سالِ نو کا پہلا سورج طلوع ہو چکا ہے‘ ہندسے کی تبدیلی کے ساتھ ماضی کی بدعتیں کئی اضافوں کے ساتھ جوں کی توں جاری رہیں گی۔ نئے سال میں نئے صدمات اور نت نئے کھیل تماشوں کے لیے قوم تیار رہے۔ کہیں جینا محال ہے تو کہیں خدا کو اس طرح بھلائے بیٹھے ہیں کہ جیسے سب کچھ سدا یونہی چلتا رہے گا۔ ماضی کے زمینی خداؤں کی ضد اور اصرار کے سبھی نتائج دیکھ کر بھی انجان بنے پھرتے ہیں۔ حالیہ15سال سندھ پر مسلسل اور پانچ برس وفاق پر حکمرانی کے جوہر دکھانے والے بھی ابھی منشور منشور ہی کھیل رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کے گھسے پٹے اور رٹے رٹائے دعوے‘ وہی جھانسے اور وہی للکارے انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی انتخابی جھانسہ ہی ہے۔ خشک سالی کا عذاب ہو یا سیلاب کی تباہی اور بربادی کا ‘عوا م نسل در نسل مرتے اور بھگتتے چلے آرہے ہیں تو دوسری طرف ایک ہی خاندان کی تیسری نسل حکمرانی کے شوق پورے کر رہی ہے۔ اندرونِ سندھ کی رعایا کو تو ان بنیادی سہولیات سے اس طرح محروم رکھا گیا ہے جیسے کوئی خاندانی ایجنڈا ہو جبکہ شہروں اور دیہاتوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے آرہے ہیں۔
اسی طرح آٹھ مرتبہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور پانچ مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے مزے لوٹنے والی جماعت بھی کس ڈھٹائی سے منشور اور گا گے گی میں بھٹک رہی ہے‘ کہ ہم اقدار میں آکر اس بار فلاں فلاں توپ چلادیں گے۔ کس طرح انقلابی نعرے اور اصلاحات کی بات کرتے ہیں‘ کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ حضوروالا! حکمرانی کے عالمگیر ریکارڈ کی حامل جماعت کو کس نے روک رکھا تھا کہ وہ سبھی دعوؤں اور وعدوں سمیت سبھی اصلاحات کو صرف باتوں اور وعدوں تک محدود رکھے۔ تعجب ہے کہ عوام بھی ان کے جلسوں اور انتخابی نعروں پر ہنسنے کے بجائے ہر بار کیسے اعتبار کر لیتے ہیں جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ دونوں جماعتیں مملکتِ خداداد کی عمر ِعزیز کا نصف سے زائد حصہ شوقِ حکمرانی کی نذر کر چکی ہیں اور ملک و قوم کے دن بدلنے کے بجائے یہ سبھی اپنی نسلیں سنوارتے چلے آرہے ہیں۔
دوسری طرف موسم کی شدت انتخابات پر اس طرح اثر انداز ہو رہی ہے کہ سبھی کچھ سرد خانے میں لگتا نظر آرہا ہے۔ شدید سردی اور دھند نے جہاں حدِنگاہ کو محدود کر ڈالا ہے وہاں انتخابات اور اگلی راج نیتی پر بھی دھند چھائی ہوئی نظر آرہی ہے‘ انتخابی مطلع اس طرح ابر آلود ہوتا چلا جا رہا ہے کہ بروقت انتخابات پر بھی سوال اٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔ابتدائی انتخابی عمل میں تاریخوں کا رد و بدل ڈرامائی تبدیلیوں کا باعث بھی ہو سکتا ہے جبکہ انتخابی گہما گہمی اور ماحول بھی خاصا ٹھنڈا ہے۔ زیر عتاب پارٹی نگران حکومتوں کی زیر نگرانی نظام کو خوفناک قرار دے چکی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کے استعفے کا مطالبہ تو پہلے ہی آچکا ہے۔ دھند کے راج میں راج نیتی کے معاملات کہیں کھٹائی میں پڑتے تو کہیں گرتے نظر آرہے ہیں جبکہ دور کی کوڑی لانے والے تو برملا کہتے ہیں کہ نگران سرکاریں انتخابات کروانے کے لیے نہیں‘ نہ کروانے کے لیے آئی تھیں۔
کاغذاتِ نامزدگی منظور اور مسترد ہونے کی اَپ ڈیٹس دیکھ کر تو غیر سرکاری انتخابی نتائج کا گماں ہونے لگا ہے۔ اس تناظر میں انتخابی نتائج کی کھلی جھلک حتمی امیدواروں کی فہرست میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ مات اور شہ مات کا شکار تو وہی مہرہ اور پیادہ ہوتا ہے جو بساط پر موجود ہو‘ یہاں تو بادشاد‘ وزیر اور ملکہ سمیت نجانے کون کون بساط تک ہی نہ پہنچ سکے۔ ایسے میں مزید تبصرے کے بجائے اختصار اور احتیاط کے ساتھ یہ شعر پیشِ خدمت ہے:
گلی گلی میں ہوا میری ہار کا اعلان
یہ کون جانے کہ میں تو بساط پر ہی نہ تھا
زیر عتاب پارٹی انتظامی مشینری کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد اور تحفظات کے بعد مزید کڑے سوالات بھی اٹھائے جا رہی ہے جبکہ انتظامی مشینری میں تبدیلی کے امکانات جہاں دور دور تک نظر نہیں آرہے وہاں چیف الیکشن کمیشن کے استعفے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ سست روی کا شکار انتخابی عمل پہلے ہی خاصا مجہول ہے‘ اگر چیف الیکشن کمیشن نے اپنے اوپر اٹھنے والے سوالات اور عدم اعتماد کو جواز بنا کر معذرت کر لی تو طے شدہ دن پر انتخابات کیونکر ہو پائیں گے؟ دوسری طرف متوقع جماعت کے امیدواروں کے چہرے نہ صرف بے رونق ہیں بلکہ بد دلی کا عنصر بھی خاصا نمایاں نظر آرہا ہے۔ اس منظرنامے کے تانے بانے اور نقطے ملائیں تو بننے والے خاکے میں بروقت انتخابات کی شکل تو دکھائی نہیں دے رہی ‘ عوام بھی باخبر ہونے کی وجہ سے خاصے بیزار نظر آرہے ہیں۔ عوام کی عدم دلچسپی اور انتخابی حلقوں میں اُمیدواروں کی مقبولیت کا گراف متوقع نتائج کی جہاں چغلی کر رہا ہے وہاں انتخابی مطلع پر متوقع گہرے بادلوں کا بھی اشارہ دے رہا ہے۔ دھند اور گہرے بادلوں میں مطلع صاف کرنے کے سبھی جتن رائیگاں ہونے کا خدشہ بھی برابر موجود ہے‘ تاہم سیاسی پنڈت طے شدہ انتخابی دن کو شبھ مہورت نہیں سمجھ رہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی ڈرامائی تبدیلی کے بعد نیا مہورت نکال لیا جائے۔ انتخابی امیدواروں کی حتمی اور متوقع فاتحین کی فہرست دیکھ کر بے اختیار وہ بچہ یاد آرہا ہے جسے کلاس روم میں ٹیچر نے سوال کیا کہ پانچ ایسے جانوروں کے نام بتاؤ جو صرف زیر آب زندہ رہ سکتے ہیں۔ بچے نے انتہائی معصومت سے جواب دیا: مچھلی‘ مچھلی کے پاپا‘ مچھلی کی ماما‘ مچھلی کا بھائی‘ مچھلی کی بہن۔
انتخابات بروقت ہوتے ہیں یا کوئی اور شبھ مہورت نکلتا ہے دونوں صورتوں میں گمان اور شگون دونوں ہی اچھے نظر نہیں آرہے۔ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔ انتخابی اکھاڑے کا منظر جہاں خاصا تشویشناک ہے وہاں اکھاڑے سے باہر کے حالات بھی خدشات اور خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں افتخار عارف کے چند اشعار بطور استعارہ پیش خدمت ہیں:
سمندر اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے
کنارے پر بھی ہم کو اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کی جرأتِ پرواز کے چرچے بہت تھے
وہی طائر ہمیں بے بال و پَر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کے نام سے روشن تھے مستقبل کے سب خواب
وہی چہرہ ہمیں نامعتبر کیوں لگ رہا ہے
در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
چلتے چلتے ایک خواب شیئر کرتا چلوں جو میں چلتے پھرتے دیکھتا تو ہوں لیکن یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میرا خواب کسی دیوانے کے خواب سے ہرگز کم نہیں۔ کاش! آئندہ انتخابات میں عوام کو کئی دہائیوں سے مسلسل دھوکہ دے کر ہر بار مرگِ نو سے دوچار کرنے والوں کی آنکھیں ووٹرز کی راہ تکتے تکتے پتھرا جائیں‘ ووٹ کی سیاہی پڑے پڑے سوکھ جائے اور بیلٹ باکس ویران پڑے رہیں۔ اس بار عوام ان کو فیصلے کا حق دینے کے بجائے اپنے حق میں فیصلہ کر ڈالیں۔