جسٹس بابر ستار نے مملکتِ خداداد کے اصل مرض اور آسیب کا ڈی این اے کر ڈالا ہے۔ یہ مرض ِ لاعلاج ایسا کوڑھ ثابت ہوا ہے جس نے وطنِ عزیز کودیمک کی طرح چاٹ کھایا ہے اور آسیب ایسا کہ جس کی پکڑ اور جکڑ سے کبھی کوئی محفوظ نہیں رہا۔ ناممکن اہداف سے لے کر حسرت میں ڈوبی ہوئی خواہشات کی تکمیل تک سبھی مراحل آسان اور ایسے ممکن بنا دئیے جاتے ہیں گویا کسی نے جادو کر ڈالا ہو۔ انتخابی معرکے سے لے کر حلف اٹھانے تک‘ من پسند تقرریوں اور تبادلوں کے لیے ضابطوں اور پالیسیوں کو سرنگوں کرنے تک‘ سرکاری ٹھیکوں کے حصول و طول سے لے کر حکومتی ادائیگیوں اور بڑے مالیاتی معاملات تک‘ ناجائز تعمیرات اور خلافِ ضابطہ منصوبوں سے لے کر اقتدار اور وسائل کی بندر بانٹ تک‘ گویا سبھی دھندوں اور ایجنڈوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ملک میں ایک ہی نسخہ کارگر ہے معزز جسٹس نے جس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ اﷲ انہیں ہمت اور استقامت دے کہ وہ اسی طرح ان بنیادی نقائص اور خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہیں جو سسٹم کے لیے مسلسل بھونچال ہیں۔ گورننس کو شرمسار کرنے سے لے کر میرٹ کو تار تار کرنے کے سبھی مرحلے اور مناظر کے تانے بانے بھی اسی آسیب سے ملتے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے تو طویل مدّتی حکمِ امتناع پر سوال اٹھایا ہے لیکن اکثر معاملات میں بوجوہ غیر معینہ مدّت کے حکم امتناعی پورے ریاست سسٹم کے لیے سوالیہ نشان بنتے چلے آرہے ہیں۔ طے کردہ مّدت تک حکمِ امتناع کو اسی طرح یقینی بنایا جاتا ہے کہ جہاں ضابطے اور قوانین گم سم نظر آتے ہیں وہاں حکومتی رٹ بھی کونے جھانکتی پھرتی ہے۔ عالمی درجہ بندی میں 140ممالک میں سے 129ویں نمبر پر آنے کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ ایسے حکم امتناعی بھی ہیں جو انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور حکومتی رِٹ کو بے معنی کر ڈالتے ہیں۔ جو انصاف و دادرسی کے تصورات کو دھندلائے جا رہے ہیں۔ میرٹ کے برعکس ریلیف اور آسانیاں اکثر سرکاری بابوؤں کی مرہونِ منت ہوتی ہیں‘ انہیں سہولت کاری کے لیے بس ایک حکمِ امتناع کا آسرا کافی ہوتا ہے۔ خیر واقفانِ حال اس مرض اور آسیب کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں‘ مزید تفصیل میں جانے سے احتیاط و اختصار ہی بہتر ہے کیونکہ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔
کاش! عوام کو بھی کہیں سے حکمِ امتناع مل جائے کہ انہیں دو وقت کی پیٹ بھر روٹی اور ضروریاتِ زندگی سمیت علاج معالجہ اور تعلیم وتربیت حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہوگی۔ کاش! عوام کے جان ومال سمیت عزتِ نفس اور غیرت کا تحفظ بھی حکومتی ذمہ داری ہوتی۔ عوام پر شوقِ حکمرانی پورا کرنے والے سماج سیوک نیتاؤں کو رنگے ہاتھوں کے باوجود ضمانتیں‘ ریلیف اور آسانیاں ملنے کے علاوہ ان کی یقینی گرفتاریاں بھی خارج از امکان قرار دے دی گئی ہیں گویا سبھی عذاب اور عتاب بس عوام کے لیے ہیں۔ کاش! عوام کو بھی کوئی ضمانت دینے والا ہوتا۔ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتتے بھگتتے نجانے کتنی نسلیں رزقِ خاک ہو چکی ہیں اور بچ جانے والے زندہ درگور ہیں‘ عوام بھی رہائی مانگتے ہیں۔ اس طرزِ حکمرانی سے‘ اس شوقِ حکمران سے‘ عوام نڈھال اور بے حال ہو چکے ہیں۔ دھتکار اور پھٹکار کی ماری ہوئی خلقِ خدا راج نیتی کے اس روپ بہروپ سے اس قدر خائف ہے کہ آنے والے دنوں سے بھی ڈری بیٹھی ہے کیونکہ جس ملک کا حال ماضی سے کہیں زیادہ ہولناک ہو وہاں مستقبل کیسا ہوگا یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ پچا س برس پرانے اخبارات بھی اٹھا کر دیکھ لیں تو وہی مسائل‘ وہی مصائب‘ وہی عذاب‘ وہی عتاب‘ وہی دھتکار‘ وہی پھٹکار گویا ذلتِ جاریہ کے سبھی مناظر جوں کے توں ہیں گویا پون صدی بیت گئی‘چلتے چلتے پیروں میں آبلے پڑ چکے ہیں۔ منزل ملی نہ گھر آیا‘ لیکن یہ سماج سیوک نیتا باری لگا کر نسل در نسل آتے جاتے رہے ہیں۔دادا کی جگہ پوتا اور باپ کی جگہ بیٹا شوقِ حکمرانی برابر پورے کر رہا ہے۔ نواز شریف کی گرفتاری کا خطرہ ختم کیا جا چکا ہے لیکن عوام تاحال انہی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں جن سے نکالنے کے لیے راج نیتی کا کھیل اور ان کی باریاں کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔
ایسے میں اپنے ہی چار سالہ پرانے ایک کالم بعنوان ''عوام بھی ضمانت پر رہائی مانگتے ہیں‘‘ کی چند سطور اس لیے مستعار لے رہا ہوں کہ قارئین کو یہ باور کروایا جا سکے کہ حالات جوں کے توں اور یونہی ہیں۔ ''نواز شریف ضمانت پر رہائی پا چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بھی اسی ماڈل کو اپناتے ہوئے طبی بنیادوں پر ریلیف کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ان سماج سیوک نیتائوں کے لیے اسیری اور رہائی گیم پلے کا حصہ اور ادھر ڈوبے اُدھر نکلے والا معاملہ ہے۔ یہ تو ڈوب کر نکل آتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں ڈوبے عوام کہیں بھنور میں ہچکولے کھا رہے ہیں تو کہیں غوطے پر غوطے کھائے چلے جارہے ہیں۔ نواز شریف کی ضمانت تو ہوگئی‘ زرداری بھی آج نہیں تو کل طبی بنیادوں پر باہر آکر چلتے پھرتے نظر آسکتے ہیں‘ لیکن نصیبوں جلے عوام کی ضمانت تاحال ضبط ہے۔ بے کس اور لاچار عوام بھی رہائی چاہتے ہیں اورپوچھتے پھرتے ہیں کہ وہ اپنی رہائی کے لیے کون سی زنجیر عدل ہلائیں کہ ان کی سیاہ بختی اور ذلتِ جاریہ کا سلسلہ کچھ تو کم پڑے۔ کہیں تو اس کا زور ٹوٹے اور عوام کے اوسان اور سانسیں بحال ہوں اور یہ محسوس کرسکیں کہ وہ بھی حضرتِ انسان کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں‘ان کے بھی کوئی حقوق ہیں جن سے انہیں سوچی سمجھی سکیم کے تحت تاحال محروم رکھا گیا ہے۔ نواز شریف اور زرداری اینڈ کمپنی سب کچھ کرکے معصوم بن کر ضمانتیں مانگتے پھرتے ہیں‘ لیکن بیچارے عوام نے تو کچھ بھی نہیں کیا‘وہ پھر بھی ضمانت پر رہائی کے طلبگار بنے پھرتے ہیں۔وہ ان حکمرانوں کے اس شکنجے سے رہائی مانگتے ہیں جو اِن کے طرزِ حکمرانی کے نتیجہ میں عوام کوجکڑے ہوئے ہے۔اس طوق سے نجات مانگتے ہیں جو ان کی گردنوں میں مینڈیٹ کی صورت میں پڑ چکا ہے۔ کوئی روٹی کے ہاتھوں تو کوئی علاج معالجہ کے ہاتھوں‘کوئی عزت نفس کے ہاتھوں تو کوئی سماجی انصاف کے ہاتھوں‘ان حکمرانوں کے ہاں گروی پڑا نظر آتا ہے۔‘‘
چلتے چلتے آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور کو ایک ٹِپ دیتا چلوں کہ اکثر اعلیٰ افسران اپنی حسرت اور خواہشات کی تکمیل کے لیے فیلڈ افسران کو بَلی چڑھا رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کے علاقے شاد باغ میں ایک فیکٹری پر قبضے کی کارروائی پہلے ہی اُلٹی پڑ چکی ہے۔ ہائیکورٹ نے مظلوم سائل کی دادرسی کے لیے احکامات جاری کیے تو سارا ملبہ ایس ایچ او پر ڈال دیا گیا جبکہ اندرون شہر میں بھی قبضے کا بڑا ٹینڈر طے پاچکا ہے‘ آنے والے دنوں میں اس کی بدنامی کے چھینٹے اور مظلوموں کی دہائی لاہور پولیس کے لیے سبکی اور جگ ہنسائی کا باعث بن سکتی ہے۔ چیئرمین شیخ زید ہسپتال کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے علاوہ بھاری نفری کے ساتھ دھاوا بول کر سرکاری طور پر سربمہر کی گئی کروڑوں کی ڈیفالٹر فارمیسی کو غیر قانونی طور پر کھولنے کا واقعہ پہلے ہی پولیس کی نیک نامی کو چار چاند لگا چکا ہے بھانڈا پھوٹتے ہی سبھی اعلیٰ افسران چیئرمین کے دفتر جاکر معافیاں اور منت سماجت تو کر آئے ہیں لیکن معمہ تاحال حل طلب ہے۔ سارا ملبہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او پر ڈال کر کو ن ہے جو انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی بدعت کو دوام بخش رہا ہے۔ کروڑوں کی ڈیفالٹر فارمیسی کے مالک کی سہولت کاری کہاں کی پولیسنگ ہے؟
تعجب ہے! اعلیٰ حکام اس قدر بے خبر ہیں۔