اشرافیہ کو میسر غیر معمولی آسانیوں کی فراوانیوں کے ساتھ ساتھ ضمانتوں اور ریلیف کے علاوہ سزاؤں کی معافی کے بعد عوام کے ناکردہ گناہوں کی سزاؤں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مملکتِ خداداد کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ ہر دور ماضی کے ادوار کا ایکشن رِی پلے ہی رہا ہے۔ ماضی کے عذابوں اور عتابوں کے علاوہ سبھی بدعتیں کئی اضافوں کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ گورننس شرمسار اور میرٹ بدستور تار تار ہے‘ انتظامی اشرافیہ کچھ اس طرح تقسیم ہو چکی ہے کہ کہیں سہولت کار تو کہیں ہم رکاب بن کر حکمرانوں کے دھندوں اور ایجنڈوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے۔ جب انتظامی مشینری سیاسی اشرافیہ سے منسوب اور مشروط ہو جائے تو یہ پہیلی بھی باآسانی بوجھی جا سکتی ہے کہ کس کے دورِ حکومت میں اہم انتظامی عہدوں پر کون سے افسران براجمان ہوں گے۔
میرٹ اور گورننس کی اس درگت نے منظر نامہ کچھ ایسا بنا ڈالا ہے کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی سے لے کر وفاقی و صوبائی سیکرٹریوں اور کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز تک سبھی اہم عہدے موافق حکمرانوں کے مرہونِ منت ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ حکمرانی کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو وہ من پسند اور تابعدار افسران پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ مہارت اور قابلیت کے بجائے احکامات کی من و عن تعمیل جب اوّلین ترجیح ہو تو افسران کی تقرریوں کا معیار میرٹ کی ضد بن جاتا ہے۔ سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کے اس گٹھ جوڑ کا ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ چھوٹے گریڈوں والے بڑے منصب پر اور بڑے گریڈ والوں کو کھڈے لائن لگا کر میرٹ کو چار چاند لگائے جاتے ہیں۔ قد اور اہلیت سے بڑے عہدے ہوں یا اضافی قلمدان یہ سبھی حکمرانوں کی قربت اور چاپلوسی کے بغیر ہرگز ممکن نہیں‘ اسی لیے اکثر تقرریوں اور تبادلوں میں عہدہ بلحاظ افسر ہی چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ ماضی کی سبھی بدعتوں کو اس طرح آج بھی جاری و ساری ہے۔ اکثر سرکاری بابو کہیں حکمرانوں کے شانہ بشانہ تو کہیں چند قدم آگے رواں دواں ہیں‘ پیچھے بھاگنے والے تو ہر دور میں ہی بھاگے پھرتے ہیں۔ ان بھاگے پھرنے والوں میں اکثریت ان بابوؤں کی ہے جو میرٹ میں نقب لگا کر ایسے عہدے حاصل کر لیتے ہیں جو گورننس کی درگت بنانے کے ساتھ ساتھ عوام کو ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ سوٹڈ بوٹڈ حکمرانوں کے پیچھے بوجوہ اور بلاوجہ بھاگے پھرنے والے بس اسی کو گورننس اور کارکردگی سمجھتے ہیں۔ نمائشی کارروائیوں اور الفاظ کے گورکھ دھندے کے ساتھ دلفریب لیکن گمراہ کن اعداد و شمار پر مبنی گورننس کا اصل چہرہ یہ ہے کہ عوام کہیں امان مانگتے پھرتے ہیں تو کہیں پناہ۔ سرکاری دفاتر میں کہیں شنوائی ہے نہ تھانوں میں دادرسی۔ پہلے سے بدحال اور تنگ دست عوام دن دہاڑے اور رات کے اندھیروں میں برابر لٹ رہے ہیں۔ جہاں فاقے اور ڈاکے عوام کا مقدر بن جائیں وہاں امن و امان کیونکر ممکن ہے؟ امن و امان سے مشروط پولیس وہیکلز کی ٹینکیاں خالی اور کئی کئی دن تک خشک پڑی رہیں تو کونسا لاء اور کیسا آرڈر؟ اور صبح و شام پرچار کرتے ہیں لاء اینڈ آرڈر کا۔ تعجب ہے! جب مصاحبین اور سرچڑھے بابو امورِ حکومت میں منہ مارتے اور اثر انداز ہوتے پھریں تو منظر نامہ مختلف کیسے ہو سکتا ہے۔ تقرریوں اور تبادلوں سے ٹینڈر کی بازگشت سنائی دے تو تھانہ‘ ہسپتال اور پٹوار ہو یا اعلیٰ حکام کے دفاتر عوام کو ذلتِ جاریہ کا سامنا تو رہے گا۔
