سزاؤں کے حالیہ جھکڑ نے تین ایوانوں کو اپوزیشن لیڈروں سے محروم کر ڈالا ہے۔ ایوانوں کا موجودہ منظرنامہ نہ صرف ملکی بلکہ عالمی پارلیمانی تاریخ کے انوکھے اور منفرد ترین ریکارڈ کا حامل ہے۔ آنے والے دنوں میں اپوزیشن کے نئے قائدین کے نام سامنے آ ہی جائیں گے لیکن اپوزیشن کے بغیر ایوان چلانے کے کامیاب تجربے کا سہرا بھی تحریک انصاف کے سر ہے۔ 2022ء میں اقتدار سے رخصتی کے بعد پارلیمان میں بھرپور مزاحمت اور کانٹے دار مقابلہ کرنے کے بجائے استعفے دے کر احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں میں ایسے الجھے کہ الجھتے ہی چلے گئے‘ اور دوسری طرف پارلیمان کا محاذ حکومتی اتحاد کے لیے کھلا اور صاف میدان بنتا چلا گیا۔ عمران خان کی افتادِ طبع نے جہاں طرزِ سیاست میں شعلہ بیانی‘ گالم گلوچ اور اشتعال انگیزی کو دوام بخشا وہاں طرزِ حکمرانی میں بریفنگ اور ڈی بریفنگ کے علاوہ کانوں میں زہر گھولنے والوں پر بھی خوب انحصار کرتے رہے۔ ڈیڈ لاک اور مذاکرات سے انکار بھی ان کی سیاست کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ دھرنوں سے ایوانوں میں تو جا پہنچے لیکن طرزِ حکمرانی میں دھرنا مزاجی کی جھلک برابر جھلکتی رہی۔ سیاسی اختلافات کو نفرت اور ذاتی دشمنی کا ایسا رنگ چڑھایا کہ سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی بدل ڈالے۔ مزاج کی اس کمزوری کو سمجھنے والوں نے ایسا ہاتھوں میں لیا کہ سبھی آپشنز ہاتھوں سے نکلتے ہی چلے گئے۔ مقبولیت کے پہاڑ پہ چڑھتے ہی قبولیت سے اس طرح بے نیاز ہوتے چلے گئے کہ ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کی جادوگری کو بھی فراموش کرتے چلے گئے۔ خود کو جادو نگری کے اثرات سے دور اور محفوظ ہی تصور کرتے رہے‘ جن پر تکیہ تھا انہی سے مزاحمت اور محاذ آرائی پر اتر آئے۔ طرزِ حکمرانی کے انڈے بچے برابر نکلتے رہے تو طرزِ سیاست کے اثراتِ بد بھی بد سے برتر ہوتے چلے گئے۔ سونے پہ سہاگا کہیں یا کفرانِ نعمت کی انتہا‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بچی کھچی اپنی ہی حکومتیں لے بیٹھے۔ دونوں اسمبلیاں تحلیل کیا ہوئیں کہ بساط ہی الٹ گئی۔ سبھی تدبیریں اور اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ آئینی مدت میں انتخابات کی امید حسرت بنتی چلی گئی اور نگران حکومت کے دور میں دن میں تارے اور سبھی نظارے نظر آ گئے۔ مذاکرات سے مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی کی پالیسی نے وہ سبھی آپشنز بھی ختم کر ڈالے جو ریلیف اور واپسی کا باعث بن سکتے تھے۔ یہ طرزِ سیاست ہر روز ایک نئے ڈیڈ لاک کے ساتھ تحریک انصاف کی سرکردہ شخصیات اور ورکروں کو نت نئے عذابوں اور عتابوں سے دوچار کرنے کا باعث ہے۔ غمی خوشی ہو یا شادی بیاہ‘ بیماری ہو یا جنازہ‘ کسی کی روپوشی آڑے آتی رہی تو کوئی اسیری کے باعث شریک نہ ہو سکا۔ دھرنوں کے بعد یہ کلچر اور طرزِ سیاست اس طرح سرایت کرتا چلا گیا کہ کوئے سیاست کو انگار وادی بنا ڈالا۔ اپنی آنکھوں میں شہتیر سجائے نالاں پھرنے والے مخالفین کی آنکھ میں بال پر صبح شام سرکاری خرچ پر دھمال ڈالا کرتے تھے۔
الغرض تحریک انصاف پر یہ کڑے دن یونہی نہیں آگئے‘ اقتدار کا ایک ایک دن ان کے اسباب پیدا کرنے میں گنواتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں پر سرکاری سطح پر شادیانے بجانے کے علاوہ جیل میں ٹی وی اور دیگر سہولتوں کی عدم فراہمی کا کریڈٹ لینے والے عمران خان آج خود اسیری میں سہولتوں پر شاکی اور نالاں ہیں۔ دشمن مرے تے خوشی نہ کریے لیکن عمران خان حواریوں اور ہمنواؤں سمیت مسلم لیگ(ن) کی ہر مشکل صورتحال پر خوشیاں ہی مناتے رہے ہیں۔
