سپریم کورٹ نے پانچ دن کی سماعت کے بعد بالآخر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی متنازع رولنگ کو آئین سے متصادم قراردے کر منسوخ اور وزیراعظم عمران خان کے اسمبلی تحلیل کرکے قبل از وقت انتخابات کرانے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے اپوزیشن کی طرف سے ریکوزٹ اجلاس کو بحال کرکے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ آئینی بحران گزشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوا جب خان صاحب نے پارلیمانی اکثریت کھو دینے کے بعد تحریک عدم اعتماد کا کھلے دل سے سامنا کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر کے ذریعے متذکرہ تحریک کو غیر ملکی سازش کا شاخسانہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا اور اس کے بعد صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج کر نئے انتخابات کرانے کا ناقوس بجایا تھا۔ اس تعطل نے 22 کروڑ آبادی کے حامل ملک کا رخ ایک ایسے آئینی بحران کی طرف موڑ دیا جو کسی بڑے تصادم کو سبب بن سکتا تھا؛ تاہم صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا۔ اپوزیشن قیادت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے ڈپٹی سپیکر کے متنازع اقدام کی تشریح مانگی تو عدالت عظمیٰ نے فریقین کو سننے کے بعد گورنمنٹ کی پیش دستی کو آئین سے متصادم قرار دے کر واپس پلٹ دیا۔
بلاشبہ ہمارا ملک اس وقت اپنی تاریخ کے جس نازک ترین مرحلے سے گزر رہا ہے اس کے محرکات کے علت و معلول نہایت واضح ہیں۔ یہ وہی طرزِ عمل ہے جسے ہم پچھلے 74 سالوں میں بار بار دہراتے رہے ہیں لیکن اب چونکہ وقت، حالات اور عالمی قوتوں کے مفادات بدل چکے ہیں‘ اس لیے ماضی کی ایسی مہمات کے جمع شدہ تمام مضمرات بھی ہمارے تعاقب میں نکل آئے ہیں۔ بادی النظری میں یہی لگتا ہے کہ جولائی 2018ء کے الیکشن سے استوار کیے گئے بندوبست کا پُرشکوہ ڈھانچہ ٹھہر نہیں سکا اور اس نظام کا سارا ملبہ آن گرا ہے۔ افغانستان میں امریکی شکست کا بدلہ چکانے کی خاطر مغربی
طاقتیں واحد مسلم ایٹمی مملکت کو ایسے معاشی و سیاسی عدم استحکام تک پہنچانا چاہتی ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے؛ فی الوقت اسی آشوب نے ہماری سیاسی اشرافیہ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اس وقت کی پوری جدلیات اسی کیفیت سے نکلنے کی مساعی کے گرد گھومتی ہے۔ عدم اعتمادکی اس تازہ آزمائش میں اتارنے کیلئے نوازشریف کو برطانوی اشرافیہ کے ذریعے اور مولانا فضل الرحمن کو آصف علی زرداری کے ذریعے مینج کرکے ایسے گھوڑے پہ سوار کرایا گیا جس کی باگیں ان کے ہاتھ نہیں تھیں؛ تاہم عمران خان نے اپنی سیاسی بقا کی خاطر بائونڈری کراس کرکے ملک کو ایسے آئینی بحران میں دھکیل دیا جس سے نکلنا دشوار ہوگیا تھا، چنانچہ اپنی افتادِ طبع کے عین مطابق ملکی سلامتی کے تقاضوں اور مملکت کے مجموعی مفادات کو پس پشت ڈال کے ایسی مہم جوئی کی راہ چن لی گئی جس نے ملکی قیادت، انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کو دو راہے پہ لا کھڑا کیا لیکن عدالت عظمیٰ کی جانب سے آئینی اصولوں کے مطابق فیصلے آنے کے بعد سیاسی عمل کی اس ریل کو دوبارہ پٹڑی پہ چڑھا دیا گیا ہے جسے نامطلوب سیاسی کشمکش نے ٹریک سے اتار دیا تھا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہماری تقدیرکے مالک سیاست دانوں،بیوروکریسی اور صنعت کاروںکی اولادیں، مفادات اور مالی وسائل مغربی ممالک میں ''محفوط‘‘ہیں، اس لیے یورپ اور امریکا کا ہماری فیصلہ سازی کی جہتوں پہ اثرانداز ہونا بعید از قیاس نہیں۔ عالمی سطح پہ قوم کی نمائندگی کرنے والی کلاس کو ذاتی مفادات‘ مغربی طاقتوں کے عزائم کے خلاف عقلی و نفسیاتی مزاحمت سے روک لیتے ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہماری مملکت کو معاشی مسائل کے دلدل میں اتار کے کنٹرول کرنے کا مقصد یہی تھاکہ ایٹمی مملکت کی بقا کو اُن عالمی مالیاتی اداروں کی منشا سے معلق رکھا جائے جنہیں مغرب کنٹرول کرتا ہے؛ چنانچہ موجودہ سیاسی ہلچل مملکت پہ پہلے سے منڈلاتے خطرات میں اضافہ اور ملک کے بانڈز اور کرنسی میں مزید گراوٹ کے نقصانات کے خطرات کو بڑھا رہی ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف ہماری اشرافیہ کو خان صاحب کے سبھی فیصلوں کونظر اندازکرنے پہ مجبور کرسکتا ہے بصورت دیگر عالمی مالیاتی ادارے ملک کو ڈیفالٹ کے ایسے خطرہ سے دوچار کر دیں گے، جسے پانچ سالہ کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ سے ماپا جاتا ہے‘ جو پچھلے مہینے تقریباً دوگنا ہونے کے علاوہ 2013ء کے بعد سب سے زیادہ گہرا ہوا ہے۔ ایک ماہ میں روپیہ جمعرات کو 3.1 فیصد گرنے کے بعد جمعہ کو 0.7 فیصد مزیدگر کر 189.25 پر آگیا۔ عالمی اداروںکے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں ملک کے 5.625 فیصد ڈالر کے بانڈز اس سال پہلے ہی 5 فیصد کم ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے معاون 'ماہرین اقتصادیات‘ کہتے ہیں 'مارکیٹ عدم اعتماد کے ووٹ کے باعث معقول حد تک پریشان ہے کیونکہ حکومت کی برطرفی سے پاکستان کے اصلاحاتی ایجنڈے اور آئی ایم ایف پروگرام کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ جون کے آخر تک ڈالر 200 روپے تک جانے کا خدشہ ہے۔ روپیہ پہلے ہی اس سال 5 فیصد سے زیادہ گر کر ریکارڈ کم ترین سطح پہ آچکا ہے۔ کرنسی کی مسلسل گراوٹ نے درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے فروری میں مہنگائی کی سالانہ شرح کو 12.2 فیصد تک بڑھا دیا۔ گزشتہ ماہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ جس پروگرام پہ بات چیت جاری ہے‘ اسے ستمبر تک مکمل کرنے کاعزم ظاہر کیا گیا ہے۔ کچھ مغربی تجزیہ کار اپنے تحقیقی نوٹس میں لکھتے ہیں کہ پاکستان اس غیریقینی سیاسی صورت حال میں آئی ایم ایف
پروگرام سے کیسے رجوع کرے گا؟پاکستان بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑھتے ہوئے کرنٹ اکائونٹ خسارے کی وجہ سے نچلی سطح تک اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے آشوب میں ڈوب رہا ہے۔ ایونیو ایسٹ مینجمنٹ کے مطابق پاکستانی معیشت‘ جو عالمی منڈی میں تیل کی بلند قیمتوں کا شکار ہے‘ کو اس وقت صرف ایسا سیاسی سیزفائر ہی مہنگائی کی چوٹ سے بچائے گا جو پاکستان کے عدم اعتماد کے ووٹ کے کریڈٹ پر اثر انداز ہو سکتا ہو۔ یہ دراصل پی ٹی آئی گورنمنٹ کو اپوزیشن کی سیاسی یلغار سے بچانے کی بالواسطہ تجویز تھی۔ شاید اسی کے پیشِ نظر کچھ مصلحت کوش لوگ اپوزیشن سے درمیانی راستے نکلنے کی تجاویز پہ بات چیت کرتے رہے۔ ہانگ کانگ میں ایونیو ایسٹ مینجمنٹ کے فکسڈ انکم کے سربراہ کارل وونگ نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'حکومت میں ممکنہ تبدیلی آئی ایم ایف کی فنڈنگ کوخطرے میں ڈال سکتی ہے‘۔ تین اپریل کو پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر نے مبینہ رجیم چینج سازش کو جواز بنا کرغیر آئینی طریقے سے اس تحریک عدم اعتماد کومستردکیا جس میں حکومت کی شکست یقینی نظر آ رہی تھی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ پانچ روز تک کیس کی سماعت کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ غیرآئینی عمل کی واپسی کے سوا کوئی دوسری راہِ عمل موجود نہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام پر عدالتی فیصلہ قومی سلامتی
اور آئینی نظام کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گا کیونکہ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کسی سویلین حکمران نے آئینی حدود کو نظر انداز کر کے ملک کو ناقابلِ برداشت سیاسی بحران میں دھکیلا تھا۔ عدم اعتماد کے ووٹ کو روکنے کے اقدام کے خلاف عدالتی فیصلہ حکومت کے مابعد فیصلوں بشمول اسمبلی کی تحلیل اور 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کو بھی کالعدم کرگیا۔ اس صورت حال میں پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں بحال اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پہ کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔ اگر خان صاحب اعتماد کا ووٹ کھو دیتے ہیں‘ جس کی قوی توقع ہے‘ تو اپوزیشن شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کرکے اگست 2023ء کے عام انتخابات تک اقتدار سنبھال سکتی ہے؛ تاہم اقتدار کی منتقلی کا ہموار عمل ہی ہماری نجات کی راہیں کھول سکتا ہے۔ اپوزیشن یہ بھی کہتی ہے کہ وہ قبل از وقت انتخابات چاہتی تھی لیکن غداری کے مبینہ الزامات کی تحقیق اورغیر آئینی عمل کی واپسی کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کو سیاسی شکست دینے کے علاوہ انتخابی اصلاحات کے بعد ہی اگلے عام انتخابات کے شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ 2018ء کے انتخابات شفاف نہیں تھے۔ دوسری طرف حکومت کے خلاف حالیہ عدالتی فیصلہ آئین کی پامالی کے جرم میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے اہم ارکان کے خلاف قانونی کارروائی کا دروازہ بھی کھول چکا ہے۔ انتہائی صورت میں یہ اگلے انتخابات سے عمران خان کی نااہلی کا باعث بھی بن سکتا ہے جیسے 2012ء میں یوسف رضا گیلانی اور 2017ء میں نوازشریف کے ساتھ ہوا تھا۔