فتوحات کے اس سلسلے کو کہیں حق اور انصاف کی فتح قرار دیا جا رہا ہے تو کہیں سسٹم کے علاوہ جزا و سزا کے نظام کو کڑے سوالات کا سامنا ہے۔ ایون فیلڈ کیس میں بریت کے بعد لیول پلیئنگ فیلڈ کو آئیڈیل لیول پر دیکھا جا رہا ہے۔ فلیگ شپ ریفرنس میں نیب نے اپنی روایت اور تاریخ کا بھرم برقرار رکھا ہے۔ پانامہ‘ اقامہ اور نااہلی سے شروع ہونے والا تماشا بریت پر آن ختم ہوا ہے۔ ہمارے ہاں جہاں جمہوریت کے حسن کے لشکارے ختم نہیں ہوتے وہاں ان تماشوں کا بھی کوئی اَنت نہیں ہے۔ بدلتے وقت اور ادوار کے ساتھ ان تماشوں کے کردار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ مجرم‘ معتبر بن جاتے ہیں تو معتبر‘ مجرم بن جاتے ہیں۔ جنہیں خائن‘ چور اور لٹیرا ثابت کرنے کے لیے بے دریغ سرکاری وسائل پر دن رات ایک کیے رکھتے ہیں‘ بعد ازاں انہی کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کے لیے کیسی کیسی توجیہات‘ ڈھکوسلے اور جواز گھڑلیے جاتے ہیں۔ جو استغاثہ صبح شام سرکاری طور پر سنایا جاتا تھا‘ وہ اب منہ چھپانے کے بجائے نازاں اور شاداں پھر رہا ہے۔
گویا احتساب کا ڈھول وہ دُھول ثابت ہوا جو عوام سمیت نجانے کس کس کی آنکھوں میں جھونکی جاتی رہی۔ احتساب بیورو کا یہ ادارہ یونہی قائم نہیں کیا گیا تھا‘ اس کے پس پردہ لمبے چوڑے عزائم کارفرما تھے۔ سونے پہ سہاگہ سیف الرحمن کو اس کا سربراہ بناکر وہ اُدھم مچایا گیا کہ الامان الحفیظ۔ صحافتی اداروں سے لے کر سیاسی حریف اور انتظامی مشینری بھی اس کی گرفت سے نہ بچ پائی۔ جھوٹے سچے مقدمات سے لے کر بے بنیاد کیسز سمیت نجانے کیسے کیسے نمونے آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ جس ادارے کے قیام کے پیچھے بدنیتی اور ایجنڈوں کی تکمیل ہو‘ اس سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ مخالفین کو زیرِ عتاب رکھنے کے علاوہ کچلنے اور رگڑنے کے ساتھ ساتھ کیسے کیسے سربلندوں کو سرنگوں کرنے اور حریفوں کو حلیف بنانے کیلئے ہر دور میں اسے استعمال کیا گیا‘ تاہم حکمران اپنی اپنی مصلحتوں اور مجبوریوں کے تحت قوانین اور سٹرکچر میں ضرورتوں کا تڑکا ضرور لگاتے رہے ہیں۔
میگا کرپشن کے کیسز بنانے والوں نے غیرمعمولی اور خطیر رقوم خرچ کرکے کیس بنائے بھی اور خوب چلائے بھی لیکن مہنگے کیسز والے سبھی ملزمان ہمیشہ سستے ہی چھوٹتے رہے۔ اب یہ عالم ہے کہ مسلسل سیاسی انجینئرنگ سے کہیں پرزے بکھرے پڑے ہیں تو کہیں اوزار۔ آنے والے دنوں میں نئی اسیمبلنگ اور انجینئرنگ کسے بناتی اور کسے توڑتی ہے‘ اس کے آثار اور اسباب ایک بار پھر دہرائے جا رہے ہیں۔ الغرض یہ سبھی سماج سیوک نیتا اپوزیشن میں چور‘ ڈاکو اور لٹیرے ہوتے ہیں تو برسرِ اقتدار آتے ہی دودھ کے دھلے بن جاتے ہیں۔ گویا معتبر سے مجرم اور مجرم سے معتبر بننے کے سبھی مراحل راج نیتی سے وابستہ اور جڑے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سبھی وقتی اور مخصوص دورانیے کے لیے مجرم قرار دیے جاتے ہیں تو استغاثوں میں درج ہوشربا رقوم اور لوٹ مار پر مبنی دستاویزات کی کیا حقیقت ہے؟ وہ مال و دولت کہاں ہے جس کے لوٹے جانے کی داستانیں سنانے کے لیے سرکاری وسائل اور توانائیاں خرچ ہوتی رہی ہیں۔