وقت اور بخت بدلتے دیر نہیں لگتی‘ مسلم لیگ(ن) نے اسیری اور عتاب کے زمانوں میں بھی زمینی حقائق کو فراموش نہیں کیا۔ جن سے درد ملا تھا‘ انہی سے مداوے کے اسباب کرتے رہے۔ چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ عمران خان کو تبدیلی کا سونامی بنا کر اقتدار میں لانے والے قمر جاوید باجوہ ہی ان کی رخصتی کا باعث بنے اور جنہیں بے آبرو کر کے 2018ء میں اقتدار سے نکالا گیا تھا‘ وہی عمران خان کا متبادل بن کر اقتدار کے سنگھاسن پہ آ بیٹھے۔ اقتدار سے محرومی کا صدمہ عمران خان کے لیے اس قدر شدید ثابت ہوا کہ وہ جوش میں ہوش ہی گنوا بیٹھے۔ اشتعال انگیز بیانیوں کے علاوہ خود پر ریاستی اداروں سے براہِ راست تصادم کا بھوت سوار کر لیا۔ مصاحبین اور موقع پرستوں نے بانی کی افتادِ طبع کو استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ جھاکا اترتے اترتے پتا ہی نہ چلا کہ کیا کچھ پٹڑی سے اتار بیٹھے ہیں۔
ہمارے ہاں ماضی سے سیکھنے کے بجائے لکیر پیٹنے کی بدعت اس قدر دوام پکڑ چکی ہے کہ ہر دور میں ماضی کی غلطیاں کئی اضافوں کے ساتھ دہرانے کی روایت زندہ رہی ہے۔ یہ روایت اسی طرح زندہ رہی تو ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کی جادوگری بھی جاری رہے گی۔ ایوانِ اقتدار میں کسی کو اپنے پیش رو کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں نہ ہی زندان میں‘ حالانکہ یہ سبھی باری باری ایوان اور زندان کے مکین بنتے چلے آئے ہیں۔ ایوان میں آ کر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کل تک جو ایوان کا مکین تھا آج وہ ان کی جگہ زندان میں اَسیر ہے۔ میثاقِ جمہوریت میں بندھنے سے پہلے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی والے بھی اس بدعت کے زیر اثر ایوان اور زندان کے مکین بن کر باریاں لگاتے اور ایک دوسرے کو عذابوں اور عتابوں سے دوچار کرتے رہے ہیں۔ جب جب مسلم لیگ(ن) برسرِ اقتدار ہوتی تب تب پیپلز پارٹی کو ریاستی جبر اور اسیری کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے ادوار میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو قیدوبند کی صعوبتوں سے برابر گزرنا پڑا۔ میثاقِ جمہوریت میں بندھے تو دونوں پارٹیاں اس نتیجے پر پہنچیں کہ ''چھڈ جھگڑے تے کریے پیار‘‘۔ اس طرح وسائل اور اقتدار کے بٹوارے کا فارمولا ایسا کارگر ثابت ہوا کہ 18ویں ترمیم بھی کر ڈالی۔ یہ فارمولا ہنسی خوشی چل رہا تھا کہ ہنرمندانِ ریاست و سیاست نے 2018ء میں دوپارٹی نظام (گٹھ جوڑ) کو توڑنے کے لیے سیاست میں تحریک انصاف کا تجربہ کر ڈالا۔ یہ تجربہ ابتدائی ایام میں بس تجربہ ہی ثابت ہوا۔ دو پارٹی نظام نے مل کر جہاں تحریک انصاف کی حکومت کی سختیوں کو جھیلا وہیں ان کی ناتجربہ کاری اور پے در پے بلنڈرز سے وہ سبھی آپشنز اور راستے نکالے جو زندان سے ایوان کی طرف جاتے تھے۔ عمران خان پہلی مرتبہ ایوان میں آئے تھے اور زندان سے قطعی ناواقف تھے‘ وہ مسلسل اسی مغالطے میں رہے کہ وہ سدا اقتدار میں رہیں گے اور ان کے مخالفین اسیر اور زیر عتاب ہی رہیں گے۔ اس مغالطے اور طولِ اقتدار کی خواہش میں وہ ایسی محلاتی سازشوں کا ایسا جال بچھا بیٹھے بلکہ اس میں خود ہی جا پھنسے۔ نالائق مشیروں اور مصاحبین کی ہلہ شیری عمران خان کو بتدریج قبولیت سے محروم کرتی چلی گئی اور وہ مقبولیت کے خمار میں قبولیت کھو بیٹھے۔ ایسے میں اہلِ زندان کا ایوان تک سفر نہ صرف آسان ہو گیا بلکہ وہ کندھا دے کر برسرِ اقتدار آگئے۔ آج عمران خان کی اسیری کا دورانیہ نہ صرف طویل ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ دیگر رہنماؤں کی سزائیں بھی نافذ العمل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کی جادوگری کا خطرہ آج بھی منڈلا رہا ہے‘ اہلِ ایوان کو ماضی پیٹنے کے بجائے سیکھنے کی ضرورت ہے‘ وقت اور بخت بدلتے دیر نہیں لگتی۔