نواز شریف طویل دوری کے بعد چوہدری شجاعت حسین کے گھر جا پہنچے۔ مل کر چلنے اور الیکشن لڑنے پر اتفاقِ رائے کے علاوہ تعلقات پر اَٹی گرد بھی جھاڑ ڈالی۔ راج نیتی میں دوستیاں اور دشمنیاں کبھی دائمی نہیں ہوتیں‘ اختلافات بھلے دشمنی تک جا پہنچیں لیکن ضرورت پڑتے ہی مفاہمت اور صلح کے سبھی مراحل منٹوں میں طے ہو جاتے ہیں۔ چوہدری برادران سے علیحدگی کی وجہ راج نیتی بنی اور اب مل کر چلنے کے عہد و پیماں بھی راج نیتی کے لیے ہی باندھے جا رہے ہیں۔ نظریات کے یہ ڈھونگ‘ اختلافات اور انتخابی جھانسے محض عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ کوئے سیاست کے حلیفوں اور حریفوں کی جمع تفریق کریں تو فقط ضرورتوں کی دلالی ہی حاصل نکلتی ہے۔ تقریباً تین عشروں تک بدترین حریف بنے ایک دوسرے کو سکیورٹی رِسک قرار دینے کے علاوہ جھوٹے سچے مقدمات اور قید و بند کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ کیسے کیسے عذابوں اور عتابوں سے دوچار کرنے والی مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے غیرمنطقی اتحاد کے پیچھے بھی ضرورتیں اور مجبوریاں ہی کار فرماں تھیں۔
حالیہ حکومتی اتحاد میں شریک سبھی جماعتیں بھی ضرورتوں کے بندھن میں بندھی اپنے اپنے اہداف اور ایجنڈوں کی تکمیل تک راج نیتی کا دھندا کرتی رہی ہیں۔ عین اسی طرح 90ء کی دہائی میں اسلامی جمہوری اتحاد میں وہ سبھی جماعتیں مفادات کے جھنڈے تلے اس لیے اکٹھی رہیں کہ ان کے سبھی نظریات اور منشور کا محور محض حصولِ اقتدار ہی تھا حالانکہ اس اتحاد میں شامل اکثر جماعتیں ایک دوسرے سے شدید ترین اختلافات رکھتی تھیں۔ حلیف سے حریف اور حریف سے حلیف بننے کی تاریخ بیک وقت دلچسپ‘ مضحکہ خیز اور فکر انگیز بھی ہے کہ یہ ہماری سیاسی اشرافیہ کے نظریات و ضروریات کی بھینٹ اس طرح چڑھتے چلے آئے ہیں کہ ان کی جماعتوں کے منشور ہوں یا دعوے اور وعدے‘ سبھی مصلحتوں اور مجبوریوں کے آگے بے معنی ہی پائے گئے ہیں۔ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے لیے گٹھ جوڑ کو کبھی میثاق کا نام دیا جاتا رہا تو کبھی اتحاد کا‘ یہ سبھی ڈھونگ دراصل مل کر کھانے اور مال بنانے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوئے۔
یہ سبھی مفادات کے مارے دلوں میں کینہ و بغض رکھتے ہوئے بھی کس طرح نمائشی معانقے اور مصافحے کرتے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بتیسیاں نکالتے فوٹو سیشن تو کرواتے پھرتے ہیں لیکن جونہی مفادات پر ذرا آنچ آئی‘ فَٹ سے اصولی سیاست اور نظریات کا بخار اس طرح چڑھتا ہے کہ پَل بھر میں منظر ہی بدل جاتا ہے۔ بند کمروں کے راز و نیاز دیکھتے ہی دیکھتے وائٹ پیپر بنا ڈالتے ہیں پھر ہرزہ سرائی اور الزام تراشیوں سے لے کر کردار کشی سمیت سبھی کچھ کرکے بھی حریف سے حلیف بنتے ذرا نہیں ہچکچاتے۔ اسی طرح جوں جوں سیاست تجارت بنتی چلی گئی توں توں کالے دھن کا دھواں سیاسی ماحول کو اس طرح آلودہ اور پراگندہ کرتا چلا گیاکہ اس کی کالک سے کوئی نہ بچ سکا۔ یہ سبھی بدترین مخالفین کے ساتھ تو چل سکتے ہیں لیکن عوام کو ساتھ لے کر کبھی نہیں چلے کیونکہ عوام سے تو انہوں نے صرف جھوٹا سچا مینڈیٹ ہی لینا ہوتا ہے باقی سبھی بٹوارے اور لین دین تو آپس میں کرنے ہوتے ہیں۔ عوام کو وعدوں کے عوض دھتکار اور پھٹکار کے علاوہ رسوائیاں اور پچھتاوے ہی بچتے ہیں جبکہ حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کی غرض سے کیے گئے وعدوں اور عہد و پیماں میں جڑے یہ سبھی اپنا اپنا حصہ اور مال برابر وصول کرتے چلے آئے ہیں۔
اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کا یہ کھیل راج نیتی میں خاصا مقبولِ عام ہے۔ پون صدی سے جاری یہ کھیل تماشا حالیہ چند دہائیوں میں جہاں شدت اختیار کرتا چلا گیا وہاں مزید بدعتوں کے ساتھ نظریات اور اخلاقیات سے بھی عاری ہوتا چلا گیا۔ مال لگاؤ‘ مال بناؤ سے لے کر عوام کو برابر بیوقوف بنانے کا یہ سلسلہ دو جماعتی نظام میں اس قدر عروج پر رہا کہ تفصیل میں جاؤں تو کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے۔ تیسری جماعت تبدیلی کا نعرہ لگا کر جب برسرِ اقتدار آئی تو اس نے بھی اپنے وعدوں اور دعوؤں کے برعکس دوجماعتی نظام کی طرزِ حکمرانی کی سبھی بدعتوں کے بدترین ریکارڈ دِنوں میں ہی توڑ ڈالے۔ اب یہ عالم ہے کہ سبھی سیاسی جماعتیں اور سماج سیوک نیتا اس طرح آزمائے جا چکے ہیں کہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسے موقع اور حکمرانی ملتی تو وہ فلاں توپ ضرور چلاتا۔ توپیں تو سبھی اپنے اپنے دور میں چلاتے آئے ہیں لیکن ان توپوں کا رُخ ہمیشہ عوام کی طرف ہی رہا ہے۔
بات چلی تھی اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے لیے مل کر چلنے اور الیکشن لڑنے کی‘ اقتدار کی شدتِ طلب ان سبھی کو اس طرح بے حال کرتی چلی آئی ہے کہ بے نظیر نے اپنی زندگی میں جنہیں اپنی متوقع غیر طبعی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا‘ آصف علی زرداری نے انہی سے ہاتھ ملا لیا۔ اسی طرح عمران خان دھرنوں اور انتخابی جلسوں میں جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہہ کر للکارے مارتے تھے‘ انہی سے اتحاد جہاں مجبوری بنا وہیں انہیں سپیکر شپ اور وزارتِ اعلیٰ دینے کے علاوہ پارٹی صدارت بھی دینا پڑی۔ جس شیخ رشید سے عمران خان کو بے شمار اختلافات تھے‘ انہیں یکے بعد دیگرے کئی وفاقی وزارتوں کے قلمدان بھی دینا پڑے۔ کہیں فیس کی تبدیلی تو کہیں بھیس کی تبدیلی کے ساتھ ماضی کے سبھی حربے اور ہتھکنڈے لیے نئے گٹھ جوڑ اور اتحاد بنائے جا رہے ہیں۔ راج نیتی میں نقب لگانے کے لیے نئی بساط بچھائی جا رہی ہے‘ مہرے اور پیادے چالیں اور پوزیشنیں بدل رہے ہیں‘ کل کے حریف آج کے حلیف تو کل کے حلیف آج کے حریف بن رہے ہیں۔ مفادات کے جھنڈے تلے اکٹھے ہونے والے اپنے اپنے مفادات اور ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے ایک بار پھر جھنڈے بدل رہے ہیں۔ گویا غول در غول وسائل پر حملے اور اقتدار کے بٹوارے کیلئے کہیں دوریاں مٹائی جا رہی ہیں تو کہیں فاصلے‘ جن سے ملاقات اور کلام گوارا نہ تھا ان کے در پہ بھاگ بھاگ کر جا رہے ہیں۔ یہ سبھی تماشے اور گورکھ دھندے ان سماج سیوک نیتاؤں کے لیے پاور پلے کا حصہ ہے۔ ضرورت مندی کی زنجیروں میں جکڑے یہ سبھی اس وقت تک شیر و شکر اور ہم قدم ہیں جب تک ان کے اہداف اور مفادات ایک ہیں۔
راج نیتی کے سبھی روپ بہروپ اور چہروں کو اپنے کالموں کی زینت بنا کر عوام کو برابر باور کرواتا چلا آرہا ہوں لیکن عوام بھی اس قدر مستقل مزاج ہیں کہ انہیں مسلسل دھوکے کھانے کے بعد ان دھوکوں کی ایسی لت پڑ چکی ہے کہ وہ ان سماج سیوک نیتاؤں کے بڑے سے بڑے جھوٹ اور لوٹ مار سے لے کر بدترین طرزِ حکمرانی کے سبھی عذابوں کو اپنا مقدر سمجھ کر بھگتتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے لیڈروں کے منہ کو جس طرح اقتدار کا خون لگ چکا ہے اسی طرح عوام بھی ان سہولتوں اور ضروریات سے دست بردار ہو چکے ہیں جو ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ جو عوام اپنے بنیادی حقوق پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں‘ اس کے حالاتِ پریشاں کو کون ٹال سکتا ہے۔ ضرورتوں کی دلالی اور شوقِ حکمرانی کے تحت ہونے والے سمجھوتے ہوں یا اتفاقِ رائے‘ اعلامیے ہوں یا مفاہمتیں‘ سبھی کا آغاز اور انجام عوام کے لیے جہاں سبق آموز رہا ہے وہاں کئی سبق آموز ادوار بھگتنے کے باوجود عوام ہمیشہ نئے اور مزید بڑے سبق کے لیے تازہ دَم اور ہر گھڑی تیار ہی پائے گئے ہیں۔