طویل آوارگی کے بعد ''دنیا‘‘ میں لوٹ آیا ہوں۔ سوا سال کی غیر حاضری کا سبب اور احوال نہایت سادہ ورنگین ہے۔ اس موقع پر غالب کا ایک مصرع قارئین کی نذر! ''لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا‘‘۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ اپنی ہی باتوں میں آ گیا تھا میں۔ پڑھنے والوں کے لیے کالم تعلق اور رابطے کے ساتھ ساتھ جانکاری وآگاہی کا بجا طور پر مؤثر ذریعہ ہے۔ اب لوٹ آیا ہوں تو ہنر مندانِ ریاست وسیاست کی بدلتی ترجیحات اور تیور سے لے کر پینترے بدلنے تک‘ غلام گردشوں سے لے کر محلاتی سازشوں تک‘ سیاسی سرکس سے لے کر بازیگروں کے کھیل تماشوں تک‘ سرکاری بابوؤں کی جادوئی گورننس سے لے کر سماج سیوک نیتاؤں کے روپ بہروپ تک‘ دلفریب وعدوں سے لے کر دعووں اور جھانسوں تک‘ گمراہ کن اعداد وشمار سے لے کر زمین وآسمان کے قلابے ملانے تک‘ خیال کی آمدن کے بغیر زبان و بیان کی بے دریغ فضول خرچی سے لے کر سبکی اور جگ ہنسائی کے اسباب تک‘ ناخوب کے خوب ہونے سے لے کر خوب کے ناخوب ہونے تک‘ راج نیتی کے اسرار ورموز سے لے کر بندکمروں کے راز ونیاز تک‘ دلوں کے بھید بھاؤ سے لے کر نیت اور ارادوں تک‘ داخلی امور سے لے کر خارجہ محاذ تک‘ ادھورے سچ سے لے کرسفید جھوٹ تک‘ بزمِ ناز سے لے کر محفلِ یاراں تک‘ عوام الناس سے لے کر اربابِ اختیار واقتدار تک‘ سب کی خبر لیں گے اور ان سب کی خبر دیں گے۔
بات آوارگی سے چلی ہے تو کالم کو اس کے اثرات سے کیونکر بچا سکتے ہیں! آج کسی مخصوص موضوع پر بات کرنے کے بجائے چنیدہ موضوعات پہ قلم آرائی کرتے ہیں۔ خبر ملی ہے کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ بلاول بھٹو عوامی مینڈیٹ سے اگلے نوجوان وزیراعظم ہوں گے۔ صدرِ پاکستان کا اقبال مزید بلند ہو! قوم تو پہلے ہی کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی کی حکمرانی کے جوہر دیکھتی اور سمیٹتی چلی آ رہی ہے۔ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے جھانسے سے شروع ہونے والا سلسلہ کسی طور رکنے میں کہاں آ رہا ہے؟ تیسری نسل راج نیتی میں داخل ہو چکی ہے لیکن عوام نما رعایا آج بھی روٹی‘ کپڑا اور مکان سے محروم اور در بدر ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے جس طبقے کو مخاطب کر کے یہ انتخابی نعرہ لگایا تھا اس کی کئی نسلیں محرومیوں کا کفن اوڑھے تہہِ خاک جا سوئی ہیں اور بچے کھچے دھتکار اور پھٹکار کو اپنا نصیب جان کر گردشِ ایّام سے روز لڑتے اور روز ہارتے نظر آتے ہیں۔ شاید یہی حکمرانی کا حسن اور جمہوریت کا انتقام ہے۔ قوم خاطر جمع رکھے! شوقِ حکمرانی یونہی چلتا رہا تو محرومیاں جوں کی توں اور مزید انڈے بچے دیتی رہیں گی۔
خبر گرم ہے کہ علی امین گنڈاپور کے اہم پیغام کے باوجود عمران خان مذاکرات سے انکاری ہیں جبکہ بانی کی ہمشیرہ نے بھی کہا ہے کہ سامنے آکر بتائیں عمران کیا کریں تو رہا ہوں گے؟ اگر کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ ہے تو آ کر بات کریں۔ سوائے عمران خان کے پی ٹی آئی کے سبھی خاص وعام کو بتدریج احساس ہوتا چلا جا رہا ہے کہ ان کے قائد کی افتادِ طبع پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن چکی ہے‘ اب مزید ضد مزید نقصانات کے علاوہ تاریخی وسیاسی غلطیوں کو جنم دینے جا رہی ہے‘ جس کا ازالہ اور مداوا بھی شاید ممکن نہ رہے۔ عمران خان کے طرزِ سیاست سے لے کر طرزِ حکمرانی تک سبھی جوہر کھل کر سامنے آ چکے۔ کانوں میں رس گھولنے والے چند مخصوص کرداروں سے لے کر ہلّہ شیری اور اشتعال انگیزی کے بل پر خان صاحب کی مزاجی کمزوری سے فائدہ اٹھانے والے پارٹی اور ریاست کے لیے کتنی بڑی آزمائش بن چکے ہیں اس کا اندازہ لگانا چاہیں بھی تو شاید نہیں لگا سکتے۔ تباہی اور بربادی کے محرکات پر غیر جانبدار ریسرچ کرائی جائے تو یہ عقدہ کھل جائے گا کہ خان صاحب کیسے کیسوں کے ہاتھوں میں کیسے کیسے کھیلتے رہے۔ حکومت سازی جیسے اہم معاملات چلانے سے لے کر تحریک انصاف کا انتظام وانصرام چلانے میں بھاری اخراجات میں پیش پیش رہنے سبھی کی قربانیوں اور جانثاریوں کو حواریوں کی خواہشات اور مفادات کی نذر کرنا ان کی مردم شناسی کا اچھوتا روپ تھا۔ ناقابلِ تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ خان صاحب پر زوال یونہی اور اچانک نہیں آیا۔ اس کے لیے خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی فوج سمیت خود بانی بھی مسلسل کوشاں رہے کہ جو تباہی کل آنی ہے وہ آج آ جائے اور جو آج آنی ہے وہ ابھی آ جائے۔ زبانوں سے کھودی ہوئی خندقیں آج پارٹی اور سیاست کی اجتماعی قبر کا منظر پیش کرتی ہیں۔ سیاست میں جمود کی کوئی گنجائش نہیں۔ خان صاحب کی یہ حالت محض چند غلطیوں سے نہیں بلکہ غلطیوں پر ضد اور اصرار سے ہوتی چلی آئی ہے۔ ایوان سے زندان میں آنے کے بعد انہیں کوئی لمحہ میسر نہیں آیا جس میں وہ سوچتے کہ پذیرائی کے پہاڑ پر وہ یونہی نہیں جا پہنچے تھے۔ ان کی مقبولیت کو قبولیت کی بیساکھیاں میسر تھیں۔ ان بیساکھیوں کی ناقدری اور اعلیٰ شخصیات کے ناموں کو بگاڑنے سے لے کر گمراہ کن پروپیگنڈا تک کی جو پالیسی اپنائی گئی اس نے سب کچھ ہی اتھل پتھل کر دیا۔ مذاکرات اور مکالمے میں بڑے بڑے اختلافات اور مسائل کا حل پوشیدہ ہوتا ہے۔ اقتدار میں رہے تو بضد رہے کہ میں چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا‘ اب ایوان سے زندان میں آ کر بھی اسی ضد پر اصرار ہے۔ زمینی حقائق سے دوری اور انکار کا یہ مزاج کہیں مقدر نہ بن جائے۔
خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے پیدائش اور اموات کی رجسٹریشن فیس ختم کرنے کے علاوہ مصنوعی مہنگائی کا بھی سخت نوٹس لیا ہے۔ شوگر کے مریض بچوں کے لیے انسولین اور کٹ اور پنجاب بھر میں تھیلیسیمیا سنٹرز بنانے کا بھی اعلان ہو چکا۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے! خدا کرے کہ سرکاری بابو ان ارادوں میں اس طرح حائل نہ ہو سکیں جیسے ہمیشہ ہوتے چلے آئے ہیں۔
کالم جاری تھا کہ خبر ملی کہ موٹروے پر مسافر بس ناقص ٹائروں کے سبب جل کر راکھ ہو گئی۔ بس میں سوار 40 مسافروں کو موٹروے پولیس کے بروقت اقدامات نے بچا لیا۔ موٹروے حکام مفادِ عامہ کے تحت مسلسل سیفٹی ٹپس جاری کر رہے ہیں کہ دورانِ سفر کمزور ٹائر جان لیوا حادثے کا سبب بن سکتے ہیں‘ ٹائر اگر ناقص نہ بھی ہوں تو اس موسم میں وقفے وقفے سے گاڑی کو ریسٹ دینا اور ٹائروں پر پانی ڈالنا ضروری ہے۔ غفلت کی صورت میں ٹائر کی مسلسل رگڑ آتشزدگی کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح دورانِ سفر موبائل کا استعمال اور کھانا پینا بھی خوفناک غلطیوں میں سے ایک ہے۔ مسلسل ڈرائیونگ اور جلدی پہنچنے کی دھن دھیان بھٹکانے کا باعث بنتی ہے۔ دورانِ بارش سپیڈ سے تجاوز بھی ہولناک حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ بالخصوص ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو مسافروں کے جان ومال کی حفاظت کے لیے ان حفاظتی اقدامات کو ضرور یقینی بنانا چاہیے۔ کمزور ٹائر اور ڈرائیور کی غلطی جیتے جاگتے مسافروں کی زندگیوں کے لیے خطرہ نہیں بننا چاہیے۔ موٹروے پولیس کا پبلک سروس وہیکل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم موٹروے پر داخل ہونے والی سبھی گاڑیوں بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ کی فٹنس پر کوئی سمجھوتا نہیں کر رہا لیکن ایس او پیز کو نظر انداز کرنے والے ڈرائیور نہ صرف متعلقہ اداروں کی بدنامی اور مسائل میں اضافے کا باعث بنتے ہیں بلکہ قیمتی انسانی جانوں کے لیے بھی مسلسل خطرہ ہیں۔ الغرض دیر سے پہنچنا کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے۔