راج نیتی کے دنگل اور کوئے سیاست کے گورکھ دھندے نے وہ ماحول بنا ڈالا ہے کہ حدِ نگاہ تک غبار ہی غبار ہے۔ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا تو کسی کو سجھائی نہیں دے رہا۔ جہاں خوب اور ناخوب بدل چکے ہیں وہاں غالب اور مغلوب بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ ایوانوں میں براجمان زندانوں میں جا پہنچے ہیں تو زندانوں کے مکین ایوانوں میں بسنے والے ہیں۔ راج نیتی کے اس کھیل میں چہروں کے ساتھ کردار بھی بدلتے رہتے ہیں لیکن کھیل جوں کا توں ہی رہتا ہے۔ انتخابی شیڈول آنے کے بعد گہما گہمی اور بھاگ دوڑ سے ایسی ایسی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ اکثر گماں ہوتا ہے کہ پانچ سال پرانا کھیل مخصوص تبدیلیوں کے ساتھ پھر کھیلا جا رہا ہے۔ وہی کیسز‘ وہی ریفرنسز‘ وہی مقدمات‘ وہی گرفتاریاں‘ وہی الزامات‘ کہیں استغاثے بدل گئے تو کہیں اسیر‘ ماضی کے سبھی مہنگے کیسوں میں دھرے جانے والے ناصرف سستے چھوٹ چکے ہیں بلکہ استغاثے بنانے اور چلانے والوں کو بھی عتاب کی سزاؤں کا سامنا ہے‘ تاہم نئے مہنگے کیسز بناکر ماضی کی سبھی روایات اور بدعتوں کو بدستور دوام بخشا جا رہا ہے۔
نیب کا عیب تو اب خاص و عام سبھی جان چکے ہیں‘ ماضی کے رنگین اور سنگین سبھی کیسز کا اَنت دیکھنے کے بعد حال کے اسیر اور سبھی زیر عتاب ایک نامعلوم سی خوش فہمی کا شکار ہیں کہ مصیبت کے یہ ایام مستقل ہرگز نہیں‘ چند ماہ و سال کی قیدوبندکے بعد وقت کا پہیہ انہیں اسی طرح زندان سے ایوان میں جا پہنچائے گا جس طرح ماضی کے سبھی اسیر اور زیر عتاب ایوانوں میں جا پہنچے۔ راج نیتی کے کھیل کا یہی خاصہ اور کرشمہ ہے کہ کسی کو خاک بنا دے‘ کسی کو زر کر دے۔ سنگین سے سنگین کیسز ہوں یا ناقابلِ تردید ریفرنسز‘ ان سبھی میں صفائی اور بے گناہی ثابت کرنے کے بجائے خود کو ناخوب سے خوب بناکر قابلِ قبول ثابت کرنا ہی اصل کمال ہے۔ جائزہ لیں تو سبھی استغاثے اور وکالتیں غیر موثر اور بے معنی ہی ٹھہرتی چلی آئی ہیں۔ ریلیف اور بریت کیلئے مقبولیت کے پہاڑ پر کھڑے ہونا ہی ہرگز کافی نہیں‘ قبولیت کے بغیر مقبولیت کا ''ٹَکا‘‘ مول نہیں پڑتا۔ راج نیتی کے اسرار و رموز اور بھید جاننے کے بعد کم و بیش سبھی کو بخوبی باور ہو چکا ہے کہ نیب کا اصل عیب ہے کیا؟ جو اس عیب کو جان گیا وہ امان پا گیا اور جو اَڑ گیا وہ مارا گیا۔
انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے‘ ٹکٹوں کی تقسیم اور کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے جا رہے ہیں جبکہ اکثر اُمیدواروں اور تائید کنندگان کو اسی صورتحال کا سامنا ہے جو 5سال قبل اس وقت کی زیرِ عتاب پارٹی کے اُمیدواروں کو رہا ہے۔ وکلا تنظیموں نے چیف الیکشن کمشنر پر عدمِ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ انہی انتظامی بابوؤں کو ریٹرنگ اور پریذائیڈنگ افسر نامزد کر دیا گیا ہے جن سے ایک جماعت کو تحفظات ہیں۔ اس تناظر میں انتخابی عمل اور نتائج پر پیشگی سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ ان سوالات کے جواب دینے کے بجائے مزید سوالات کا باعث بننے والے سبھی اقدامات برابر جاری ہیں۔ انتخابی شیڈول جاری کرنے سے پہلے انتظامی و پولیس افسران کے تبادلوں سے فرار بھی بوجوہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دور کی کوڑی لانے والے ان انتخابات کے حوالے سے ‘میرے منہ میں خاک‘ نجانے کیا کچھ کہہ رہے ہیں۔ ان سبھی وسوسوں اور اندیشوں پر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ خدا نہ کرے لیکن اصرار اور ضد کے زیر اثر کیے گئے فیصلوں کو قدرت کب تک ٹال سکتی ہے۔
ماضی کی کھیتی حال اور حال کی کھیتی بہرحال مستقبل ہی کاٹتا ہے۔ ہر دور میں یہ سبھی کھیتیاں کاٹنے والے تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اسے برابر پیٹتے ہی چلے آرہے ہیں۔ بالخصوص انتظامی افسران ہوں یا احتسابی چمپئن‘ یہ سبھی ہر دور میں کہیں ایندھن بنتے چلے آئے ہیں تو کہیں بَلی کے بکرے۔ حکمرانوں کی سہولت کاری کے عوض اہم اور کلیدی عہدے تو مل ہی جاتے ہیں لیکن حالات اور منظرنامہ بدلتے ہی بڑی قیمتیں بھی چکانا پڑتی ہیں۔ ماضی کے کیسے کیسے نام اور کیسے کیسے کردار کہیں زیر عتاب ہیں تو کہیں زیر حساب‘ کہیں ناقدری کا شکار ہیں تو کہیں بے توقیری کا۔ راج نیتی کے اس کھیل میں ہر دور میں چند افسران ایسے ہوتے ہی ہیں جو حکمرانوں کے سر چڑھے ہونے کیساتھ ساتھ ان کے حسرت نما خوابوں کو تعبیر سے ہمکنار کرنے کیلئے ضابطوں اور قوانین کو سرنگوں کرنے کے علاوہ میرٹ اور گورننس کی بھی درگت بنانے کے حیلے اور جواز ڈھونڈ لاتے ہیں۔ ان سبھی خدمات اور سہولت کاریوں کے عوض ان بابوؤں کو لمبا مال بنانے اور دنیا سنوارنے پر کوئی ممانعت نہیں ہوتی‘ سبھی ایک دوسرے کی ضرورت بن کر اپنی اپنی ضرورتوں کی دلالی کرتے چلے آئے ہیں۔ ماضی کے سبھی ادوار سے جاری یہ بدعتیں آج بھی زور و شور سے جاری ہیں۔
جھاکہ اُترے سرکاری بابو راج نیتی کے اگلے معرکے میں نئے ریکارڈ بنانے کیلئے بے تاب اور ہمہ وقت تیار ہیں۔ مقامِ فکر ہے کہ جہاں قوم فکری اور نظریاتی اعتبار سے تقسیم ہوتی چلی آرہی ہے وہاں سیاسی اشرافیہ نے کمال مہارت سے وفاقِ پاکستان کی اعلیٰ ترین سروسز کے سرکاری بابوؤں کو بھی اس طرح تقسیم کر ڈالا ہے کہ ہر خاص و عام بخوبی جانتا ہے کہ کس افسر کی وابستگی اور وفاداری کس پارٹی کیساتھ ہے۔ کسی راہ چلتے سے بھی پوچھ لیں تو وہ بتا سکتا ہے کہ فلاں پارٹی کی حکومت ہوئی تو چیف سیکرٹری اور آئی جی سمیت دیگر اہم عہدوں پر کون کون سے سرکاری بابو براجمان ہو سکتے ہیں۔ جب وفاداریاں اور دلداریاں پارٹیوں اور شخصیات سے منسوب اور مشروط ہو کر رہ جائیں تو کونسی گورننس‘ کہاں کا میرٹ؟ اس پر ستم ظریفی یہ کہ شخصیت پرستی اور سہولت کاری کی زنجیروں میں جکڑے یہ بابو سوائے اپنے کام کے سبھی کام اس ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے کر جاتے ہیں کہ قانون اور ضابطے حیران اور اخلاقی و سماجی قدریں شرمسار پھرتی ہیں۔
بھاری سرکاری اخراجات اور وسائل پر زیر عتاب پارٹی کے سرکردہ افراد کو اس طرح لیڈر بنایا جا رہا ہے کہ ساری عمر بھی جوتے چٹخاتے رہتے تو اس مقبولیت کا چند فیصد بھی نصیب نہ ہوتا جو فقط سرکار کی مرہونِ منت ہے۔ جو یونین کونسل کا الیکشن جیتنے کے قابل نہیں تھے انہیں وہ پذیرائی مل رہی ہے کہ وہ انتخابی مہم کے بغیر گھر بیٹھے الیکشن جیتنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ یہ حکمتِ عملی اور ہینڈلنگ ماضی کے کسی دور میں موثر اور کامیاب نہیں رہی تو آج کیونکر ممکن ہے۔ انہیں اَن ٹچ ایبل بننے سے روکنا ہے تو انہیں ٹچ کرنا چھوڑ دیں۔ خود بخود اپنے اس سائز اور اوقات میں واپس آ جائیں گے۔ سرکاری بابوؤں کی ہلّہ شیری اور بڑھکیں مسائل کو بڑھانے اور مزید الجھانے کے علاوہ الٹا ان سبھی کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ مِس ہینڈلنگ اور مِس کیلکولیشن یونہی جاری رہی تو یہ سبھی انتظامی چمپئن مزید طاقتور اور ناگزیر ہوتے چلے جائیں گے لیکن ان کے سبھی ایڈوینچرز کی قیمت ریاست اور سسٹم کو ہی چکانا پڑے گی۔ ماضی کے سبھی تجربات اور ان کے نتائج کو دہرانے کے بجائے ان سے تھوڑا سا سبق سیکھ لیا جاتا تو حالات اس قدر گمبھیر اور اُلجھتے نہ چلے جاتے۔ ذرا غور تو کریں! دوا بھی برابر جاری ہے اور مرض بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ گویا: مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ مرض اور دوا کے درمیان کوئی تو کھیل رہا ہے۔