طوفانی حکمرانی کے روپ بہروپ اور چمتکار برابر آشکار ہو رہے ہیں۔ نگران حکومت چند مخصوص شعبوں پر فوکس کیے ہوئے ہے۔ ہسپتالوں کی اَپ گریڈیشن اور تعمیر زوروں پر ہے تو تھانوں کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے بھی تزئین و آرائش جاری ہے۔ مختصر مدت میں انڈر پاسز اور فلائی اوورز مکمل کیے جا چکے ہیں۔ یہ سپیڈ جہاں نگران حکومت کی پہچان بنتی چلی جا رہی ہے‘ وہیں کئی سوالات بھی سر اٹھا رہے ہیں، بالخصوص تھانہ کلچر بدلنے کے سبھی اقدامات مطلوبہ نتائج برآمد کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ رنگ و روغن‘ سجاوٹ اور فرنیچر سے تھانوں کا منظر ضرور بدلا ہے لیکن سائلین سے رویہ اور سلوک بدلنے تک محکمہ پولیس کو اَپ گریڈکرنے کا دعویٰ ہرگز مناسب نہیں۔ ایک مستند سروے کے مطابق تزئین و آرائش کے لیے تھانیداروں کو قسطوں میں فراہم کی جانے والی رقم لاگت کے مقابلے میں کہیں نصف‘ تو کہیں نصف سے بھی کم ہے۔ کہیں ٹھیکیدار بقایاجات کی وصولی کے لیے تھانیداروں کے پیچھے پیچھے ہیں تو کہیں تھانیدار ذاتی پیدا کردہ وسائل سے ادائیگیاں کر رہے ہیں۔ لاکھوں کی ادائیگیوں کا بوجھ اٹھائے تھانیداروں کا اس وقت تراہ نکل جاتا ہے جب افسرانِ بالا انسپکشن کے دوران کسی تبدیلی یا ناپسندیدگی کا اظہار کر ڈالتے ہیں۔ یہ تھانیدار نجانے کس طرح افسران کی فرمائش اور تبدیلیوں کو پورا کر رہے ہیں۔
اَپ گریڈیشن کا تخمینہ تو بالحاظ تھانہ دستاویزی طور پر حکام کو جا چکا ہے جبکہ جاری ہونے والی رقم انتہائی ناکافی ہونے کی وجہ سے تھانیدار اضافی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس صورتِ حال سے پیدا ہونے والے نقائص اور خرابیوں کے تانے بانے اور نقطے ملائیں تو بننے والی تصویر جبری کرپشن کی طرف راغب کرتی نظر آتی ہے۔ ادائیگیوں کے لیے کہیں 'غریب ماری‘ جاری ہے تو کہیں مفت بری سے کام چلایا جا رہا ہے‘ دونوں ہی صورتیں تزئین و آرائش میں بدصورتی کا پیوند بنتی چلی جا رہی ہیں۔ تھانوں میں داد رسی کی غرض سے آنے والوں کے لیے ویٹنگ روم سمیت دیگر سہولتیں یقینا قابلِ تعریف اقدام ہیں لیکن مائنس انصاف سبھی اصلاحات اور جتن نمائشی کارروائی کا استعارہ بنتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف ٹریفک قوانین کی پاسداری کے نام پر جوکہرام پرپا ہے‘ خدارا! کچھ توجہ اس طرف بھی۔ خدمت مراکز؍ لائسنسنگ سنٹرز کے دورے ضرور کریں لیکن کچھ وقت نکال کر تھانوں کے وہ حوالات بھی چیک کر لیں جو کیسے کیسے مجبوروں اور لاچاروں سے بھرے پڑے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی تنخواہیں‘ مراعات اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے فی وارڈن 20 چالان اور 6 مقدمات کی کوٹہ پالیسی کتابوں میں درج قوانین کا تمسخر اُڑا رہی ہے۔ طالب علموں اور محنت کشوں سمیت سفید پوش رعایا اس غلط طرزِ حکمرانی کی تاب کب تک لا سکتی ہے؟ کوئی گھر سے دوا لینے نکلا تھا تو کوئی ہسپتال میں زیرِ علاج اپنے پیارے کو چھوڑ کر کسی ضرورت کی غرض سے پریشانی میں نکل آیا۔ کوئی سودا سلف لینے کے لیے نکلا تھا تو کوئی بچے کا دودھ لینے۔ کسی کے بوڑھے ماں باپ اپنے واحد سہارے کا انتظار کرتے رہ گئے تو کسی کے بچے رات بھر باپ کی راہ تکتے رہے۔ یہ کیسا قانون ہے؟ یہ کہاں کی گورننس ہے؟ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے والے ٹریفک پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو کہیں جنازوں میں شرکت کے لیے جانے والے۔ لائسنس اور کاغذات ہونے کے باوجود تھانوں کی یاترا کہاں کی پولیسنگ ہے؟ خدارا! موٹر سائیکل سواروں کی حالت اور زندگیوں پر رحم کریں۔ سارے قوانین اور عذاب کیا انہی کے لیے رہ گئے ہیں؟ ٹریفک پولیس کا درج کرایا گیا ایک مقدمہ جسمانی اور نفسیاتی ٹراما کے علاوہ بھاری مالی صدمے کا بھی باعث بنتا ہے۔ حوالات سے لے کر عدالت اور ضمانت کے اخراجات اکثریت کے لیے ناقابلِ برداشت اور اوقات سے باہر ہوتے ہیں۔ قوتِ خرید پہلے ہی مار ڈالی ہے‘ اب مرے ہوؤں کو اس طرح تو نہ ماریں۔
