں۔ جو خود میرٹ کے برعکس کلیدی اور پیداواری عہدوں پر موجیں مارتے اور من مانیاں کرتے رہے وہ ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے کی اہلیت اور جرأت کہاں سے لائیں گے؟ بوجوہ وزارتیں حاصل کرنے والے پہلے تو اپنی وفاؤں کا صلہ وصول کریں گے اور گیم میں مستقل فٹ ہونے کے لیے وہ خدمات اور ڈیوٹیاں بھی سرانجام دیں گے جن کی تکمیل کے لیے ان کے ناموں کے قرعے نکالے گئے۔ ان کی وابستگیاں اور مجبوریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کم مایا بستیوں سے ایوانِ اقتدار تک کا سفر یونہی طے نہیں ہو جاتا۔ میرٹ اور گورننس کی درگت بنانے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے اشاروں پر قانون اور ضابطوں سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں کو بھی پامال کرنا پڑتا ہے۔ چھوٹے گریڈوں کے باوجود بڑے بڑے عہدوں پر براجمان رہنے والے اپنی سہولت کاریوں کی وہ قیمتیں پا چکے ہیں جو کبھی تصور بھی نہ کی ہوں گی۔
مملکتِ خداداد کا یہی اعجاز ہے کہ اس میں ایسے ویسے کیسے کیسے اور کیسے کیسے ایسے ویسے بنتے ذرا دیر نہیں لگتی۔ زندان سے ایوان اور ایوان سے زندان کا سفر بھی چٹکیوں میں طے ہوتا ہے اور عقل دنگ اور قانون وضابطے گم سم رہ جاتے ہیں۔ سائیکلوں اور سکوٹروں پر پھرنے والے ہوں یا بمشکل واجبی سماجی و مالی پس منظر رکھنے والے‘ کس طرح راج نیتی کا حصہ بن کر ملکی وسائل اور خزانے سے کھلواڑ کرتے اور آنے والی نسلیں سنوارتے رہے ہیں۔ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال جاتے جاتے آخری بال پر وہ چھکا لگا گئے کہ سبھی کے چھکے چھوٹ سکتے ہیں۔ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے چھ سابق وزرائے اعظم اور ایک صدر سمیت نجانے کتنوں کی گوٹی 98 سے واپس 16 پر آچکی ہے۔ سانپ سیڑھی کا یہ کھیل راج نیتی کے پرانے کھیلوں میں سے ایک ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کی تلوار سے بچنے کے لیے کیا حکمتِ عملی اور جگاڑ لگایا جاتا ہے ‘کیونکہ یہ سبھی اسرار و رموز سے لے کر بھید بھاؤ اور چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔ کالعدم فیصلوں کو بھی کالعدم کرنے کے لیے ان کے پاس بڑی بڑی ٹیمیں اور کوہ ہمالیہ جیسے وسائل موجود ہیں‘ تاہم نامعلوم منزل کی طرف گاڑی دوڑاتے روبوٹ ڈرائیورز کو عوام کی خستہ حالی کا خیال ہے نہ پریشان حالی کا احساس۔ انہیں تو بس اتنا معلوم ہے کہ گاڑی کی رفتار کب کتنی اور کس سمت میں کرنی ہے۔ نامعلوم اہلیت کے حامل ڈرائیورز کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آگے راستہ ہموار ہے یا ناہموار‘ سڑک کچی ہے یا آگے کھائی ہے۔ منزل اور انجام سے بے خبر یہ گاڑی کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ واپسی کے سبھی راستے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونے کے ساتھ ساتھ سامنے بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔
ہنرمندانِ ریاست و سیاست جن پر انحصار کر کے ملک کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونا چاہتے ہیں ان میں سے بیشتر تو خود آئین‘ قانون‘ ضابطوں اور اصولوں کے لیے چیلنج رہے ہیں۔ حکمرانوں کی خوشنودی اور ذاتی مفادات کے لیے یہ بھی فراموش کرتے چلے آئے ہیں کہ وفاقِ پاکستان کی اعلیٰ سروسز کے نمائندے اور ریاست کے ملازم ہیں۔ان کی نیت اور ارادوں سے لے کر دلوں کے بھید بھاؤ‘ ایجنڈے اور دھندے سبھی بے نقاب ہیں۔ ان کا ماضی اور پس منظر ہر دور میں حال کی چغلی کھاتا رہا ہے۔ ایسی نامزدگیاں اور تقرریاں کم از کم نگرانوں کے زمرے میں تو ہرگز نہیں آتیں۔ کلیدی اور اہم ترین عہدوں پر بیٹھ کر نجانے کتنوں کا کیریئر برباد کرنے والے آج بھی سسٹم کو ہائی جیک کیے ہوئے ہیں۔ تقرریوں اور تبادلوں میں ان کی پسند اور ناپسند سے لے کر غیض و غضب کا بھی برابر خیال رکھا جاتا ہے۔ پنجاب کی نگران سرکار تو بعض اوقات اُن کی فرنچائز ہی لگتی ہے۔ اہم عہدوں پر صرف انہی کی باریاں لگوائی جا رہی ہیں جن کی چِٹ اوپر سے آتی ہے اور بیشتر افسران کو پوسٹنگ سے اس لیے محروم رکھا جا رہا ہے کہ ان سے پرانے حساب چکانے ہیں۔ انصاف سرکار میں اہم عہدوں پر رہنے والے ہٹ لسٹ پر اور نرغے میں ہیں۔ ان کی تقرریاں اور ترقیاں دونوں ہی بغض اور عناد کا شکار ہیں۔
وفاقی کابینہ میں شامل ہونے والوں کی تصاویر دیکھ کر بے اختیار یہ خیال آتا ہے کہ گورننس اور طرزِ حکمرانی کے یہ روپ بہروپ اسی طرح چلتے رہے تو ایک نہ ایک دن وزارتِ کاروکاری کا قلمدان بھی قائم کرنا پڑے گا کیونکہ عوام زندہ درگور تو ہو ہی چکے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی ان کی دسترس اور قوتِ خرید سے کب کی نکل چکی۔ انا اور خودداری سے لے کر غیرت سمیت نجانے کیا کچھ داؤ پہ لگ چکا ہے۔ بدحالیوں اور بربادیوں کے بعد صرف کاروکاری کی کسر باقی رہ گئی ہے۔ عوام کو کاروکاری کرنے کے لیے نجانے کب کوئی محکمہ بنانا پڑ جائے ‘تو ایسی صورت میں اس کا قلمدان بھی متعارف کروا ہی دینا چاہیے۔ اضافی ستم اور عتاب کے لیے سنگ باری وِنگ بھی اس وزارت کا حصہ بن سکتا ہے۔ اس کی ٹریننگ‘ بجٹ اور رولز آف بزنس کے لیے پہلے ہی سرکاری بابوؤں کی خاصی مشق ہوچکی ہے۔ اس وزارت کو چلانے اور پروان چڑھانے کے لیے ان کی بہترین صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ عوام کو کاروکاری کی پیشگی اطلاع اور آگاہی کے لیے تعارفی تقریب بھی کروائی جاسکتی ہے جس میں یہ سبھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور بتیسیاں نکالتے سٹیج پر موجود ہوں۔