میاں نواز شریف کی واپسی پر ملک بھر میں مباحثے کا سماں ہے۔ اُنہیں ملنے والے ریلیف کو لے کر کہیں دانشوری بھگاری جا رہی ہے تو کہیں دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں۔ کہیں درخواستی تو کہیں چاپلوسی میں ملبوس کالم اور تجزیے ذرائع ابلاغ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف کی لینڈنگ سے لے کر شاندار استقبال اور پُرہجوم جلسے سے خطاب تک سبھی مراحل میں وسائل کے بے دریغ استعمال اور تعاون پر اٹھنے والے سوالات پر نگران وزیراعظم لاجواب اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب نازاں و مطمئن ہیں۔ نگران سرکار کے لیے یہ مرحلہ یقینا ایک کڑا امتحان تھا جس میں وہ نمایاں پوزیشن حاصل کر چکی ہے بالخصوص جن سرکاری بابوؤں نے اس ٹاسک کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کیے رکھا‘ انہیں اپنا مستقبل تو یقینا محفوظ اور خوشحال نظر آرہا ہوگا۔ کہیں قانون کے سرنڈر ہونے کی بازگشت ہے تو کہیں آئین کی بے توقیری کی‘ مسلم لیگ (ن) کے قائد کو ملنے والے ریلیف پر بار کے منتخب نمائندے بھی سوالات اور انگلیاں برابر اٹھا رہے ہیں۔ اندیشوں اور وسوسوں کے ساتھ ساتھ بے یقینی کی اندھی کھائیاں بھی مزید گہری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ریورس انجینئرنگ کے کمالات نے حیرتوں کا جہاں اس طرح آباد کر ڈالا ہے کہ اچھے اچھے بھی حواس گم کیے بیٹھے ہیں۔ ان حالاتِ پریشاں میں خیالات منتظر اور آوارگی پر آمادہ ہیں۔ ایسے میں کالم اپنے دھارے سے نکل کر کہیں ادھر اُدھر ہو جائے تو پیشگی معذرت! ایسے حالات میں قلم ساتھ دینے سے انکاری اور الفاظ ہاتھ جوڑے کھڑے نظر آتے ہیں کہ وہ اس تماشے کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
جہاں مسلم لیگ (ن) کے لیے موافق اور سازگار حالات کے سگنل آنا ہونے شروع ہو چکے ہیں وہیں صورتحال ڈرامائی بھی ہوتی جا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کا فیصلہ مسترد ہونے کے بعد حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں جبکہ سانحہ نومئی میں عوام کو اُکسانے اور گمراہ کرنے والے سبھی مرکزی کردار تو نئی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر تائب ہو چکے ہیں۔ اگر ان سیاسی رہنماؤں کے لیے کوئی بیل آؤٹ پیکیج کی سہولت میسر ہے تو کچھ رعایت اور سہولت ان پیروکاروں کے لیے بھی ہونی چاہیے جو ان کی ہلہ شیری اور گمراہ کن بیانیوں کی رَو میں بہہ گئے تھے‘ ان میں اکثر کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ کسی شر انگیزی کا حصہ تو نہیں تھے لیکن جیوفینسنگ کے ریڈار میں آنے کی وجہ سے ان بلوائیوں میں شمار کیے جا رہے ہیں جنہوں نے عسکری تنصیبات اور عمارتوں پر حملہ کیا تھا۔ بیشتر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کام کاج کے سلسلے میں علاقے میں ضرور موجود تھے لیکن ان کا عسکری تنصیبات پر حملوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی لینا دینا ہرگز نہ تھا۔ کاش! ان کے لیے بھی کوئی سیاسی پارٹی ہوتی جس میں وہ شامل ہوکر اپنے کردہ ناکردہ گناہوں سے تائب ہو سکتے۔
جزا و سزا کے دوہرے معیار کی بدعت ہر دور میں اس طرح زور اور دوام پکڑتی چلی آئی ہے کہ ماضی کے سبھی ریکارڈ ٹوٹتے اور چھوٹے پڑتے نظر آتے ہیں۔ سزا یافتہ ہوں یا سزاؤں کی زد میں‘ سبھی سیاسی رہنما مکافاتِ عمل کے تصورات کو اس طرح الٹا کر صاف بچ نکلتے ہیں کہ سزائیں بھی منہ تکتی رہ جاتی ہیں۔ یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ سزاؤں سے صاف بچ نکلنے والوں کی سبھی سزائیں اکٹھی ہوکر عوام میں اس طرح تقسیم ہو جاتی ہیں کہ اشرافیہ کے حصے کے سبھی عتاب و عذاب عوام ہی بھگتتے چلے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد کے استقبال میں دھمالیں ڈالنے والے بھی خاطر جمع رکھیں کہ ان کے قائد کی سزا بھی انہی میں تقسیم ہو گی۔ اقتدار ہتھے تو لگ لینے دیں‘ رنگ کے ساتھ ساتھ روپ بہروپ بھی اسی طرح بدلتے نظر آئیں گے جیسے ہر دورِ اقتدار میں بدلتے چلے آئے ہیں۔ عام شہریوں کے تمام کیسز سول عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ یقینا ایک اہم اور بڑا فیصلہ ہے۔ کاش! اس فیصلے کے تسلسل میں الیکشن کی زیرِ التوا پٹیشن سمیت ان کیسز کا فیصلہ بھی آجائے جو کب سے فیصلے کے منتظر ہیں۔
