اخبارات میں سرخیوں اور شہ سرخیوں کے جھرمٹ میں اکثر چھوٹی خبروں میں بڑی بات لپٹی ہوتی ہے۔ معنویت اور گہرائی کے حوالے سے سبھی چھوٹی بڑی خبریں تبصرے پر اُکسانے کا باعث ہوتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر تو سیاسی اکھاڑے اور سرکس سے جڑی خبروں کی درجہ بندی کچھ اس طرح کرتا ہوں کہ بری خبر‘ اس سے بری خبر‘ اس سے بھی بری خبر اور سب سے بری خبر۔ ان میں سے اکثر خبروں کے بارے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اس پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوا جائے یا ماتم کیا جائے۔ بالخصوص سیاسی اشرافیہ کے بیانات پر مبنی شہ سرخیاں پڑھ کر تو بے اختیار وہ پپو یاد آ جاتا ہے جس نے اپنے باپ کو گھر میں گھستے ہی لپک کر گھیر لیا اور بولا کہ پاپا! میرے پاس آپ کو سنانے کے لیے ایک اچھی خبر ہے اور ایک بری۔ باپ نے بے تابی سے کہا کہ پہلے اچھی خبر سناؤ۔ پپو بولا: میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہوگیا ہوں۔ باپ خوش ہوکر بولا: شاباش بیٹے‘ چلو اب بری خبر سناؤ۔ جس پر بیٹے نے چہکتے ہوئے جواب دیا کہ پہلی خبر جھوٹی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں کوئے اقتدار اور کوئے سیاست سے آنے والی ہر پہلی خبر اس طرح جھوٹی ثابت ہوتی چلی آرہی ہے جس طرح پپو کے پاس ہونے کی خبر جھوٹی تھی۔
اخبارات میں سجی ایسی خبریں ہوں یا الیکٹرانک میڈیا پر سکرین گھیرے ہوئے خبریں ہوں‘ ان سبھی خبروں کو خبر سے منسوب شخصیات سے زیادہ سنجیدہ ہرگز نہیں لینا چاہیے۔ فیس سیونگ اور اتمامِ حجت کیلئے جاری بیانات ہوں یا گمراہ کن اور نمائشی دعوے‘ دلفریب اعداد و شمار ہوں یا جھانسے‘ سبھی پپو کی پہلی خبر ہوتے ہیں۔ انہیں سنجیدہ لینے سے پہلے اُس دوسری خبر کا انتظار ضرور کر لینا چاہیے جو ان سبھی کی تردید کر ڈالتی ہے۔ عوام بھی اس قدر سادہ ہیں کہ برابر جھوٹی ثابت ہوتی سبھی خبروں سے گمراہ ہونے کیلئے ہمہ وقت تیار ہی پائے گئے ہیں۔ مزید گمراہی کا شکار رہنے کے بجائے آئیے چند ایسی خبروں کا مزہ لیتے ہیں۔
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاری کیلئے دھکوں اور بدسلوکی پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا اور اس افسوس ناک واقعہ پر حکام سے توجہ کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ شاہ جی کی گرفتاری کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوکر ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے۔ پولیس اہلکاروں نے شاہ جی کے سفید بالوں کی لاج رکھی اور نہ ہی ان کے قد کاٹھ اور مرتبے کا لحاظ کیا۔ علوی صاحب کو پولیس کے اس ناروا سلوک پر نالاں اور ملول ضرور ہونا چاہیے لیکن تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں اس بدعت کو دوام بخشنے کا کریڈٹ بھی لینا چاہیے۔ تب تو جماعت کے بانی نے سیاسی مخالفین کو ذاتی دشمنوں کی طرح للکارنے کے علاوہ ان کی تضحیک اور تذلیل کیلئے وزرا اور مشیروں کی ایک بریگیڈ تشکیل دے رکھی تھی۔اکثر وزرا تو وہ مطلوبہ گھٹیا زبان استعمال نہ کرنے پر تواتر سے تبدیل ہوتے رہے جو پارٹی قیادت کی ڈیمانڈ تھی بالخصوص وزارتِ اطلاعات کے قلمدان کا معیار اور اہلیت غیراخلاقی القابات اور ہرزہ سرائی سے مشروط رہا۔ آج شاہ محمود قریشی سے بدسلوکی انہی بدعتوں کا تسلسل ہے‘ تاہم شاہ محمود قریشی کے ساتھ دھتکار اور بدسلوکی کرنے والے بھی خاطر جمع رکھیں کہ وقت کا پہیہ مسلسل چل رہا ہے۔ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنتے کہاں دیر لگتی ہے۔ جو زیرِ کرم تھے وہ سبھی زیر ِعتاب ہیں اور سبھی زیرِ عتاب زیر ِکرم آ چکے ہیں۔ ماضی کو پیٹنے کے بجائے کبھی کبھار سبق بھی حاصل کرنے سے صحت پر ہرگز مضر اثر نہیں پڑتا۔ اقتدار کے کھیل تماشے ہوں یا چمتکار اور کرشمے‘ یہ سبق آموز اور باعثِ عبرت ہونے کے باوجود سبھی کردار مغالطوں کی دلدل میں اس طرح دھنسے ہوئے ہیں کہ بمشکل اور ہزار جَتنوں سے نکل بھی آئیں تو دوبارہ دلدل میں دھنسنے کیلئے انہی غلطیوں کو اضافوں کے ساتھ دہراتے نظر آتے ہیں جو زوال اور عتاب کا باعث بنتی چلی آئی ہیں۔ اصولاً تو علوی صاحب کو ایوانِ صدر کو خیر باد کہ کر مشکلات میں گھری اپنی پارٹی میں واپس چلے جانا چاہیے۔ وہ آئینی سربراہ ہونے کے باوجود آئین کی حفاظت کر سکے نہ ہی پارٹی کیلئے کوئی محفوظ آپشن نکال سکے۔ سیاسی مخالفین کی تذلیل جب اَنا کی تسکین بن جائے تو عرصۂ حکمرانی اُفتادِ طبع کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
بے نظیر بھٹو کی برسی پر اُن کی صاحبزادی آصفہ بھٹو نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ آصفہ بی بی نے اپنی ماں کو کھویا ہے‘ ان کے اس نقصان کا مداوا اور ازالہ کسی صورت ممکن ہی نہیں۔ اقتدار کا یہ سفاک کھیل اکثر ایسے المناک سانحات کا باعث بنتا چلا آیا ہے کہ جس میں جان سے جانے والے تو چلے جاتے ہیں لیکن ان کے نظریات اور اہداف بھی شاید ان کے ساتھ ہی چلے جاتے ہیں۔ سیاسی وارثان اور کرتے دھرتے مصلحتوں اور مجبوریوں کے آگے اس طرح بے بس پائے گئے کہ بے نظیر کے قتل کی سازش بے نقاب کرنے کے بجائے مفاہمت کی سیاست کے نام پر جمہوریت کو اس طرح بہترین انتقام قرار دیا کہ جمہوریت عوام سے انتقام بنتی چلی گئی۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی غیر طبعی موت کے خدشات کے پیشِ نظر جن شخصیات کے بارے تحفظات کا اظہار کیا تھا‘ ان میں سے ایک کو حصولِ اقتدار کیلئے گارڈ آف آنر دے کر رخصت دیا گیا تو دوسرے کو طولِ اقتدار کے لیے ڈپٹی پرائم منسٹر کی حیثیت سے شریکِ اقتدار کر لیا۔ اگر آصفہ بھٹو اب بھی انصاف کی منتظر ہیں تو کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ اگلے چند روز میں لاہور تجاوزات سے صاف نظر آئے گا۔ تجاوزات پاکستان کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر لمحۂ موجود تک نجانے کیسی کیسی تجاوزات کا سامنا ہے۔ جس کی جتنی ہمت اور طاقت ہے وہ اتنے ہی تجاوز کا مرتکب ہے۔ کہیں آئین اور قانون سمیت ضابطوں کو تجاوزات کا سامنا ہے تو کہیں اختیارات کے استعمال میں بے دریغ تجاوز کے مناظر جابجا نظر آتے ہیں۔ ناجائز تعمیرات سے لے کر عارضی تجاوزات کے کیسے کیسے ڈھونگ اور جگاڑ کی سہولت کاری کرنے والے ایسے آپریشن کیلئے چڑھ دوڑے ہیں گویا تجاوزات سلیمانی ٹوپی اوڑھے خود بخود بن گئیں۔ الغرض تجاوزات کا سلسلہ ملک کے طول و عرض میں جا بجا اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ ایوانوں سے لے کر سڑکوں اور چوراہوں تک تجاوزات ہی تجاوزات ہیں۔ حکمرانوں اور سرکاری بابوؤں سے لے کر کاروباری اشرافیہ سمیت ریڑھی والے تک سبھی اس کارِ بد میں حصہ بقدر جثہ برابر کے شریک ہیں۔ خدا کرے نگران وزیراعلیٰ تجاوزات کی ان سبھی بدعتوں سے عوام کی جان چھڑوا دیں۔ ماورائے آئین حکمرانی کے اکثر فیصلے اور اقدامات گورننس کی معانی الٹانے کے علاوہ میرٹ کی درگت کا بھی باعث ہیں۔ سرکاری بابوؤں پر مشتمل مخصوص ورکنگ گروپ کے بارے معلوم تو کریں۔ تو پتہ چلے کہ کون کہاں جھوم رہا ہے۔ کہیں پولیسنگ کا مفہوم بدل چکا ہے تو کہیں انتظامیہ انتقامیہ نظر آتی ہے۔
جاری شدہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر شام کے وقت کسی تھانے جا کر تو دیکھیں‘ تزئین و آرائش کے باوجود ایسے ایسے بھیانک مناظر منہ چڑاتے ہیں کہ کسی موٹر سائیکل پر دودھ کا تھیلا لٹکا نظر آتا ہے تو کسی پر دوائیاں اور راشن کا سامان‘ کسی موٹر سائیکل پر بچوں کے پیمپر تو کسی پر کتابیں لٹکتی نظر آئیں گی۔ خلقِ خدا سے بھرے حوالات کی دیواریں بھی حیران ہیں کہ ان سبھی کو اُس قانون کے تحت مقدمات کا سامنا ہے جو قانون کی کسی کتاب میں درج ہی نہیں۔