"AAC" (space) message & send to 7575

…بھاگ لگے رہن

ایک انگریزی معاصر کی سرخی من وعن پیشِ خدمت ہے:
Austerity budget offers 'crumbs' for relief
یہ سرخی اپنے اندر ڈھیروں معنویت اور کئی پہلو سموئے بجٹ کا ڈی این اے دکھا رہی ہے۔ روایتی دعووں اور اعداد وشمار کے جال میں بُنے بجٹ کو عوام دوست ثابت کرنے کے جتن میں کوشاں سبھی حکومتی چیمپئنز بیشتر سوالات پر کہیں بغلیں جھانکتے تو کہیں ایک دوسرے کو تکتے نظر آتے ہیں۔ اجتماعی بریفنگ میں انفرادی سوال کے جواب پر بھی لاجواب ہی رہے۔ یہ منظرنامہ کوئی نیا نہیں ہے‘ ہر سال بجٹ تماشا اسی طرح لگتا چلا آیا ہے۔ دور کی کوڑیاں والے ہوں یا دانشوریاں بھگارنے والے‘ حکومتی ہم خیال مبصرین ہوں یا تجزیہ کار‘ سرکار کے لتے لینے والے ہوں یا مخالفت پر آمادہ‘ سبھی کی چار دن کی چاندنی ہے۔ پھر کوئی اور موضوع یا ایشو اس مباحثے کی جگہ لے لے گا اور یہ سبھی نئے محاذ پر ڈٹ جائیں گے۔ خاطر جمع رکھیے! یہ تو نقطۂ آغاز ہے‘ بجٹ تو سارا سال ہی آتا رہے گا اور اس کے اتنے انڈے بچے بھی نکلتے رہیں گے۔ جہاں انڈے کڑوے کسیلے اور بدذائقہ ہوں گے وہاں ان سے نکلنے والے بچے بھی انتہائی بھیانک اور ڈراؤنے ہی ہوں گے۔ ایسی صورتِ حال میں آج کل زِیر بحث بجٹ انتہائی معصوم اور بے ضرر دکھائی دے گا اور عوام بے اختیار کہہ اٹھیں گے: حکومتی چیمپئنز درست ہی فرماتے تھے کہ ''یہ عوام دوست بجٹ ہے‘‘۔
عوام دوست بجٹ کا دعویٰ درست ثابت کرنے کیلئے سرکار کی حکمتِ عملی ہر دور میں ہی کارگر رہی ہے۔ عوام تو سبھی جماعتوں کی طرزِ حکمرانی کے عذاب وعتاب برابر بھگت بیٹھے ہیں۔ اقتدار کی میوزیکل چیئر کے کھیل میں شریک سبھی جماعتوں کا وتیرہ رہا ہے کہ اقتدار میں ہوں تو اقدامات اور اصلاحات سے لے کر بجٹ جیسے امور کو عوام دوست ثابت کرتے نہیں تھکتے اور اپوزیشن میں ہوں تو ان سبھی میں کیڑے ڈالتے رہتے۔ راج نیتی کے اس گورکھ دھندے میں یہ بجٹ تماشے یونہی لگتے آئے ہیں اور آئندہ بھی لگتے رہیں گے۔ چار دن کی چاندنی میں سونا چاندی بنانے والوں سے لے کر مخالفت اور تنقید کے نشتر چلانے والے نشانہ بازوں تک‘ سب کے اپنے اپنے سیزن ہیں۔ بھاگ لگے رہن... تے لگدے رہن۔
ماضی کے سبھی ادوار میں حکومتوں کے معاشی سقراطوں‘ بقراطوں سے ہمیشہ ایک ہی معصومانہ فرمائش کرتا چلا آ رہا ہوں اور حکومتِ وقت کے اقتصادی ومعاشی چیمپئنز سے بھی یہی گزارش ہے کہ آپ سبھی تو عالم‘ فاضل‘ دانا وبینا ہونے کے علاوہ ملکی وبین الاقوامی وسیع تجربات کے بھی حامل ہیں اور چٹکیوں میں عوام دوست بجٹ بنا کر ملک بھر کو خوشحالی کے دور سے ہمکنار کرنے کے علاوہ دودھ اور شہد کی نہریں بھی نکال ڈالتے ہیں۔ ریاست کے انتظام وانصرام کا بجٹ بنانے والوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ چند افراد پر مشتمل ایک اوسط درجے کے گھرانے کا بجٹ بنا کر دکھائیں تو مانوں۔ یہ کیسے ماہرین ہیں جو پچیس کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل آبادی کا کامیاب بجٹ تو بنا ڈالتے ہیں لیکن چند افراد پر مشتمل گھرانے کا بجٹ بنانے سے قاصر ہیں اور گھرانہ بھی ایسا جس میں نہ لگژری گاڑیاں قطاروں میں کھڑی ہوں اور نہ ہی درجن بھر کمروں میں ایئرکنڈیشنر چلتے ہوں۔ نہ ملازموں کی فوج ہو اور نہ ہی قطاروں میں کھڑے خدمت گار۔ نہ انواع واقسام کے پکوان پکتے ہوں اور نہ ہی ضیافتیں اُڑائی جاتی ہوں۔ نہ بچے ہی ملکی وغیرملکی مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہوں اور نہ ہی ان کا ہر دن عید اور ہر رات شبِ برأت ہو۔ نہ ہی خود کو مصروف رکھنے کیلئے بیگمات لاکھوں کروڑوں روپے شاپنگ پہ اڑا ڈالتی ہوں اور نہ ہی اولادیں بین الاقوامی مہنگے برانڈز کے کپڑے زیبِ تن کیے نازاں اترائے پھرتی ہوں۔ نہ ہی مہنگے ریسٹورانٹس میں دوست احباب کے ساتھ پارٹیاں کرتے ہوں‘ نہ فارم ہاؤسز ہوں اور نہ ہی محفلیں سجتی ہوں۔ بڑے بڑے جھمیلوں اور تام جھام سے کوسوں دور‘ محروم و بے نیاز طبقے سے تعلق رکھنے والے فقط ایک کنبے کے بجٹ کا سوال ہے! پیٹ بھر روٹی اور باعزت گزر بسر۔ یہ سوال ہر بجٹ پر‘ ہر دور میں‘ ہر حکومت سے کرتا چلا آ رہا ہوں۔ نقار خانے میں مگر طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ڈھول ڈھمکوں اور باجوں گاجوں میں سسکیاں اور آہیں کسے سنائی دیتی ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ تاثر مزید پختہ ہوتا چلاجا رہا ہے کہ حکومتی چیمپئنز کے نزدیک میری فرمائش شاید بے جا اور پرلے درجے کی بونگی ہے۔ چوتھائی ارب کی آبادی پر مسلط ہنرمندانِ ریاست وسیاست ایک واجبی سے گھرانے کے بجٹ کیلئے ہرگز برسرِ اقتدار نہیں آئے۔ انہیں تو اپنے اور اپنے جیسوں کی موجوں اور عیاشیوں کے تسلسل سمیت اشرافیہ کے مال و زر سے لے کر دور دراز تک پھیلے کاروبار کے تحفظ اور فروغ کا ٹاسک ملا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے عیبوں و کرتوتوں کو چھپانے کے علاوہ دھونس اور دھاندلی کے دفاع اور بچاؤ کی تدابیر اور حیلوں کی ذمہ داری انہی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔ سماج سیوک نیتاؤں سمیت سرکاری بابوؤں اور بزنس ٹائیکونز پر مشتمل ٹرائیکا کے باہمی مفادات کے تحفظ اور فی گھنٹہ فروغ کی پالیسی پر گامزن نظام کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو‘ شریکِ اقتدار کوئی بھی ہو‘ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو‘ اس ٹرائیکا کا گٹھ جوڑ روزِ اوّل سے جوں کا توں اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ راج نیتی میں نقب لگانے والوں نے ایسے ایسے راستے اور طریقے دریافت کر رکھے ہیں کہ گورننس اور سیاسی بلوغت سے عاری ہونے کے باوجود کسی ایک کا داؤ لگ جائے تو وہ اپنے سبھی حواریوں سمیت جتھے کی صورت میں اس طرح حکومتی وسائل اور خزانے پر حملہ آور ہوتے ہیں کہ اخلاقی وسماجی قدروں سمیت قانون اور ضابطے بھی لِیر و لیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کس کی فرنچائز اور دکان کون کہاں کھولے بیٹھا ہے‘ سب کچھ سبھی جانتے ہیں۔ کام کے دام سے لے کر نجانے کیسی کیسی وصولیاں کھلے عام جاری ہیں۔ پیداواری عہدوں سے لے کر کلیدی مناصب سمیت سبھی مخصوص اہلیت سے مشروط اور مل کھانے کے فارمولے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک طرف کم از کم اجرت اس قدر شرمناک اور ناقابلِ بیان ہے‘ دوسری طرف حکومتی ایوان چلانے والے نیتاؤں سمیت ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں ومراعات میں ہوشربا اضافے کے بعد تبصرے اور ردِّعمل کیلئے ڈھونڈے سے بھی الفاظ نہیں ملتے۔ سینکڑوں فیصد اضافے کے دفاع میں وفاقی وزیرِ خزانہ کے بے ربط اور بے تکے جواز وحیلے سن کر ہوشمندوں کیلئے بھی یہ فیصلہ مشکل ہے کہ موصوف کے اس حسنِ بیان پر قہقہے لگائے جائیں یا دھاڑیں مار کر رویا جائے۔
آخر میں سالہا سال سے اپنی معصومانہ فرمائش کو خود ہی احمقانہ قرار دیتے ہوئے اعتراف کرتا ہوں کہ ''اپنی باتوں میں آ گیا تھا میں‘‘۔ اوسط درجہ گھرانے کا بجٹ سے کیا لینا دینا‘ اس کے سال بھر کیلئے تو بجٹ کے زہریلے انڈے اور بھیانک بچے ہی کافی ہیں۔ اگلے مالی سال میں اگلا بجٹ اور مزید زہریلے اور بھیانک انڈے بچے! اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے‘ ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ ملک کی اکثریت کا بجٹ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی واسطہ‘ بجٹ تو اس اقلیت کیلئے بنایا جاتا ہے جو اکثریت کی حالتِ زار اور بدحالی کی بینی فشری ہے۔ یاد رہے! اقلیت کی خوشحالی اور موج مستیاں اکثریت کے دربدر اور محتاج رہنے سے ہی مشروط ہیں۔ جب تک عوام بنیادی حقوق اور ضروریات سے محروم رہیں گے‘ اقلیت پھلتی پھولتی اور حکمرانی کے سبھی شوق باریاں لگا کر پورے کرتی رہے گی۔ بھاگ لگے رہن... تے لگدے رہن۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں