دریائے سوات کے ریلے میں دریا برد ہونے والے بدنصیبوں کی روحیں آسمانوں پر بارگاہِ الٰہی میں یقینا سراپا احتجاج ہوں گی اور ان سبھی کے مقدمات قدرت کی مدعیت میں عرش بریں پر درج ہو چکے ہوں گے کیونکہ زمین جب انصاف اور داد رسی سے قاصر ہو تو ناحق مارے جانے والوں کے مقدمات آسمانوں ہی پر درج ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ڈوبتا دیکھنے والوں کی فلک شگاف چیخوں کی گونج نہ انتظامی افسران کو سنائی دی اور نہ ہی حکومتی ایوانوں کو‘ بے بس اور لاچار خاندان کی موت کے منظر نے تو ٹیلوں‘ پتھروں سمیت دریا کو بھی رُلا دیا ہو گا۔ دوسری طرف گورننس کی بھینٹ چڑھنے والے خاندان کو لے کر پوائنٹ سکورنگ جاری ہے۔ تختِ پنجاب کے ترجمانوں سے لے کر جان نثاروں تک‘ سبھی بڑھ چڑھ کر اس دلخراش واقعے پر سیاست چمکائے جا رہے ہیں لیکن عملی طور پر ملک کے طول و عرض میں‘ حکومتی ایوانوں میں بے حسی کا سناٹا طاری ہے۔
اِک اِک کر کے مر گئے سارے‘ سب چیخیں خاموش ہوئیں
بستی کا رکھوالا سمجھا‘ روگ کٹے بیماروں کے
یہ المناک واقعہ بھی وقت کی گرد میں دَب کر ماضی کے سبھی حادثات اور سانحات کی قبروں میں شامل ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں 'جتنی خبریں اتنی قبریں‘ کے مصداق ہر حادثے پر وقتی افسوس اور ماتم سمیت سیاست کے بعد اس کی قبر بنا دی جاتی ہے۔ اسی طرح حادثات اور سانحات کی خبریں آتی رہتی ہیں اور قبریں بنتی رہتی ہیں۔ آئندہ بھی خبریں آتی رہیں گی‘ قبریں بنتی رہیں گی‘ شہر خموشاں زندہ باد! پوائنٹ سکورنگ اور سیاست پائندہ باد!
دنیا بھر میں سیاحت باقاعدہ انڈسٹری اور معیشت کے اہم جزو کا درجہ رکھتی ہے لیکن ہمارے ہاں سیاحت ایک جال کی طرح ہے‘ جس میں سیاحوں اور شائقین کو جھانسے سے پھنسایا جاتا ہے اور پھر ہر ممکن لوٹ مار کے بعد انہیں بے آسرا اور بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حکومتی اداروں سے لے کر ٹرانسپورٹ اور ہوٹل مالکان سمیت مقامی آبادی تک‘ سبھی اس بے رحم اور سفاک دھندے میں اپنی دنیا سنوارنے میں شب وروز مگن ہیں۔ کوئی دشوار گزار راستوں میں مارا جائے یا ناقص انتظام کی بھینٹ چڑھ جائے‘ یہ سبھی اپنی مستی میں سیزن لگاتے چلے آئے ہیں۔ سیاحوں سے اربوں روپے کمانے والے علاقے جیتے جاگتے‘ ہنستے کھیلتے انسانوں کے لیے موت کی وادی کیسے بن جاتے ہیں۔ ہر سیزن میں درجنوں ہولناک حادثوں میں قیمتی انسانی جانیں گورننس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں لیکن کسی کے کان پہ کبھی جوں نہیں رینگتی۔ ایک ہی نوعیت کے تواتر سے ہونے والے جان لیوا حادثات ہر سیزن میں اضافوں کے ساتھ رونما ہوتے چلے آئے ہیں۔ سیر وتفریح کے لیے آنے والوں کے لیے امن و امان سے لے کر شہری سہولتوں کی فراہمی تک‘ سرکار کا کوئی حصہ ہے نہ کوئی کردار۔ مقامی تاجروں کے لیے سیاح صرف منہ مانگی کمائی کا ذریعہ ہیں۔ کمائی کا ہدف پورا کرنے کے لیے سیاحوں کو مار کٹائی کے علاوہ جان ومال کے خطرات کا سامنا ہمیشہ ہی رہا ہے۔ دو روز قبل مری جیسے مصروف اور گنجان علاقے میں کاروباری رقابت کے نتیجے میں فریقین کی کھلے عام اندھا دھند فائرنگ کا واقعہ خیبر پختونخوا کے لتے لینے والوں کی کارکردگی پر کڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہر سیزن میں شمالی علاقہ جات کا رُخ کرنے والے شائقین اپنے سامنے جان لیوا حادثات رونما ہوتے دیکھتے ہیں۔ مقامی تاجروں کی غنڈہ گردی اور منہ زوری بھی برداشت کرتے ہیں لیکن باقاعدگی سے جاتے بھی ضرور ہیں۔ معصوم بچوں اور خواتین کو لے کر غیر محفوظ اور پُرخطر تفریح کے لیے ذلت اور ہر قسم کی بدتمیزی بھی برداشت کرنے کا حوصلہ خوب پایا جاتا ہے۔ اربوں روپے کمانے والے بدلے میں شائقین کو دے کیا رہے ہیں؟ نہ راستے محفوظ ہیں‘ خود ساختہ تفریحی مقامات‘ موت کی ان وادیوں میں تفریح کرنے والے عزتِ نفس سمیت خودداری اور جان و مال کا رسک بڑے شوق سے لیتے ہیں۔ مری میں ہونے والے شرمناک واقعات ہوں یا جان لیوا حادثات‘ سبھی کے لیے معمول کے واقعات بن جاتے ہیں۔ نہ کوئی سبق لینے کو تیار ہے‘ نہ کوئی عبرت۔ چل سو چل تے بَلّے بَلّے۔ بھیڑ چال کے مارے مانگے تانگے کی غیر محفوظ اور اَن فٹ گاڑیوں میں بھی بیوی‘ بچے بھر کر پہنچ جاتے ہیں۔ اکثر راستے میں اپنی غلطی کا خمیازہ بھگت لیتے ہیں تو بیشتر وہاں جا کر۔ سبھی اپنی ان مجرمانہ غلطیوں پر نازاں اور شاداں رہنے کو ''ایڈونچر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
قصور حکومتی اداروں کا ہے نہ مقامی تاجروں کا‘ اصل ذمہ دار وہ شائقین اور سیاح ہیں جو جان ومال کو خطرات سے دوچار کر کے باقاعدگی سے لٹنے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا شوق اور تفریح سرکار اور مقامی آبادی‘ دونوں کی اکانومی ہے۔ شائقین سے حاصل ہونے والی خطیر آمدنی کو اگر سیاحتی مقامات کی ترقی اور محفوظ تفریح پر خرچ کیا جائے تو ہمارے قدرتی مناظر دنیا بھر میں ممتاز اور مقبول ہوکر ملکی معیشت کو وہ سنبھالا دے سکتے ہیں کہ آمدنی سنبھالے نہ سنبھالی جائے لیکن ڈے ٹو ڈے سوچ رکھنے والے حکمران اور سرکاری بابوؤں کی نیت اور ارادے سیاحتی مقامات کی ترقی اور بہتری میں ہمیشہ حائل رہے ہیں۔ گو کہ نو نقد نہ تیرہ اُدھار کے فارمولے پر کاربند سرکار کی دیگر شعبوں میں بھی یہی ترجیحات ہیں‘ سیاحت تو ویسے بھی حکومتی ترجیحات سے کوسوں دور اور بے یارو مددگار چلی آ رہی ہے۔ سیاحت کے ظاہری و پوشیدہ چہرے بے نقاب کرنے کے بعد کچھ احوال ریاست اور سیاست کا بھی ہو جائے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے نتیجے میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے‘ ماضی میں حکومتیں بیلٹ کے ذریعے اکثریت حاصل کیا کرتی تھیں لیکن اس مرتبہ بیلٹ سے مایوسی کے بعد قانونی راستہ اختیار کیا گیا اور قانون نے نئے راستے استوار کر دیے ہیں۔ اگر یہ راستے ہموار رہے تو پی ٹی آئی کی سیٹوں کے بھی حصے بخرے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اگلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں باقاعدہ شراکت اور شمولیت کی خبریں گرم ہیں جبکہ دور کی کوڑی لانے والے صدرِ مملکت کی سبکدوشی اور رخصتی کی افواہیں بھی اُڑا رہے ہیں۔ ان کی تھیوری کے مطابق ایک اعلیٰ شخصیت کو صدرِ مملکت کی اضافی ذمہ داریاں سنبھالنے کی فرمائش کی جائے گی اور پیپلز پارٹی کابینہ میں معقول حصہ لے کر باقی مدت ہنسی خوشی گزارے گی۔ اس فارمولے کی صداقت کے بارے حتمی رائے تاحال مشکل ہے تاہم یہ فلم کامیاب نمائش کے باوجود چلتی نظر نہیں آتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی کوئی پیشکش قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ایسے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ہمارے ہاں ایسے سبھی تجربے اچھی مثال قائم نہیں کر سکے۔ ماضی گواہ ہے کہ جمہوری چیمپئنز برسرِ اقتدار آکر آمر بن جاتے ہیں اور جب آمر حکمران بنے تو انہیں جمہوری بننے کا شوق شیروانی زیب تن کرنے پر مجبور کرتا رہا۔ ایسی توضیحات اور جواز تراشنے والے کبھی اچھے مشیر اور خیر خواہ ثابت نہیں ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم کا مشورہ دے کر سو بار وردی میں منتخب کرانے کی ہلّہ شیری دینے والے اپنے جگاڑ اور موج مستی کے تسلسل کو دوام بخشنے کے چکر میں یہ سب ڈرامے بازیاں کرتے رہے۔ اسی طرح جنرل ضیا اور ایوب خان بھی اسی قسم کے مشیروں کے ہتھے چڑھ کے وردی کا وقار گنوا بیٹھے۔ الغرض ہمارے ہاں نہ جمہوریت خالص رہی‘ نہ آمریت۔ جمہوریت میں آمریت کا تڑکا اور آمریت میں جمہوری تڑکا کبھی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا۔