مینار ِپاکستان گم سم اور چشم فلک حیران ہے کہ قراردادِ پاکستان سے منسوب مقام بھی وہی ہے اور مصورِ پاکستان کی نسبت سے سبزہ زار بھی وہی‘ تقریریں بھی وہی‘ للکارے بھی وہی لہو گرمانے والے‘ جوش اور ولولے بھی وہی جنہیں سکیورٹی رسک اور مودی کا یار کہا جاتا تھا وہ سرکاری سکیورٹی اور پروٹوکول میں کس شان سے ایک بار پھر نجات دہندہ بناکر پنڈال میں لائے گئے۔ سماج سیوک نیتاؤں کے بدلتے چہرے ہوں یا انتظامی افسران کے‘ سبھی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ارضِ پاک پر کوئی بہت بڑا کھیل چل رہا ہے۔ آن کی آن میں منظر ایسے بدل جاتا ہے کہ چہرے اور کردار سمیت ترجیحات اور اخلاقیات ہی نہیں نظریات بھی یکسر تبدل ہو جاتے ہیں۔ ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کا فاصلہ اس قدر سمٹ جاتا ہے کہ انچوں اور منٹوں کا گمان ہوتا ہے۔ چند سال قبل جس طرح نواز شریف کو نااہلی کا طوق پہنا کر کوئے اقتدار سے نکالا گیا تھا‘صبح وشام شریف خاندان کی کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں سرکاری طور جاری کی جاتی تھیں۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ انصاف سرکار کے احتسابی چیمپئن شہزاد اکبر حالات کو پوائنٹ آف نوریٹرن پر لے جانے کیلئے ہمہ وقت بے تاب اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ عمران خان ٹھہرے افتادِ طبع کے مارے‘وہ ان سرچڑھے مشیروں اور مصاحبوں کے ہاتھوں ایسے استعمال ہوئے کہ پوری انصاف سرکار ان ضرورت مندوں کے ایجنڈوں اور دھندوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔شریف خاندان کو زیر عتاب رکھنے سے لے کر قیدوبند میں دیکھنے کی خواہش نے عمران خان کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ وہ من گھڑت اور سینہ گزٹ معلومات کو لے کر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے۔تمام تر موافق حالات اوراداروں کی بھرپور حمایت کے باوجود انصاف سرکار نے مسلم لیگ (ن) کو اپنے حواس پر اس طرح سوار کئے رکھا‘ اپنے انتخابی دعوؤں اور وعدوں پر توجہ دینے کے بجائے ساری توانائیاں اور وقت شریف فیملی پر تبرہ کرنے میں صرف کرڈالا۔ناقص کارکردگی اور گورننس پر اٹھنے والے کڑے سوالات کے جواب کی تان بھی شریف برادران کی کرپشن پر آکر ٹوٹتی رہی۔ طرزِ حکمرانی کے سبھی روپ بہروپ خود انصاف سرکار کیلئے سبکی اور جگ ہنسائی کے علاوہ ایسے حالات کا باعث بنتے چلے گئے کہ سبھی تدبیریں الٹی پڑتی گئیں۔لمبی زبان اور عقل کے فقدان نے نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل وزیروں اور مشیر وں کو اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ زبانوں سے اگلتے شعلوں نے سیاسی اکھاڑے میں لگی آگ کو بجھنے ہی نہیں دیا اور اس طرزِ سیاست نے پورا ملک اس طرح انگار وادی بنا ڈالا کہ شعلہ بیانیوں نے اپنا ہی نشیمن جلا ڈالا۔
انصاف سرکار کی شعلہ بیاں بریگیڈ نے پسپائی کا شکار زیر عتاب مسلم لیگ( ن) کی گرتی ساکھ کو اس طرح سہارا دئیے رکھا کہ ان کی سبھی ریفارمز ڈیفارمز کا ڈھیر بنتی چلی گئیں۔عوام نئے پاکستان سے اتنے جلدی عاجز آگئے کہ پرانے پاکستان کو ترس گئے۔تخت ِپنجاب کا فیصلہ روزِ اوّل سے خود عمران خان کیلئے گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑی بنتا چلا گیا۔اس پر خاتونِ اول کا سحر۔عمران خان چھوٹے چھوٹے نمائشی اقدامات کا کریڈٹ بھی خاتوں اوّل کو دیتے پھولے نہ سماتے۔مصدقہ اور پکی اطلاعات کے باوجود عمران خان نے خاتون اول اور اُن خاص سہیلی کی امور ِسرکار میں مداخلت کا نوٹس لیا نہ اور نہ شکایات کے انبار کے باوجود کبھی اس پر کان دھرے۔اکثر واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ عمران خان دونوں خواتین کی کارستانیوں سے آگاہ ہونے کے باوجود انجان بنے رہے۔اسی طرح وزارتوں اور اہم اداروں سے مال بنانے والے وزیروں مشیروں اور سرکاری بابوؤں کی چھوٹی بڑی وارداتوں کی خبروں پر بھی کان لپیٹ کر کس ڈھٹائی سے ان کا دفاع کرتے رہے۔
اس تمہید کا مقصد عمران خان کے طرزِ حکمرانی پر مضمون لکھنا نہیں بلکہ یہ باور کروانا ہے کہ اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں ناکام ٹھہرنے والے عمران خان کی طرزِ سیاست ہی ان کی ناکامی کا باعث بنتا رہا۔ عتاب اور زوال کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو زندہ رکھنے کا سہرا تحریک انصاف کی طرزِ حکمرانی اور طرزِ سیاست ہی کو جاتا ہے۔ منظر نامہ بدلنے سے لے کر اپنا حال اور مستقبل خراب کرنے کے علاوہ سبھی سیاسی حریفوں کو قصہ پار ینہ سے نکال کر زندہ حقیقت بنائے رکھنے کا کریڈٹ بھی عمران خان کی فہم وفراست کو جاتا ہے۔مینارِ پاکستان گم سم اور حیران اسی طرح رہے گا‘گریٹر اقبال پارک میں آئے روز سیاسی تماشے پر روحِ اقبال بے چین رہے گی۔
نواز شریف قسمت کے دھنی اور کئی اعتبار سے منفرد ترین سیاستدان ہیں۔باربار ٹکرانے کے باوجود قدرت نے ہر بار انہیں بچائے اور سنبھالے رکھا۔ کیسے کیسے بحرانوں کو مات دے کر‘ گردش ِدوراں کو کئی بار ٹال کر وہ پھر لوٹ آئے۔پانچ مرتبہ وزارتِ عظمیٰ اور آٹھ مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ جس پارٹی کا مقدر بن چکی ہو۔کتنی بار ایوان میں سورج نکلتا دیکھا تو زندان میں غروب ہوتے دیکھا۔ قید و بند کی صعوبتوں سے لے کر کال کوٹھری کی اندھیر ی راتوں کی بے چینی ان سے بہتر کون جانتا ہے۔ پل پل جینے اور پل پل مرنے سے لے کر اہانت اور تذلیل کے کبھی نہ بھولنے والے مناظر ہوں یا ناامیدی کی نہ ختم ہونے والی راتیں اور صدیوں پر محیط لمحے‘ سات سمندر پار بسترِ مرگ پر شریکِ حیات کی موت کی خبر جیل کے ملازم سے سننے کا دکھ اور چند قدموں کے فاصلے پر قید بیٹی کی فکر کہ کس طرح وہ وہ اپنی ماں کی جدائی کی خبر برداشت کرپائے گی۔ اُسے تو کوئی کندھا میسر تھا نہ کوئی دلاسا دینے والا۔ ہنرمند انِ ریاست کی ترجیحات اور اہداف اپنی جگہ لیکن اس روایت کا کہیں تو انت ہونا چاہیے۔
کئی دہائیوں سے خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنانے کا کھیل جاری ہے۔ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کے درمیان تماشا کب تک چلتا رہے گا۔عوام کب تک ان کھیل تماشوں پر تالیاں بجاتے اور جھومتے رہیں گے۔جمہوریت کب تک محوِ رقص اور جلوے بکھیرتی رہے گی۔ماضی کی بدعتوں میں اضافہ اور دوام بخشنے کے بجائے انتقام کی سیاست کو دفن کردیں۔اس روایت کو زندہ کرنے کا نادر موقع قدرت نے بخشا ہے تو اسے ضائع کرنا کفر انِ نعمت اور بھیانک تاریخی غلطی ہوگی جس کی قیمت آئندہ نسلیں کئی اضافوں کے ساتھ بھگتیں گی۔فراخدلی سے معاف کردینا ایک عظیم نیکی اور اعلیٰ ترین وصف ہے۔
ماضی کی بدترین روایات پر بند نہ باندھا گیا تو سیاسی اشرافیہ اسی طرح اس آگ کا ایندھن بنتی رہے گی جسے لگانے اور بھڑکانے میں پون صدی پہلے ہی گنوا چکے ہیں۔کس کو معلوم کہ یہ آگ کہاں تک پہنچے۔مخالفیں سے جیلیں بھر کر الیکشن لڑنا اور جشنِ فتح منانا کم ظرفی اور لیول پلینگ فیلڈ ہرگز نہیں۔نواز شریف صاحب !پہلا قدم تو بنتا ہے اپنے لئے نہ سہی اگلی نسلوں کیلئے سہی۔