حکمرانی تو قدرت کی عطا ہوتی ہے‘ اسے من مانی کی نذر کرنا یقینا کفرانِ نعمت ہے۔ چند مخصوص شعبوں پر توجہ دینے کے بجائے صوبے کے دور دراز اضلاع کے مسائل پر بھی توجہ دینا شروع کریں جہاں ضلعی پولیس و انتظامی افسران نے گورننس اور میرٹ کی وہ درگت بنا ڈالی ہے کہ داد رسی اور شنوائی محال ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کہیں زمینوں پر قبضے جاری ہیں تو کہیں کھڑی فصلیں اُجاڑی اور ہتھیائی جا رہی ہیں۔ کئی پولیس افسران کی دیدہ دلیری اور سینہ زوری دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ متعلقہ چین آف کمانڈ سے کوسوں دور ہیں۔ ایسے پولیس افسران کے خلاف خفیہ انکوائریاں ہوں یا سینٹرل پولیس آفس کے اعلیٰ اختیاراتی شعبے انٹرنل اکاؤنٹبلیٹی کی تحقیقات‘ سبھی میں ہوش اُڑا دینے والے انکشافات نگران حکومت اور پولیسنگ پر کڑے سوالات کا باعث ہیں۔ ایسے افسران انصاف کی ضد اور جبر کی علامت بنتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ انہیں کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا۔ ناقابلِ تردید تحقیقاتی رپورٹوں کے پلندے طرزِ حکمرانی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ تھانوں میں امان اور انصاف کے بجائے سہولت کاریوں کا دھندہ عروج پر ہے۔ ایسے افسران کے عتاب کا شکار کتنے ہی مظلوم خاندان نہ صرف دربدر ہیں بلکہ انہیں دادرسی اور انصاف کے بجائے مسلسل دھتکار اور پھٹکار کا سامنا ہے۔
سوشل میڈیا پر محکمہ پولیس کی کارکردگی کے چرچے اور نغمے تو برابر جاری ہیں لیکن زمینی حقائق خاصے دردناک ہیں۔ دور دراز اضلاع کے عوام اُس حکومتی سپیڈ کے منتظر ہیں جو صرف مخصوص شعبوں اور شہروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ریکارڈ مدت میں تعمیراتی منصوبے تو گورننس کا ایک جزو ہے‘ خدارا! سرکاری بابوؤں کے عتاب کا شکار عوام نہ کوئی انڈر پاس مانگتے ہیں نہ کوئی فلائی اوور اور نہ ہی تھانوں کی تزئین و آرائش‘ یہ سبھی تو جینے کے حق اور داد رسی کے طلبگار ہیں۔ انہیں تھانوں میں کرسیاں اور صوفے نہیں بلکہ امان اور انصاف درکار ہے۔ یہ جھوٹے اور یکطرفہ مقدمات سے پناہ مانگتے ہیں۔ اپنی کھڑی فصلوں کو اجاڑنے اور بیچنے والوں کے خلاف فریاد کہاں کریں۔ قانون نافذ کرنے کے ذمہ داروں کی نگرانی میں دن دہاڑے سینکڑوں ایکڑ پر قبضے کی واردات پر بے حسی کا سناٹا تعجب ہے!
گورننس کو قدرت کی عطا کے بجائے اپنی ادا کا چمتکار سمجھنے والے یقینا مغالطے میں ہیں۔ یہ منصب اور عہدے سبھی آنے جانے والے ہیں۔ ماضی میں نجانے کتنے آکر چلے گئے‘ کتنے ہی اور آکر چلے جائیں گے‘ ان کی شہرت ہی ان کا تعارف بن جاتی ہے۔ جیسے کَرم ویسا حوالہ ... خلقِ خدا کی ضروریات اور داد رسی سے منسوب ہونا کسی اعزاز سے کم نہیں لیکن خیال رہے کہ یہ اعزاز کہیں مخلوق کے لیے عذاب نہ بن جائے۔ چلتے چلتے اُس مسئلے پر ایک ٹِپ دیتا چلوں‘ جو متعلقہ حکام کے لیے ایک ایسا امتحان بن چکا ہے جس میں تاحال وہی افسر کامیاب ہے جس کے خلاف انٹرنل اکاؤنٹبلیٹی اور سپیشل برانچ کالے کرتوتوں پر مبنی نجانے کتنے کاغذ کالے کر چکی ہے۔ خدا جانے کیا امر مانع ہے کہ مذکورہ افسر کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے مسلسل پہلوتہی جاری ہے۔ متعلقہ حکام باقاعدہ بریف ہونے کے باوجود نجانے کہاں سے ڈی بریف ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بریفنگ اور ڈی بریفنگ کی بدعت تو مدتوں سے گورننس کو شرمسار اور میرٹ کو تار تار کیے ہوئے ہے۔ دیکھتے ہیں اس اَپ گریڈیشن اور سپیڈ کے اثرات دور دراز اضلاع میں کب تک پہنچ پاتے ہیں‘ کیونکہ اس کی ضرورت تو ہر ضلع میں ہے۔