"AAC" (space) message & send to 7575

… یار! میری مجبوری اے

اِدھر وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ٹرمپ کو امن کا داعی قرار دیا تو اُدھر سلامتی کونسل میں ''امن کے داعی‘‘ نے غزہ جنگ بندی کی قرار داد ویٹو کر ڈالی۔ قومی اخبارات میں یہ دونوں خبریں سرخیوں اور شہ سرخیوں کی صورت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں سمیت دنیا کے منصفوں کا بھی منہ چڑا رہی ہیں۔ ممکن ہے وزیراعظم نے امن کے داعی کا ٹائٹل یہ سوچ کر جاری کیا ہو کہ شاید ٹرمپ ان کے بیان کا بھرم رکھ لیں گے لیکن امریکہ بہادر کا بھرم اور شرم سے کہاں کوئی تعلق ہے‘ ضرورت مندوں کی عالمی منڈی میں اس سے بڑا بیوپاری بھی کوئی نہیں۔ عالمِ اسلام اور یہود و نصاریٰ کے درمیان کس خوبصورتی سے کیسے کیسے کھیل دوطرفہ کھیلے جا رہے ہیں۔ کیسا حسنِ اتفاق ہے‘ جس روز امن کے داعی کا ٹائٹل ملا اُسی روز ٹرمپ نے غزہ میں وحشیانہ قتلِ عام کے جاری سلسلے کو کسی طور نہ روکنے کی کھلی چھٹی دے ڈالی۔ وزیراعظم اگر ایک آدھ دن لقب جاری نہ کرتے تو شاید امن کے داعی کا ٹائٹل ضائع نہ ہوتا لیکن امریکہ کہاں چوکتا ہے‘ جواب اور چوٹ موقع پر۔ ایک طرف ہمارے محبوب وزیراعظم ہیں اور دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ وزیراعظم امن کے داعی کا ٹائٹل واپس لیتے ہیں یا ٹرمپ ان کے بیان کی لاج رکھنے کے لیے ویٹو سے دستبرداری کرتے ہیں۔ اس بارے میں تو وزیراعظم ہی بہتر رہنمائی اور وضاحت کر سکتے ہیں کیونکہ امن کے داعی کا ٹائٹل اور سلامتی کونسل میں ویٹو جیسی سفاکی ایک ساتھ کیونکر چل سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے صدر ٹرمپ امن کے داعی کا ٹائٹل شہباز شریف کو اس عذر کے ساتھ بصد شکریہ لوٹا دیں کہ ''یار! میری مجبوری اے‘‘۔
قارئین! امریکی صدر اور اپنے وزیراعظم کے درمیان زیادہ دیر ٹھہرنا مناسب نہیں‘ تاہم احتیاط اور اختصار سے کام لیتے ہوئے موضوعات کے اس انبار کی طرف چلتے ہیں جو قلم آرائی پر اُکسائے چلے جا رہے ہیں۔ ٭صوبائی وزیراطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے ایک معصومانہ بیان کے جواب میں ندیم افضل چن نے تو ایسا ''چن‘‘ چڑھایا ہے جو غروب ہونے میں نہیں آ رہا۔ کھری اور سیدھی بات کرنے والے ندیم افضل چن لفظی لٹھ بھی ایسے مارتے ہیں کہ سواد آ جاتا ہے۔ سمبڑیال انتخابی معرکے پر چھڑنے والی لفظی جھڑپ کو ندیم افضل چن نے باقاعدہ جنگ اور بمباری کا رنگ دے ڈالا ہے۔ بھری بزم میں راز کی بات یوں کہہ ڈالی کہ عوام نے ہمیں ووٹ (ن) لیگ کا ساتھ دینے کی وجہ سے نہیں دیے اور (ن) لیگ کو خود ان کی وجہ سے ووٹ نہیں ملے۔ انہوں نے شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار پیپلز پارٹی کے مرہونِ منت قرار دیتے ہوئے کھلا چیلنج دے ڈالا ہے کہ (ن) لیگ پنجاب میں 10 سیٹیں بھی ثابت نہیں کر سکتی جہاں اسے حقیقی کامیابی ملی ہو۔ انہوں نے حکومتِ پنجاب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کسانوں کے ساتھ روا سلوک کو شدید زیادتی قرار دیا ہے۔ فی من گندم کا ریٹ ایک پیزے کی قیمت کے برابر ہونا شرمناک ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ گندم کا خریدار ڈھونڈے سے نہیں مل رہا۔ یہی طرزِ حکمرانی رہا تو کسان گندم اور چاول کی کاشت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ رجحان زور پکڑ گیا تو اپنی سونے جیسی گندم کی ناقدری کی قیمت کہیں کھربوں روپے کی گندم درآمد کرکے چکانا نہ پڑ جائے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ پنجاب کی طرزِ حکمرانی پر تنقید کے دوران صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا صوبائی دارالحکومت میں طویل قیام بھی جاری تھا۔ دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب شہر لاہور میں ایک مخصوص ہدف کے تحت قیام پذیر رہے لیکن مطلوبہ اہداف کا حصول نہ ہونے کی صورت میں ملاقاتوں اور فوٹو سیشن کے بعد واپس ایوانِ صدر چلے گئے۔ حالیہ تین عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سرکردہ عہدیداران بڑے بڑے دعوے تو کرتے رہے لیکن انتخابی نتائج میں پذیرائی کی ''پ‘‘ کو بھی نہ پہنچ سکے۔ پارٹی قیادت کو گا‘ گے‘ گی اور آنیوں جانیوں سے مطمئن ہی کرتے چلے آرہے ہیں۔ انہی چیمپئنز نے درجنوں ٹکٹ ہولڈرز اور الیکٹ ایبلز کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا منصوبہ تو تیار کر لیا لیکن صدر آصف علی زرداری کے طویل قیام کے باوجود اسے عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے۔ پنجاب میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کا گرینڈ پلان ان کی خواہشات اور محض کارروائیوں میں ہی بھٹکتا رہا۔ اس طرح ایک مخصوص سیاسی پارٹی ان چیمپئنز کی لگائی نقب اور جھانسے سے بچ گئی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو مستحکم کرنے کے لالی پاپ کی مٹھاس ختم ہونے کو ہے۔
٭بات لالی پاپ کی نکلی ہے تو کچھ احوال پنجاب کے محکمہ تعلیم کا بھی ہو جائے۔ پنجاب کے وزیر تعلیم نے ایک عجیب دعویٰ کر ڈالا ہے۔ فرماتے ہیں کہ پنجاب کے سرکاری سکولوں کا معیار اس قدر بلند کرنے جا رہے ہیں کہ پرائیویٹ اور مہنگے ترین ٹاپ ایجوکیشن سسٹمز میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے قطاریں لگا کر سرکاری سکولوں میں داخلہ لیں گے۔ گویا پہلے آئیے‘ پہلے پائیے کے تحت سبھی والدین کو اپنے بچوں کے داخلے کے لیے پہلی قطاروں میں لگ جانا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سرکاری سکولوں کے باہر ''Admissions Closed‘‘ کے بورڈ آویزاں ہو جائیں اور پھر مجبوراً اپنے بچوں کو انہی پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانا پڑ جائے۔بہرحال اس کام کی ابتدا کرتے ہوئے وزیر تعلیم نے اپنے بیٹے کو سرکاری سکول میں داخل کرا دیا ہے۔ دیکھیے آگے کیا بنتا ہے‘ کیا کابینہ کے دیگر افراد‘افسر شاہی بھی اس پر عمل کریں گے؟اگر یہ جوشِ خطابت سرکاری سکولوں کی اَپ گریڈیشن تک ہی محدود رہتا تو بہتر تھا۔ پسند اپنی اپنی‘ نصیب اپنا اپنا۔
٭چلتے چلتے غیر قانونی اور جعلساز ہاؤسنگ سیکٹر کی اُس متاثرہ خلقِ خدا کا بھی کچھ احوال ہو جائے جو اپنی چھت کے خواب آنکھوں میں سجائے جمع پونجی لٹائے دھتکار اور پھٹکار کا شکار تھی۔ نیب نے انتہائی قلیل مدت میں سینکڑوں متاثرین کے کلیمز کی رقوم کی ادائیگی عید الاضحی سے قبل شروع کر دی ہے اور جو متاثرین ابھی تک اپنی لٹی ہوئی رقم حاصل کرنے میں ناکام ہیں وہ اصل مطلوبہ دستاویزات کے ہمراہ اپنا کلیم فائل کر کے نیب آفس سے ریلیف لے سکتے ہیں۔ اسی طرح نیب لاہور نے مشہور و معروف ڈبل شاہ کیس سمیت لوٹ مار کے دیگر کیسوں کے متاثرین کو بھی 512ملین روپے کی تقسیم کا آغاز کر دیا ہے۔ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سمیت سرمایہ کاری کے نام پر جعلسازی اور جھانسے سے شہریوں کی رقم ہتھیانے والے منظم فراڈیوں کے خلاف گھیرا مزید تنگ کیا جا رہا ہے۔ لالچ جب تک زندہ ہے فراڈیہ کبھی بھوکا نہیں مر سکتا‘ فراڈیوں کو مارنے کے لیے ہمیں اپنی لالچ کو مارنا ہو گا۔ کئی دہائیوں پہلے ہونے والے اربوں روپے کے کوآپریٹو سکینڈل اور تاج کمپنی سمیت دورِ حاضر میں جاری فراڈ اور لوٹ مار کے پیچھے اصل مجرم ''لالچ‘‘ ہی ہے‘ لیکن خواب بیچنے والوں کی خوبی ہے کہ کھلی آنکھ سے خواب دکھاتے ہیں اور تعبیر کے بدلے بھی آنکھیں ہی دکھاتے چلے آئے ہیں۔ گویا لُٹو تے پھُٹو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں