اخبارات کے ڈھیر میں سرخیوں اور شہ سرخیوں سمیت دیگر نمایاں خبروں میں چھپی ایک سنگل کالم خبر سب پر بھاری اور معنی خیز ہے۔ اکثر ایسی چھوٹی خبریں بڑے واقعات کا عندیہ ثابت ہوتی ہیں۔ چلتے ہیں مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کی طرف جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ''روزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ الیکشن ہونے چاہئیں‘‘۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کی ایک اور تخریبی کارروائی کے دوران جہاں 25جوانوں کی شہادت یقینا ایک بڑا دھچکا ہے جبکہ 27دہشت گرد بھی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ دہشت گردی کی لہر میں شدت اور آئے روز شہادتیں یقینا اندرونی استحکام اور امن کے لیے خطرے کے ساتھ ساتھ ریاست کے دیگر معاملات کو متاثر کرنے کا حربہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن انتہائی زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ چھوٹی خبر میں چھپا ہوا ان کا یہ بیان کل بڑی خبر بھی بن سکتا ہے۔ انتخابات کے لیے ماحول پُرامن اور حالات سازگار نہ ہوں تو انتخابی عمل میں یقینا رخنہ پڑ سکتا ہے۔ مولانا کے اس بیان میں جہاں تخریبی کارروائیوں اور شہادتوں پر تشویش نظر آتی ہے وہاں ایک دَبی دَبی خواہش بھی جھلک رہی ہے۔ خدا جانے وہ کس کیفیت کے تحت انتخابات کو مؤخر کرنے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ متوقع انتخابی نتائج سے خائف ہیں یا دہشت گردی کی کارروائیوں کو عذر بنا کر نیا بیانیہ مارکیٹ کیا جا رہا ہے۔ خاطر جمع رکھیے! ہماری سکیورٹی فورسز اور سرحدوں کے محافظ کئی دہائیوں سے وطن دشمن عناصر کی سبھی کارروائیوں سے باخبر ہیں اوران سے برابر نمٹتے چلے آ رہے ہیں۔ ظاہری اور پوشیدہ سبھی دشمنوں کو ان کے مقاصد میں ناکام بنانے کے لیے نہ صرف جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں بلکہ اُن کے سبھی عزائم بھی خاک میں ملائے ہوئے ہیں۔ مولانا صرف اپنے سیاسی محاذ کی فکر کریں‘ سرحدی اور اندرونی انتشار سے نمٹنے کے لیے ہمارے جوان اور افسران نہ صرف جاگ رہے ہیں بلکہ ان کے نشانے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی تاک میں ہیں۔
دوسری طرف میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ انتقام نہیں چاہتے لیکن اپنی حکومتیں ختم کرنے والوں سے حساب مانگنے کے علاوہ وہ کھیل بھی بند کرنے کا مطالبہ ضرور کر رہے ہیں جو کئی بار ان سے کھیلا جا چکا ہے۔ گویا وہ آئندہ انتخابات سے پہلے وہ پنڈورا باکس کھولنا چاہتے جو ہر دور میں اَدھ کھلا ہی رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ میدان میں اُترنے سے پہلے ان بدعتوں پر بند باندھنا چاہتے ہیں جو ہر بار انہیں گراؤنڈ سے نکالنے کا باعث بنتی رہی ہیں۔ تین بار اسی کھیل میں ہدف بننے والے میاں نواز شریف اب بخوبی جان چکے ہیں کہ راج نیتی میں شکار اور شکاری بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ان کے خلاف بنائے گئے سبھی کیسز کا انجام عدالتوں سے بریت پر ہو چکا ہے۔ اسی طرح دیگر زیر عتاب اسیر بھی بریت کے پروانے حاصل کر چکے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں اقاموں اور پاناموں کو بنیاد بنا کر جو اُدھم ملک کے طول و عرض میں مچایا گیا‘ اس کے سبھی کردار بے نقاب ہو کر جہاں اپنے اپنے اصل ٹھکانوں پر پہنچ چکے ہیں وہاں میاں نواز شریف بھی اس مقام پر آن کھڑے ہیں کہ بظاہر اقتدار دہلیز پر نظر آرہا ہے۔
اس تناظر میں میاں نواز شریف قسمت کے وہ دَھنی ہیں کہ: ادھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ اُدھر ڈوبے ادھر نکلے۔ بالخصوص حالیہ دو ادوار میں انہیں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ پرویز مشرف نے جب ان کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو کس طرح پورے خاندان سمیت جلا وطن کر دیا گیا۔ پھر قسمت نے اس طرح پلٹا کھایا کہ بلاشرکت غیرے اقتدار کا سکہ چلانے والے پرویز مشرف نہ وطن واپسی سے روک سکے اور نہ ہی الیکشن لڑنے سے۔ اسی طرح 2018ء میں نااہلی اور دیگر سزاؤں سمیت اقتدار سے نکل کر قید وبند کی صعوبتوں اور خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹے تو ناصرف سربلند سرنگوں ہو چکے تھے بلکہ ستم ظریفی کے سبھی پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔ قدرت نے ایک بار پھر انہیں اقتدار کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے‘ کب دروازہ کھلتا ہے اور وہ کب داخل ہو کر براجمان ہوتے ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن سیاسی پنڈتوں اور دور کی کوڑی لانے والوں کے مطابق کئی دیگر آپشنز اور گیم پلان بھی زیرِ غور ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ سے لے کر وزرائے اعلیٰ تک سرپرائز کی بازگشت بھی برابر سنائی دے رہی ہے۔ ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ حساب لیتے لیتے کہیں ڈیڈ لاک ہی نہ لگا بیٹھیں کیونکہ حساب کا لفظ سننے والوں کو انتقام ہی سنائی دے رہا ہے۔ تاہم جو پنڈورا باکس وہ کھولنا چاہتے ہیں وہ دراصل توڑی کی وہ پنڈ ہے جس کے کھلتے ہی تنکا تنکا نہ صرف فضاؤں میں اُڑتا دکھائی دے گا بلکہ اکٹھا کرنے والے بھی شاید اسے اکٹھا نہ کر پائیں۔
دہشت گردی کی بدستور کارروائیوں سے تو شاید انتخابات میں رُکاوٹ نہ پڑے لیکن توڑی کی پنڈ کھلنے کے بعد آپشن اور پلان بدلنے کیساتھ ساتھ انتخابات کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑنے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔ ان خدشات کو ہوا دینے اور بڑھانے کے بجائے ہر قیمت پر انتخابات کروانے کو ہی انتقام اور حساب سمجھیں۔ قدرت بار بار موقع دے رہی ہے‘ لمحۂ موجود ہی سب کچھ ہے اور ان لمحات کی مٹھی سے سرکتی ہوئی ریت کو محسوس کریں۔ قسمت نے اگر پلٹا کھا ہی لیا ہے تو اسے اُلٹ پلٹ کرنے کے بجائے فراخدلی اور درگزر کے ساتھ خود احتسابی کو بھی پیشِ نظر رکھیں۔ ماضی کے ادوار کی کوتاہیاں ہو یا غلطیاں‘ غیر ذمہ داریاں ہوں یا نالائقیاں‘ مصاحبین ہوں یا وزرا و مشیر‘ سبھی پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق بننے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ ماضی کی بدعتوں کے ساتھ نہ تو ازالے ممکن ہیں اور نہ ہی عوام کی بدحالی دور ہو سکتی ہے۔ باقی: جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے۔
چلتے چلتے کچھ احوال تختِ پنجاب کا۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے نام کے ساتھ نگران کا لفظ بوجوہ ہی لگا رہا کہ وہ صوبے کے بیشتر معاملات نگرانوں سے کہیں زیادہ توجہ‘ محنت اور دردمندی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ طوفانی دورے‘ ہنگامی اقدامات اور موقع پر فیصلے انہیں جہاں ممتاز کیے ہوئے ہیں وہاں تھانوں کی حالت سدھارنے سے لے کر ہسپتالوں کو اَپ گریڈ کرنے کے علاوہ ریکارڈ مدت میں انڈر پاسز اور فلائی اوورز جیسے منصوبوں کی تکمیل سمیت نجانے کیا کچھ کیے جا رہے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے اپنے طوفانی دوروں کے دوران ڈاکٹروں کے بارے میں ایک جملہ بھی کہہ ڈالا کہ ''جب تک ڈاکٹر حق حلال کمانا شروع نہیں کریں گے تو محکمۂ صحت درست نہیں ہو سکتا‘‘۔ ان کے اس بیان پر ڈاکٹر برادری میں ردِعمل اور غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ تعجب ہے کہ حلقہ بگوشوں‘ عرض گزاروں اور تمکنت کے مارے سرکاری بابوؤں کے جھرمٹ میں وزیراعلیٰ کو صرف ڈاکٹر ہی کیوں نظر آئے؟ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے سربراہان سے لے کر محکمہ مال‘ پولیس اور انتظامی بابوؤں کی خبر لیں تو پتہ چلے کہ کون کہاں جھوم رہا ہے۔ کیسی کیسی داستانیں اور وارداتیں زبان زدِ عام ہیں۔ کس کس کا ذکر کروں‘ کس کس کا نام لوں سب کو سبھی جانتے ہیں‘ نگران وزیراعلیٰ بھی یقینا جانتے ہی ہوں گے کہ کس کے ہاتھ کہاں رَنگے ہوئے ہیں۔ ان سبھی کی نیک کمائیوں کے آگے ڈاکٹر بیچارے تو مظلوم نظر آئیں گے۔