استغاثہ بھی سچا اور پکا تھا‘ ٹرائل بھی خوب ہوا لیکن ریکوری تو درکنار اُلٹا کیسوں اور ریفرنسز سے دستبردار ہو کر جان چھڑوانا پڑتی ہے‘ کوئی تو بتائے کہ استغاثے کی منوں وزنی فائلوں میں کون سے گل کھلاتے رہے ہیں کہ سبھی استغاثے جھوٹے ثابت ہوتے چلے آرہے ہیں اور ملزمان باعزت بری ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی بریت کے بعد ایک بڑا اور اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل مجرم کون ہے؟ سرکاری خزانے پر ڈاکے ہوں یا وسائل پر پلنے والے سماج سیوک نیتا‘ ان سبھی کے دامن اور ہاتھ صاف ہیں تو خزانے پہ ہاتھ صاف کون کر گیا؟ مجھے کسی کی بریت پر کوئی اعتراض ہے نہ کسی کو ناحق مجرم بنانے پہ اِصرار‘ لیکن 25برسوں سے عوام کو کس کھاتے میں بیوقوف بنایا جا رہا ہے؟ گویا تین عشروں سے کبھی حصولِ اقتدار کے لیے تو کبھی طولِ اقتدار کے لیے لگے تماشے میں یہ سبھی تو باری باری چھوٹتے اور بری ہوتے چلے آرہے ہیں لیکن عوام ہر بار پکڑے ہی جاتے ہیں۔ یعنی ان سبھی کے حصے کی سزائیں عوام میں ہی تقسیم ہوتی چلی آرہی ہیں۔
ریاست کے معاملات میں آئین اور دستور کی حیثیت مقدس کتاب سے کم نہیں لیکن جہاں اس مقدس کتاب کی بے حرمتی اور حلف سے انحراف کے علاوہ مینڈیٹ کی تذلیل طرزِ حکمرانی ہو‘ وہاں یہ سبھی کھیل تماشے ملک و قوم کا مقدر بن جاتے ہیں۔ ان سماج سیوک نیتاؤں سے توقعات لگانے والے عوام کے منہ پر ووٹ کی کالک مل دی جاتی ہے۔ جس ملک میں آئین کو چار برس کی عمر میں توڑ مروڑ کر کاغذ کا پرزہ قرار دے دیا جائے‘ اس ملک میں دستور اور قانون کی یہی درگت بنتی ہے۔ آئین کو معطل کرنے والے ہر دور میں حکمرانی کے کوئی جھوٹے سچے جواز اور توجیہات ضرور لے آیا کرتے تھے تاکہ شوقِ حکمرانی میں خلل اور تنقید برداشت نہ کرنا پڑے لیکن سالِ رواں میں آئین کو جس بے توقیری اور بے وقعتی سے دوچار کیا گیا ہے‘ اس نے پون صدی کا بدترین ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ہے۔ گویا اس طرزِ حکمرانی کو اب نظریۂ ضرورت کی بھی ضرورت باقی نہیں رہی‘ بس وہی نظریات پیشِ نظر ہیں جن کیساتھ ایجنڈوں اور دھندوں کی تکمیل کے علاوہ حکمرانی کا طوفانی سفر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اکثر لکھتا چلا آیا ہوں کہ سفارش اور جگاڑ پر آنے والے افسر بالآ خر میرٹ پر فارغ ہو جایا کرتے ہیں لیکن اس بار تو میرٹ بھی اس طرح فارغ ہو چکا ہے کہ سفارش اور جگاڑ کی بلے بلے ہو رہی ہے۔ جب طرزِ حکمرانی کے سبھی روپ بہروپ ماورائے آئین ہیں تو کچھ بچے کھُچے تجربات بھی ضرور کر لینے چاہئیں۔ وضاحت کے لیے اپنے سال بھر پرانے کالم ''الیکشن یا آکشن؟‘‘ کی چند سطریں پیش خدمت ہیں کیونکہ لگے ہاتھ یہ تجربہ بھی ہو ہی جائے: ''الیکشن کے بجائے اگر آکشن کروا لی جائے تو انتظامی مشینری کو متنازع ہونے سے بھی نہ صرف بچایا جا سکتا ہے بلکہ جگہ جگہ لگی منڈی میں صبح شام اپنے اپنے اراکین کی گنتی اور تعداد پوری کرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے اور اراکین کی خریدو فروخت پر خرچ ہونے والا کالا دھن بذریعہ بولی سرکاری خزانے میں جمع ہونے سے سفید بھی کروایا جا سکتا ہے۔ جو زیادہ بولی لگائے‘ اسے اقتدار منتقل کردیا جائے اور ایک طے شدہ مدت کے بعد دوبارہ بولی لگا کر انتقالِ اقتدار کے عمل کو دہرایا جا سکتا ہے۔ اس طرح انتخابات پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اور ہارس ٹریڈنگ سے آنے والی خطیر رقم کی لاگت قومی خزانے کا حصہ بن کر معیشت کو سنبھالا دینے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ایک دوسرے پر سنگین اور شرمناک الزام لگانے کے بجائے سیاستدان آپس میں پول کرکے‘ بولی بول کر اقتدار حاصل کرکے حصہ بقدرِ جثہ کے فارمولا کے تحت اقتدار کا بٹوارہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح اتحادیوں کی بلیک میلنگ اور آئے روز کے سخت مطالبات سے بھی جان چھوٹی رہے گی۔ گویا جو لگائے گا وہی حکومت چلائے گا۔ نہ وضاحتوں کی حجت نہ روٹھوں کو منانے کا جھنجٹ۔ نہ کسی کو خریدنے کی ضرورت۔ نہ کسی کو استعفے پر آمادہ کرنے کے ترلے‘‘۔