79واں یومِ آزادی منایا جا چکا۔ خلدِ بریں میں بابائے قوم اور مصورِ پاکستان کی روحیں بے چین اور یقینا پریشان ہوں گی‘ بانیٔ پاکستان کو کیا معلوم تھا کہ انسانی تاریخ کی دلخراش ترین ہجرت کے نتیجے میں ملنے والی مملکتِ خداداد کیسے کیسوں کے ہتھے چڑھ جائے گی۔ علامہ اقبالؒ بھی ملول ہوں گے کہ وطنِ عزیز کا مستقل منظرنامہ تو میرے کسی خواب کی تعبیر نہیں ہے۔ ملک کے طول و عرض میں قائداعظمؒ کی تعلیمات اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کی عکاسی تو درکنار جھلک بھی میسر نہیں۔ گلی کوچوں سے لے کر حکومتی ایوانوں تک سبھی مناظر قائد کی روح کو یقینا پشیمانی اور بے قراری سے دوچار رکھتے ہوں گے۔ آئین کی بے توقیری سے لے کر حلف کے انحراف تک‘ حصولِ اقتدار سے لے کر طولِ اقتدار تک‘ قانون اور ضابطوں کی دھجیاں اڑانے سے لے کر تذلیلِ انسانیت کے دلخراش واقعات تک‘ اقتدار اور وسائل کے بٹواروں سے لے کر ضرورتوں کی دلالی تک‘ من مانی کی حکمرانی سے لے کر من مرضی کے فیصلوں تک‘ کلیدی عہدوں پر مصاحبین اور چاپلوسوں کی تقرریوں سے لے کر انتظامی نشستوں پر خوشامدی اور کماؤ افسران کی تعیناتی تک‘ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے باوجود سول اعزازات کی بندر بانٹ سے لے کر سماجی ناانصافیوں تک حالات کا ماتم کروں یا نوحہ پڑھوں‘ دونوں کی داستان اس قدر طویل اور المناک ہے کہ 78سال کی تباہی و بربادی بیان کرنے کیلئے ایسے درجنوں کالم بھی ناکافی ہوں گے تاہم احتیاط اور اختصار کے تحت برادرم شعیب بن عزیز کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں جو اس وقت بے اختیار یاد آرہے ہیں:
یہ کس بستی میں لے آیا ہے رستہ
درختوں کا جہاں سایہ نہیں ہے
ہوا ڈر ڈر کے چلتی ہے یہاں پر
یہاں دریا ہے جو بہتا نہیں ہے
کسی چہرے سے لب کھرچے ہوئے ہیں
کسی آواز کا چہرہ نہیں ہے
وہ بت بھی اب پرستش مانگتا ہے
ابھی پتھر سے جو نکلا نہیں ہے
اکثر قارئین کا اعتراض ہے کہ میں اپنے کالموں سے ڈپریشن اور مایوسی پھیلاتا ہوں۔ ان سبھی کو میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں تو بس ماتمی کالم ہی لکھا جا سکتا ہے۔ چمکیلے اندھیرے کو اُجالا نہیں لکھا جا سکتا‘ دلفریب دعووں اور گمراہ کن اعداد و شمار پر مبنی حکومتی اعلانات عوام کے راشن کا بندوبست نہ کر پائیں تو سبھی دعوے اور وعدے جھانسے ہی ہوتے ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کے بدترین حریف بن کر اقتدار کی باریاں لگاتے رہے تو کبھی حلیف بن کر اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کی بدعت کو دوام بخشتے رہے ہیں۔ کسی نے روٹی‘ کپڑا‘ مکان کا جھانسا دے کر ان تینوں سے بدستور محروم رکھا ہوا ہے تو کسی نے قرض اُتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر نجانے کیا کچھ سنوار لیا ہے۔ کوئی تبدیلی کا سونامی بن کر آیا اور سبھی کچھ بہا لے گیا۔ ان سبھی کے نعرے اور وعدے اپنے اپنے لیکن دھندے اور ایجنڈے ایک دوسرے سے ہرگز مختلف نہیں ہیں۔ سبھی نے ایک دوسرے کی بدترین حکمرانی کے سبھی ریکارڈ ز ریکارڈ مدت میں ہی توڑے ہیں۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پے دہلے ہی ثابت ہوتے چلے آئے ہیں۔ کس کس کا رونا روئیں‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ یہ حریف بنتے ہیں تو ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھولتے اور لوٹ مار کی داستانیں سناتے نہیں تھکتے‘ جب حلیف بنتے ہیں تو مل کر‘ بانٹ کر کھاتے ہیں‘ یہی ان کا طرزِ حکمرانی ہے اور یہی ان کا طرزِ سیاست۔
آفرین ہے عوام پر! جو نسل درنسل دھوکے اور جھانسے کھاتے اور برابر لٹتے چلے آرہے ہیں اور دوبارہ لٹنے کے لیے ہر بار تازہ دم اور چوکس ہو جاتے ہیں۔ جب عوام کو دھوکوں اور جھانسوں کی لت پڑ جائے تو دھوکا دینے والے کیونکر باز رہیں؟ ہر بار ووٹ کی سیاہی عوام کے منہ پر ملنے کے بعد ایسے ایسے گل کھلاتے ہیں کہ عقل حیران اور قانون اور ضابطے گم سم دکھائی دیتے ہیں۔ کیسے کیسے عذاب جھیلتے عوام نہ ہوش میں آنے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان سبھی کے روپ بہروپ پہچاننے کو‘ کیسی کیسی نقابیں اترتی چلی جا رہی ہیں اور اصل چہرے بتیسیاں نکالے کس ڈھٹائی سے ایک دوسرے کی لوٹ مار کے پول کھولتے چلے جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں خواجہ آصف نے ایک انتظامی افسر کی گرفتاری پر توڑی کی ایسی پنڈ کھول ڈالی ہے کہ پوری حکومت ہی توڑی اکٹھی کرنے میں جتی ہوئی ہے لیکن پنڈ کھلنے کے بعد توڑی کہاں اکٹھی ہوتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ حالات کی آندھی اور جھکڑ سے ایک ایک تنکا اُڑتا نظر آرہا ہے اور چشمِ تصور سے بخوبی دیکھا جا سکتاہے کہ کون کہاں گھوم رہا ہے۔ بڑے عہدوں پر چھوٹے اور بالحاظ عہدہ جونیئر افسران کی تعیناتی کا کامیاب تجربہ خادمِ اعلیٰ نے اپنے ادوار میں کیا تھا جبکہ برادرِ کلاں کی حکمرانی کا بھی یہی طرۂ امتیاز رہا ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں ان سبھی بدعتوں کو دوام بخشتے ہوئے پوسٹنگ‘ ٹرانسفر کے لیے بولیاں اور ٹینڈر کھلنا شروع ہوئے‘ بعد ازاں نگران حکومت نے ماضی کے سبھی ریکارڈز پہلے 100 دن میں چکنا چور کر ڈالے تھے۔ اب خواجہ آصف نے ایک افسر کی گرفتاری کو وہ ہوا دی ہے کہ سلگتی اور دبی چنگاریوں کو بھی بھڑکا ڈالا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ آگ کہاں کہاں پہنچتی اور کیا کچھ جلا ڈالتی ہے اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ آج بھی پنجاب کے دو درجن سے زائد اضلاع میں جونیئر افسران کو ڈپٹی کمشنر لگا کر پرانے تجربات سے استفادہ جاری ہے جبکہ پولیس سروس میں بھی یہ بدعت زوروں پر ہے‘ سنیارٹی اور مہارت کی جگہ وفاداری اور جانثاری لے چکی ہے۔ اکثر سینئر پولیس اور انتظامی افسران کئی کئی سالوں سے پوسٹنگ کے منتظر اور ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں جبکہ جونیئر افسران بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ گورننس کا یہ ماڈل انتظامی مشینری میں تفریق اور گروپ بندی کا بھی باعث ہے‘ سبھی کا اپنا اپنا کیمپ اور اپنا اپنا قبلہ ہے۔ ایک چھوٹے افسر کی گرفتاری پر اٹھنے والے طوفان اور بھگدڑ کا یہ سماں ہے تو ان افسران پر ہاتھ ڈالنے کے بعد تو یقینا قیامت کا ہی سماں ہو گا جن کے بارے میں سبھی واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں۔ لاہور سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے درجنوں افسران موجیں مار رہے ہیں اور کس حکومتی شخصیت کی جان کس افسر میں ہے‘ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ سیالکوٹ کا افسر تو بس ایک معمولی نمونہ ہے‘ یہاں پر تو بات بیرونِ ملک جائیدادوں سے لے کر دہری شہریت سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ ضلعی افسران سے لے کر درجہ بدرجہ سینئر اور اعلیٰ افسران تک سبھی پردہ نشین بے پردہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان سبھی کی داستانِ لوٹ مار زبان زدِ عام ہے‘ بات وہی چھپی ہوئی ہے جو ہوئی نہیں اور جو ہو گئی وہ چھپ نہیں سکتی۔ سماج سیوک نیتاؤں اور سرکاری بابوؤں سمیت ٹھیکیداروں کے علاوہ سبھی کی فائلیں نہیں‘ دفتر کھل چکے ہیں۔ شہرِ اقتدار میں ڈر کا ماحول ہے‘ جڑواں شہروں سے آنے والی خبریں برسرِ اقتدار اتحاد کے لیے اچھا شگون نہیں۔ ہواؤں کے رُخ بدلنے کے علاوہ تیور بھی بدل رہے ہیں‘ سبھی کے پول کھلنے کو ہیں‘ پانی کشتی کے اندر داخل ہو چکا ہے اور سبھی سوار ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ فلاح کا سوراخ میرے سوراخ سے زیادہ بڑا ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کس کو لے ڈوبتا ہے۔