زمانۂ طالب علمی میں اُردو لٹریچر پڑھنے والوں کو بخوبی یاد ہوگا کہ امتحانات میں الطاف حسین حالیؔ کے مقدمۂ شعر و شاعری سے یہ سوال تو ضرور آیا کرتا تھا کہ بری شاعری سوسائٹی کا مزاج کیسے بگاڑ دیتی ہے۔ اس زمانے میں حالیؔ کے اس مقدمے کو محض سوال کے طور پر ہی لیا کرتے تھے۔ دہائیوں کے اس سفر میں اب کہیں جاکر اس سوال کی نزاکت اور سنگینی کا ادراک ہوا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں عقل سے پردے ہٹ رہے ہیں‘ توں توں شعور کی کھڑیاں کھلنے کے علاوہ یہ بھید بھی کھلتا چلا جا رہا ہے کہ کون کہاں جھوم رہا ہے؟ لکھے لکھائے‘ رٹے رٹائے سکرپٹ پر دانشوری کی بدعت اس طرح دوام پکڑ چکی ہے کہ خواہشات میں لتھڑی ہوئی دور کی کوڑیاں سوسائٹی کے مزاج کے ساتھ ساتھ نفسیات اور اقدار کو بھی پامال کرتی چلی جا رہی ہیں۔ گویا بات حالیؔ کے مقدمے سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔
خاور مانیکا کا انٹرویو سیاست کا وہ اوور فلو ہے جسے عرفِ عام میں بیک مارنا کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بیک مارنے کی روایت وہ مجبوری ہے جس کے آگے کھال اور گردن بچانے کے لیے بڑے بڑے سورما بے بس اور لاچار پڑ جاتے ہیں۔ خاور مانیکا تو پرلے درجے کا ضرورت مند ہے جو غلاظت میں نازاں اور شاداں رہتا تھا۔ پکڑ اور جکڑ کے بعد اس کی سوئی مری ساری غیرتیں اس طرح جاگ اٹھی ہیں گویا کفن میں لپٹا مردہ جاگ اٹھا ہے۔ بوجوہ جاگی ہوئی غیرت سے ایسے ایسے شرمناک اور دہلا دینے والے انکشافات برآمد ہوئے ہیں کہ اخلاقی اور سماجی اقدار گم سم ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ''عمران خان میری مرضی کے بغیر گھر آتا تھا‘‘۔ گویا گھر مانیکا کا اور مرضی عمران خان کی۔ مزید یہ کہ ''اس نے پیری مریدی کی آڑ میں ہمارا گھر برباد کر دیا‘‘۔ کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا کہ دنیا سنوارنے کے لیے انہوں نے اپنی عاقبت خراب کرنے کے علاوہ ملک کی بربادی میں بھی برابر حصہ ڈالا ہے۔
عمران خان کے 126دن کے دھرنے سے لے کر انتخابی معرکہ سر کرکے حکومت سازی تک‘ سبھی تانے بانے اور نقطے ملائیں تو نجانے کس کس کے ہاتھ ملک کی بربادی میں رنگے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اہم ملکی امور ہوں یا قلمدانوں اور عہدوں کی بندر بانٹ‘ سبھی میں زائچوں اور استخاروں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ نجانے کیسے کیسے وہمات اور توہمات سے آلودہ طرزِ حکمرانی کے بینی فشریوں کی طویل فہرست میں مانیکا خاندان سرفہرست رہا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ عمران خان اپنی جھوٹی سچی کارکردگی اور اقدامات کا کریڈٹ بھی سرکاری سطح پر خاتونِ اول کو ہی دیتے رہے ہیں۔ ملک کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ میں کھلے اور پوشیدہ نام سبھی جانتے ہیں۔
روحانی تڑکا لگا کر عمران خان کو اقتدار میں لانے والے ان کی بشری کمزوریوں اور ضعیف الاعتقادی کا اس طرح فائدہ اٹھاتے رہے ہیں کہ مملکتِ خداداد کا انتظام و انصرام ہی انہی کے مرہونِ منت اور تابع بن کر رہ گیا تھا۔ سیاسی اشرافیہ سے لے کر انتظامی و کاروباری اشرافیہ تک‘ سبھی طاقت کے اس سر چشمے سے فیض یاب ہونے کے لیے ہمہ وقت بے تاب اور بے قرار رہتے تھے۔ اس کھیل میں برابر کے شریک آج مظلوم اور دودھ کے دھلے بن کر دوسروں پر وہ کیچڑ اچھال رہے ہیں جس پر وہ خود پلتے رہے ہیں۔ ایسے کردار ہماری سیاسی تاریخ کا وہ تسلسل ہیں جن کی داستان اور تفصیل اس قدر بھیانک ہے کہ اکثر گوشوں کو احاطۂ تحریر میں لانے کے لیے الفاظ اور استعارے بھی ناپید ہیں۔ اس تاریخ کے اوراق پلٹیں تو حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک‘ محلاتی سازشوں سے لے کر غلام گردشوں تک‘ حکمرانوں سے لے کر ان کے سہولت کاروں اور پیروکاروں تک‘ اَنا اور خود داری سے لے کر شرم وحیا اور غیرت تک‘ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پلے دہلے ہی پائے گئے ہیں۔ کس کس کا نام لوں؟ واقفانِ حال تو سبھی کو جانتے ہیں۔ خاور مانیکا اس کھیل کا وہ ایڈوانس کردار ہے جو ماضی کے ایسے کرداروں کے مقابلے میں خاصا بیباک اور ہر طرح کے سمجھوتے پر مطمئن اور نازاں ہی رہا جبکہ ماضی میں ایسے کردار درپردہ رہتے ہوئے ہی مستفید ہوتے چلے آئے ہیں۔
اس کردار کا نقطۂ طمانیت جہاں باعثِ حیرت تھا وہیں مذہبی اور سماجی حوالوں سے کئی کڑے سوالات کو بھی جنم دیتا رہا۔ خاور مانیکا کے عمران خان سے میل جول اور مراسم کے علاوہ ایوانِ اقتدار سے وابستہ غیرمعمولی خواہشات کی تکمیل ہو یا نہ ختم ہونے والی ضرورتوں کی طویل فہرست‘ یہ سبھی ان کے حالیہ انٹرویو کا برابر منہ چڑا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دانشور سبھی حقیقتوں سے برابر واقف ہونے کے باوجود اس غلاظت اور کیچڑ کے تعفن کو عوام تک پھیلا کر نجانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ خاور مانیکا کے گھر سے لے کر ایوانِ اقتدار تک فائدے اور مال و دولت کے انبار سمیٹنے والے سبھی کرداروں کو عوام کے سامنے مظلوم اور کون سا ماڈل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے؟ ملکی سیاست و صحافت پہلے ہی کافی آلودہ ہو چکی ہے‘ اب اس آلودگی کے چھینٹے ریاستی تشخص کے در پے ہیں۔
خدارا! اس ملک کو وطن اور دھرتی کو ماں سمجھیں‘ وہ سوالات اور حالات پیدا نہ کریں جن کا جواب آپ خود اپنے بچوں کو بھی نہیں دے سکتے۔ خدارا! قوم اور اس کے بچوں کو اس غلاظت اور تعفن سے دور رکھیں۔ محض رِیٹنگ اور پذیرائی سے مجبور دانشوری کرنے والے پہلے ہی قوم کی فکر اور نفسیات کو تباہ کرکے اپنے ایجنڈوں اور دھندوں کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔ یہ قوم آپ کی علمیت اور قابلیت کے ڈرون حملوں کو مزید سہنے کے قابل نہیں رہی۔ صحافت جیسے غیرجانبدار شعبے کو پی آر اور لابنگ فرم بنانے کا تجربہ صحیفے سے مستعار پیشے کی ساکھ اور آبرو پہلے ہی کھا چکا ہے۔ اب ان مانیکاؤں کو دِکھا کر نجانے کون سا ایوارڈ لینا مقصود ہے؟ میرا کیمرہ میری مرضی‘ میرا قلم میری مرضی‘ میری سوچ میری مرضی‘ میرا تجزیہ میری مرضی کے روپ بہروپ صحافت کے تقدس کو کافی پامال کر چکے ہیں‘ رہا سہا اور بچا کھچا بھرم تو خدارا باقی رہنے دیں۔ اگلی نسلوں کو کیا یہ کمپنیاں ہی دے کر جائیں گے۔ میری حکومت میری مرضی‘ میری پارٹی میری مرضی‘ میرا اختیار میری مرضی‘ میرا قانون میری مرضی‘ میرا آرڈیننس میری مرضی‘ میری دھونس میری مرضی‘ میری قسم میری مرضی‘ میری رسم میری مرضی کی دوڑ میں شامل ہو کر ہم اپنے مقصد اور اصل کام سے ہی بھٹک کر رہ گئے ہیں۔
قومی اور سوشل میڈیا پر مباحثے کا سماں ہے۔ گویا یہ انٹرویو ہی ہمارا واحد اور آخری مسئلہ تھا۔ اس انٹرویو سے ثابت کیا کرنا ہے اور برآمد کیا کرنا ہے؟ اس انٹرویو کے برعکس اصل حقائق نہ صرف سبھی جانتے ہیں بلکہ زبان زدِعام بھی رہے ہیں۔ جھوٹ کے پلندے اور گمراہ کن و شرمناک توجیہات نہ کسی کا ماضی بدل سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا کردار‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کا عمران خان سے نکاح ہو یا خاور مانیکا سے طلاق‘ سب کچھ روزِ اوّل سے متنازع اور زیرِ بحث ہی رہا ہے۔ جب نکاح اور طلاق ہی متنازع ہو جائیں تو میرا گھر اور اس کی مرضی جیسے جواز و توجیہات حقائق نہیں بدل سکتے۔