ہنرمندوں اور دانشوروں کے اہداف اور ترجیحات اپنی جگہ لیکن ہوش مندوں کی ضروریات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ ماضی کی مردم شماریاں ہوں یا حالیہ مردم شماری‘ مردم شناسی کا قحط ہی برآمد ہوا ہے۔ تقریباً پچیس کروڑ کی آبادی والا خطہ مردم شناسوں سے محروم ہی چلا آرہا ہے۔ عوام مردم شناس نہ ہوں تو حکمرانوں میں اس صفت کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے‘ جیسے عوام ویسے حکمران۔ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر لمحۂ موجود تک عوام اور اشرافیہ میں کانٹے دار مقابلہ جاری ہے۔ حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے عوام مردم شناسی میں کوتاہی کے برابر مرتکب ہوتے چلے آرہے ہیں جبکہ ان کے سیاسی رہنما نہلے پہ دہلے اور ایک سے بڑھ کر ایک ہی پائے گئے ہیں۔ شاید انہوں نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ طرزِ سیاست ہو یا طرزِ حکمرانی چاپلوس‘ خوشامدی اور ضرورت مند مصاحبین اور مشیروں پر ہی انحصار کرنا ہے۔ گویا سبھی حکمران مردم شناسی کے ہنر سے ناآشنا ہی پائے گئے ہیں۔
اخبارات کے ڈھیر میں ایک خبر کافی دیر سے منہ چڑا رہی ہے جو امن و امان سے منسوب ہے کہ لاہور پولیس کو واجبات کی عدم ادائیگی کی بنا پر پٹرول کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ ڈولفن فورس کی سروسز اور پٹرولنگ بھی تین روز سے بند ہے۔ ایسی صورتحال سٹریٹ کرائمز میں اضافے کا باعث بنے گی۔ کرمنلز اس کا فائدہ دن دہاڑے اور رات کے اندھیروں میں بھی اٹھا رہے ہیں۔ اگر نگران سرکار اخراجات سے کفایت شعاری برتتے ہوئے کچھ رقم پٹرول کے لیے بچا لیتی تو شاید ڈاکوؤں کو یہ موافق حالات میسر نہ آتے۔ تعجب ہے! سیاستدانوں سے شاباش لینے کے لیے تو وسائل اور رقوم کی کہیں کمی نہ پڑی۔ شاید عوام کے جان و مال کی اہمیت اس کے مقابلے میں ثانوی بھی نہیں سمجھی جاتی۔ پولیس کو جب پٹرول ہی نہیں ملے گا تو کیسی گورننس اور کہاں کا لا اینڈ آرڈر؟ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی خالی ٹینکیوں کے ساتھ شہر کی پٹرولنگ کیونکر ممکن ہے۔
اربابِ اختیار کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ پٹرولنگ کے لیے اہلکاروں کو گھڑ سواری کی ٹریننگ بھی دینا پڑے گی۔ اہلکار تو خیر گھوڑے پر بھی بیٹھ جائیں گے لیکن مسئلہ تو افسران کے لیے بنے گا۔ عین ممکن ہے کہ ڈاکوؤں کی دعائیں مزید برآئیں اور گھوڑوں کی گھاس بھی عدم ادائیگی کی وجہ سے بند ہو جائے۔ ایسی صورتحال مزید گمبھیر اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں تو پٹرول کے بغیر غیر معینہ مدت تک کھڑی کی جا سکتی ہیں لیکن گھوڑوں کا کیا کریں گے؟ بھوک سے بے حال گھوڑے تو چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیں گے۔ خیر! ہمارے سرکاری بابوؤں کے پاس ہر جوڑ کا توڑ اور ہر توڑ کا جوڑ موجود ہوتا ہے۔ جب سرکار اور افسران ایک پیج پر ہوں تو یہ چھوٹے موٹے مسائل زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔ اصل ترجیحات اور اہداف تو کچھ اور ہیں‘ ویسے بھی گشت پر مامور پولیس کی اکثر گاڑیاں دھواں چھوڑتی اور ماحول کو آلود بنائے پھرتی تھیں‘ ایسی صورت میں ان وہیکلز کا گراؤنڈ رہنا ہی بہتر ہے۔ امن و امان جب ترجیحات میں شامل ہوگا تب دیکھی جائے گی۔