"AAC" (space) message & send to 7575

رُکھی سُکھی کھا تے ٹھنڈا پانی پی

صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی سبکدوشی کی تھیوری پر حکومتی وضاحتیں اور تردیدیں پُر زور ہوتی چلی جارہی ہیں۔ وزیراعظم نے بھی باور کرایا ہے کہ زرداری صاحب ہی صدر رہیں گے۔ ہماری سیاسی تاریخ کے سبھی ادوار کی جمع تفریق کا حاصل یہ ہے کہ حکومت جس امر کی جتنی شدت سے تردید کرے اس کے امکانات اتنے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حکمران جسے اَنہونی اور بعید از قیاس قرار دیتے نہیں تھکتے‘ وقوع پذیر ہونے کے بعد اسی کی توجیحات اور جواز پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ کرسی کی مضبوطی کے دعوے بھی کھوکھلے اور پانی کے بلبلے ہی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ دوسری طرف صدرِ مملکت سے وزیراعظم کی ملاقات میں ملکی استحکام اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ بھی سامنے آچکا ہے۔ قیادت کی تبدیلی کے بعد سے مقتدرہ کی سیاست سے دوری اور علیحدگی کے اعلامیہ کو بنیاد بنا کر حکمران اور ان کے ترجمان سسٹم میں تبدیلی خارج از امکان قرار تو دے رہے ہیں لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ کے علاوہ اسرائیل اور ایران کی جنگ سے خطے کو لاحق شدید خطرات اور ملکی سالمیت سے جڑے حالات کے بعد خارجی محاذ سے لے کر سرحدوں کے دفاع سمیت اندرونی انتشار سے نبردآزما ہونے والی عسکری قیادت کا ناقابلِ تردید کردار کئی نئی توضیحات کا باعث ہے۔ خاطر جمع رکھیے! سبکدوشی کی تھیوری سے لے کر سسٹم میں مزید انجینئرنگ کے جواز اور امکانات تقویت پکڑے چلے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو وفاقی فورس بنانے کا فیصلہ اسی انجینئرنگ کا اہم مرحلہ ہے۔ یہ وفاقی فورس چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی کارروائی کیلئے بااختیار ہو گی۔
داخلی سلامتی اور امن و امان سمیت وفاق کی رِٹ کو یقینی بنانے کے لیے اس اقدام سے سسٹم میں مزید اہم تبدیلیوں اور بڑی انجینئرنگ کے جواز از خود پیدا ہوتے چلے جائیں گے۔ بالخصوص 18ویں ترمیم کے بعد من مانی اور محاذ آرائی جیسی پالیسیوں کو بھی خاصی ٹھنڈ پڑتی نظر آرہی ہے۔ نہری منصوبوں پر سندھ میں شدید احتجاج اور تحریکوں کے علاوہ مخالفت میں قرار دادوں پر حکومتی اداروں کی بے بسی کئی کڑے سوالات کا باعث ہے۔ قومی مفادات کے منصوبوں کو علاقائی سیاست سے سبوتاژ کرنے کی بدعت اس قدر دوام پکڑ چکی ہے کہ وفاق کا دائرہ کار فقط دارالحکومت تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ سیاسی ضرورتوں اور وسائل کے بٹوارے کے تحت کی جانے والی 18ویں ترمیم کے سبھی انڈے بچے ملکی استحکام اور خوشحالی کے لیے کبھی اچھا شگون نہیں رہے۔ علاقائی اور علیحدگی پسند تصورات کے علاوہ ذاتی خواہشات اور ایجنڈوں کے تحت صوبے چلانے کے خواہشمندوں کی سبھی خواہشات پر بند باندھنے کے لیے بوقتِ ضرورت مداخلت اور وفاق کی رِٹ وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ ماضی کی غلطیاں اگر سدھاری نہ گئیں تو اس کے بھیانک اثرات نہ صرف آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتے چلے جائیں گے بلکہ قومی اتفاق کو بھی پارہ پارہ کرنے کا باعث بنتے رہیں گے۔
18ویں ترمیم کا ایک اضافی نقصان یہ بھی ہوتا چلا آیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ انتظامی مشینری بھی اکثر وفاق کے سامنے مزاحمت پر آمادہ رہی ہے۔ آئی جی اور چیف سیکرٹری سمیت ماتحت افسران کھلی پارٹی بازی کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر کئی ماہ تک لگنے والا میلہ اہالیانِ لاہور کے لیے نہ صرف باعثِ زحمت رہا بلکہ State within State کا وہ بدترین نمونہ تھا جس میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سمیت سبھی اعلیٰ و ادنی سرکاری بابوؤں نے بڑھ چڑھ کر اپنا اپنا حصہ ڈالا تھا۔ پٹرول بم سے لے کر نجانے کون کون سے ہتھیار اور اوزار اکٹھے کرنے کے علاوہ پورے شہر کی ٹریفک کا نظام مسلسل درہم برہم رکھنا استحقاق ہی سمجھتے رہے۔ مریضوں کی ایمبولینسوں سے لے کر جنازوں سمیت‘ سکول کالجوں کے بچوں کے راستے بند کرنے کے علاوہ عام شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ 18ویں ترمیم کے شراکت دار مزید کتنی شراکت داری نبھاتے ہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا لیکن یہ امر نوشتۂ دیوار ہے کہ شراکت کی ہانڈی بیچ چوراہے جلد پھوٹتی نظر آ رہی ہے۔ شراکت داری کے سودے میں کون فریق کتنے فائدے میں رہا اس کا اندازہ سبھی شریکوں کو بخوبی ہو چکا ہے۔ سندھ میں مسلسل چوتھا حکومتی دور انجوائے کرنے والے عملاً 17ویں سال میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ان کے پاس وجۂ حکمرانی کے سات جواز بھی نہیں ہیں۔ عوام کے حالات جوں کے توں اور بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حبیب جالبؔ نے آٹا 20روپے من ہونے پر کہا تھا:
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
آج 20روپے کی روٹی پر ملک کے طول و عرض میں کہرام برپا ہے لیکن حکومتی ایوانوں میں وہی سناٹا طاری ہے۔ لگژری گاڑیوں میں پالتو کتے گردنیں باہر نکالے سیر سپاٹے کرتے ہیں جبکہ گلی محلوں میں چلنے پھرنے والی مخلوق اُن آوارہ کتوں کے رحم و کرم ہے جنہیں انسدادِ بے رحمی کے نام پر معصوم بچوں سمیت جیتے جاگتے انسانوں کو بھنبھوڑنے اور کھانے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ گویا لگژری گاڑیوں سے لے کر سڑکوں اور شاہراہوں سمیت گلی محلوں تک بس ان کا ہی راج ہے۔ دوسری طرف نیا مالی سال شروع ہوتے ہی آئے روز بجٹ کے ڈرون حملے برابر جاری ہیں۔ قوتِ خرید ضرورتوں کے آگے بے بس اور اَدھ موئی ہو چکی ہے جبکہ ہر سال خشک سالی کی بھینٹ چڑھنے والوں کا نوحہ علیحدہ ہے۔ نسل در نسل روٹی‘ کپڑا اور مکان کا جھانسا کھاتے کھاتے کئی نسلیں رزقِ خاک بن چکی ہیں اور بچ جانے والے اسی خاک پر دھول اُڑا رہے ہیں۔
کوئٹہ سے مزید نو لاشیں پنجاب پہنچ چکی ہے۔ باپ کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے کوئٹہ سے روانہ ہونے والے دو بھائی تابوت میں گھر پہنچے۔ ایک گھر سے تین جنازے‘ اُف خدایا! شناختی کارڈ چیک کر کے بے رحمی سے مارنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ تعصب اور سفاکی کا یہ کھیل سینکڑوں جانوں کی بَلی لے چکا۔ حکومتیں بدل گئیں‘ ادوار بدل گئے لیکن یہ خون کی ہولی بدستور جاری ہے۔ تازہ ترین بس پر حملے میں تین مسافر جاں بحق اور 12 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں ایک میجر کی بھی شہادت ہوئی ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی 18ویں ترمیم کے زعم میں فلک شگاف بڑھکیں مارتے چلے جا رہے ہیں‘ خدا جانے کہ کس ایجنڈے پر اور کس کے اشارے پر کیا کر رہے ہیں۔
پنجاب میں نئی فورسز اور اتھارٹیز کا قیام زوروں پر ہے۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی دھاک جرائم پیشہ اور امن کے دشمنوں پر اس طرح بیٹھ چکی ہے کہ صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے بھر میں کرائم کا گراف گر چکا ہے۔ ڈکیتی اور گاڑی چوری جیسی وارداتوں سمیت قتل جیسے جرائم میں کمی اچھا شگون ہے جبکہ ذخیرہ اندوزی‘ منافع خوری‘ قبضے اور تجاوزات کے خلاف پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا افتتاح بھی ہو چکا ہے۔ تاہم یہ معمہ حل طلب ہے کہ ان فورسز کی حیثیت متبادل ہے یا متوازی؟ ان سبھی ذمہ داریوں سے منسوب محکمے یقینا مطلوبہ اہداف اور نتائج کی فراہمی میں ناکام ہیں تو وزیراعلیٰ کو نئی فورسز اور اتھارٹیز بنانا پڑی ہیں۔ ایسے میں ان محکموں کے کردار اور جواز بارے تو حکومت ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔ تاہم عوامی مسائل کو ذاتی معیشت بنانے والے سرکاری بابوؤں اور اہلکاروں کے بارے میںبھی کوئی دبنگ فیصلہ ضروری ہے۔ باقی عوام تو روکھی سوکھی کھا کر ٹھنڈا پانی پی ہی رہے ہیں‘ آئندہ بھی پیتے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں