مایوسیوں کے گھیرے اور اُداسیوں کے ڈیرے پہلے ہی طبیعت اس طرح بوجھل کیے ہوئے ہیں کہ جاتے ہوئے دسمبر کے شب و روز ناسٹیلجک اور عجیب سی بے چینی کا باعث ہیں۔ وقت کی مٹھی سے مہلت کی سرکتی ہوئی ریت ایسے نکلتی چلی جا رہی ہے کہ پتہ ہی نہ چلا کہاں سے چلے اور کہاں آن پہنچے۔ ہر گزرتے لمحے کیساتھ زندگی کے جھمیلے ہوں یا بھول بھلیاں‘ سبھی کے عقدے اور بھید بھاؤ اس طرح کھلتے چلے جا رہے ہیں کہ جیسے سینہ ہی کھل گیا ہو۔ کسی کو عاجزی کا غرور ہے تو کسی کو پارسائی کا تکبر تو کوئی علمیت پر اترائے جا رہا ہے۔ دانشوری کے نام پر کیسے کیسے جگاڑ اور ڈھونگ رچانے والے ہوں یا ضرورتوں کی دلالی کرتے سیاستدان‘ گورننس کے نام پر سرکاری وسائل کی بندر بانٹ کرنے والے ہوں یا خزانے کو مالِ مفت کے طور پر اُڑانے والے سرکاری بابو‘ سوشل ورک کی آڑ میں صدقات‘ زکوٰۃ اور خیرات پر جنموں کی بھوک مٹانے والے ڈھونگی ہوں یا سیاست کو تجارت اور راج نیتی کو دھندا بنانے والے‘ کیسی کیسی زندہ حقیقتیں مغالطے اور جھانسے بنے منہ چڑا رہی ہیں کہ ''لوگ وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں‘‘ اور جو نظر آتے ہیں اسے ثابت کرنے کیلئے محفلِ یاراں سے بزمِ ناز تک کیسے کیسے ڈھونگ اور روپ بہروپ بدلتے‘ چہروں پہ چہرے سجائے اداکاریوں کے جوہر دِکھائے جا رہے ہیں۔ بقول غالب:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
آج کے کالم میں کہیں بے ربط اور مجہول ہونے کا گماں ہو تو اس کی واحد وجہ وہ کیفیات ہیں جو سیاست کے کھیل تماشوں سے بیزار اور عاجز آچکی ہیں۔ پون صدی سے جاری اس اُدھم میں رَتی برابر فرق نہیں پڑا۔ وہی حکمران‘ وہی مائنڈ سیٹ‘ وہی وعدے‘ وہی جھانسے‘ وہی دھوکے‘ راج نیتی کے اس کھیل میں سب کچھ جوں کا تُوں جاری ہے۔ آئین سے لے کر حلف اور قانون سے لے کر ضابطوں تک سے انحراف حکمرانی کا طرۂ امتیاز بن جائے تو ریاست اور سیاست کا حشر نشر کیوں نہ ہو؟ اقتدار اور وسائل پر غول در غول حملہ آور ہونے والوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا البتہ نسل در نسل دنیا چھوڑنے والے پسماندگان کو ترکے میں پریشان حالی سمیت نجانے کیسی کیسی پریشانیاں دے گئے ہیں اور یہی ترکہ مزید تڑکے کے ساتھ نجانے کتنی نسلوں تک منتقل ہوتا رہے گا۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے تو پورا سچ بول کر ''تراہ‘‘ ہی نکال ڈالا ہے کہ انتخابات پر 59ارب روپے کی خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود بھی اگر کسی پارٹی نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کیے تو نہ صرف ملک سنگین بحرانی کیفیت سے دوچار ہو جائے گا بلکہ دیوالیہ ہونے کا خطرہ بھی مزید بڑھ جائے گا۔ حالیہ کالموں میں انہی حالات کا ماتم کرتا چلا آرہا ہوں جو الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر کنور دلشاد اپنے طریقے سے باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں کچھ حلقوں کی وجہ سے عام انتخابات کے نتائج متنازع ہونے کے امکانات موجود ہیں وہاں انتخابی عمل سے منسوب طریقہ کار پر تو پیشگی سوالات اٹھ چکے ہیں۔ ایسے میں کنور دلشاد کے خدشات اور میرا ماتم ایک پیج پر ہے۔ وہ سیاسی جماعت جس نے بیوروکریسی سے انتخابی عملہ لینے کے خلاف درخواست دائر کروائی تھی وہ ان سرکاری بابوؤں کے کروائے ہوئے انتخابات کے نتائج کیسے من و عن تسلیم کرے گی؟ اگر انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے کوئی بھی ابہام موجود رہا تو انتخابی عمل اور نتائج دونوں ہی متنازع اور سنگین صورتحال کا باعث بن سکتے ہیں۔ گوکہ سپریم کورٹ کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کا بیوروکریسی سے انتخابی عملے کی تعیناتی منسوخ کرنے کا فیصلہ معطل کیا جا چکا ہے‘ تاہم یہ یقین دہانی بھی ضرور کر لینی چاہیے کہ کہیں انتخابات کے بعد حالات وہ رُخ اختیار نہ کر لیں کہ انتقالِ اقتدار ہی کھٹائی میں پڑ جائے۔ 59ارب روپے کی خطیر لاگت کے بعد بھی اگر انتخابی عمل سبوتاژ ہونے کا خدشہ موجود ہو تو اس خدشے کے تدارک کے لیے ان تحفظات اور اعتراضات کو ضرور دور کر لیں جو بڑے سنگین بحران کا سنگِ میل بن سکتے ہیں۔ اگر ان خدشات کے سائے میں انتخابات کروائے گئے تو بڑے مالی خسارے کے ساتھ ساتھ اس قومی نقصان کا خطرہ بھی برابر موجود رہے گا جو ریاست کے لیے ناقابلِ تلافی صدمے کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف نگران سرکار کی طرزِ حکمرانی کے کئی ایڈوینچرز کی قیمت مسلم لیگ(ن) کو عام انتخابات میں اس لیے چکانا پڑے گی کہ ان حالاتِ پریشاں میں عوام کو مزید پریشان کرنے کے لیے بابو دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری کی آڑ میں تھانے بھرنے کے ساتھ ساتھ چالان کی بھاری رقوم سے جہاں خزانے کی بھرائی جاری ہے وہاں کرپٹ عناصر بھی بے خوف و خطر جیبیں بھر رہے ہیں۔ یکم جنوری سے ڈرائیونگ لائسنس فیسوں میں بھی تقریباً 16گنا سے زائد اضافے کا اعلان ہو چکا ہے۔ اسی طرح صوبائی دارالحکومت میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے دوران مقدمے اور گرفتاری کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے جبکہ تجاوزات کے نتیجے میں متوقع بے روزگاری کے بارے میں کوئی حکومتی پلان سامنے نہیں آیا۔ تجاوزات کا مسئلہ دیرینہ ہے‘ جہاں اختیارات سے تجاوز کرنے کی بدعت عام ہو وہاں ہر سُو تجاوزات ہی ہوتی ہیں۔ کہیں قانون تو کہیں آئین سے تجاوز جاری ہے۔ ایسے میں بجلی صرف ماڑے اور بیچاروں پر ہی گرائی جا رہی ہے جبکہ دیگر تجاوزات کے مرتکب حکمرانوں اور بابوؤں کو شاید کوئی ایسا استثنیٰ حاصل ہے جو آئین اور قانون کی کتابوں میں تو درج نہیں ہے۔ ایسے ایڈوینچرز کی قیمت عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو بھگتنی پڑ سکتی ہے۔
تجاوزات کے خلاف آپریشن میں سرگرم سرکارکا جذبہ دیکھ کر کچھ یاد آگیا جو اس طرح ہے: ''ایک محفل میں کسی وزیر کے بارے میں بات چل رہی تھی کہ وہ انتہائی بااصول اور قانون پسند ہیں جو کام بھی کرتے ہیں ''According to the Book‘‘ ہی کرتے ہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف کوئی ان سے کام نہیں کروا سکتا۔ یہ گفتگو شدید اختلافِ رائے کے ساتھ بحث کی صورت اختیار کر گئی۔ محفل میں شریک اکثر احباب نے جواباً وزیر موصوف سے منسوب ایسے واقعات کی نشاندہی بھی کر ڈالی جو اصول پسندی اور قانون کی ضد کے علاوہ ''According to the Book‘‘ کے استعارے کے برعکس تھے۔ جب بحث گرما گرمی کی صورت اختیار کرنے لگی تو وزیر کا ذکر چھیڑنے والے صاحب مسکراتے ہوئے بولے میں کہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو‘ میں ان وزیر صاحب کو بہت پرانا اور قریب سے جانتا ہوں۔ وہ سبھی کام ''According to the Book‘‘ کرتے ہیں لیکن یہ Book انہوں نے خود ہی لکھی ہے۔ اس واقعہ کو ماورائے آئین اور زائد المیعاد وفاقی و صوبائی حکومتوں سے منسوب ہرگز نہ کیا جائے کیونکہ سبھی کام تو ''According to the Book‘‘ ہی ہو رہے ہیں۔
چلتے چلتے اس نہری بھل صفائی کا بھی ذکر ہو جائے جو مدتوں بعد شروع ہونے جا رہی ہے۔ ماضی میں اس بھل صفائی کو ''وَل صفائی‘‘ اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ بھل صفائی ہو نہ ہو‘ ہاتھ کی صفائی برابر اور خوب صفائی سے ہوا کرتی تھی۔ خدا کرے یہ بھل صفائی پھر سے وَل صفائی نہ بن جائے۔