وفاقی نگران کابینہ میں سابق سرکاری بابوؤں کی بڑی کھیپ ہو یا تختِ پنجاب میں حاضر سروس بابوؤں کی‘ یہ سبھی مل کر حالات کو سازگار اور مخصوص سمت میں استوار کرنے کے لیے زور اور جگاڑ تو برابر لگا رہے ہیں۔ اہداف اور مطلوبہ نتائج سے منسوب تقرریوں کے حامل یہ سبھی بابو زمینی حقائق کو خاطر میں لائے بغیر پراُمید اور خوش گمان ہیں کہ مخصوص سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ ان کا مستقبل بھی محفوظ ہے‘ اِقتدار اور اختیار کا یہ سکہ یونہی چلتا رہے گا۔ راج نیتی کے اس کھیل میں چال اُلٹی پڑ جائے تو شہ مات کے ساتھ ساتھ پسپائی اور رسوائی بھی مقدر بن جاتی ہے۔ خود کو مقدر کا سکندر بنائے رکھنے کی ناختم ہونے والی خواہش انہیں ملک و قوم کے مفادات سے بے نیاز بھی کر ڈالتی ہے۔ آئین اور قانون سے متصادم احکامات کی تعمیل اور عملداری میں سرکاری بابو ہر دور میں ہی پیش پیش رہے ہیں۔
سیاسی اشرافیہ کے پاس کوئی مقناطیس ہے یا گیدڑ سنگھی کہ برسرِ اقتدار آتے ہی ہر دور میں خوشامدی‘ چاپلوس اور سہولت کار سرکاری بابو کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ میں بندھے سبھی اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق ایک دوسرے سے استفادہ اور تحفظ بھی حاصل کرتے چلے آئے ہیں۔ یوں تو یہ روایت پون صدی سے جاری ہے لیکن ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد لگائی جانے والی سیاسی پنیری نے وہ گل کھلائے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ ضیاء الحق کی لگائی سیاسی پنیری نے آگے اپنی سہولت اور آسانیوں کے لیے ایک ایسی انتظامی پنیری لگا ڈالی جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگلی بیل کی طرح ایسے پھیلتی چلی گئی کہ آج بھی سسٹم کو جکڑے اور لپیٹے ہوئے ہے۔ اقتدار کی باریوں میں اس انتظامی پنیری کا ہمیشہ ہی کلیدی کردار رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ مسلم لیگ(ن) کواقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھانے کی روایت کو کس طرح قائم رکھ پائے گی کیونکہ پی ڈی ایم کے اقتدار کی ہنڈیا پریشر ککر بن کر بس پھٹنے کو ہے۔
نوازشریف کو سرکاری سطح پر استقبال کے ساتھ قانونی رعایتیں اور فائدے ملتے دیکھ کر زرداری صاحب برملا کہہ اٹھے ہیں کہ وہ انہیں وزیراعظم نہیں بننے دیں گے جبکہ بلاول بھٹو نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ اگلا وزیراعظم لاہور سے نہیں ہوگا۔ گویا جمہوریت کا حسن ایک بار پھر رقصاں اور لشکارے مارنے والا ہے۔ ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور چور ڈاکو کہہ کر للکارے مارنے کا وقت لوٹ کر آرہا ہے۔ اُدھر سید خورشید شاہ نے صدرِ مملکت سے استعفے کے مطالبے کو آئین کی توہین قرار دے ڈالا ہے۔ خدا جانے شاہ جی کون سے آئین اور کس کی توہین کی بات کر رہے ہیں؟ ضرورتوں کی دلالی میں لتھڑی ہوئی اٹھارویں ترمیم سمیت کون کون سا موقع یاد دلاؤں جس میں آئین کو بے توقیری اور شرمساری کا سامنا نہیں رہا۔ آئین کو شرمناک حالات سے دوچار کرنے میں پیش پیش سیاسی اشرافیہ حصہ بقدرِ جثہ اپنا کردار برابر ادا کرتی رہی ہے اور شاہ جی اپنی جماعت کے ساتھ اس گٹھ جوڑ کا حصہ بن کر ہمیشہ متحرک رہے ہیں۔
اتحادیوں کی طرف سے بدشگونیوں پر مبنی بیانات کے بعد نواز شریف خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ہیں۔ سرکار کی طرف سے Smooth ڈرائیو کا موقع ملے تو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنا تو بنتی ہے۔ چار سال بعد پارٹی کے مرکزی دفتر بھی جاپہنچے۔ خدا جانے نوازشریف کے پاس کون سا طلسم ہے جو قوم کو تواتر سے خوشخبری دے رہے ہیں کہ وہ برسرِ اقتدار آکر ملک کو ایک بار پھر خوشحالی کے سفر پر رواں دواں کر ڈالیں گے۔ خدا کرے نواز شریف کا کہا سچ ہو جائے اور کوئی کرشمہ یا ہو جائے‘ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نوازشریف یہ طلسم اپنے چھوٹے بھائی کو ہی بھی عنایت کر دیتے تو شاید تقریباً ڈیڑھ سالہ اقتدار میں اس پسپائی اور جگ ہنسائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