حالات کے مطابق اب یہ ہی قومی نعرہ جچتا ہے۔ جو دے اُس کا بھلا‘ جو نہ دے وہ بھی نظرثانی کی گنجائش رکھے۔ اب کی بار نہیں اگلی بار سہی۔ دہائیوں تک ہم نے افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی چوکیداری کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیے۔ عوض میں کچھ پیسہ ملا اور ہم سمجھے کہ مستقل بنیادوں پر ہمارے حالات درست سمت چل پڑے ہیں۔ چوکیداریاں ختم ہوئیں پیسہ آنا بھی رُک گیا اور کشکول آگے کرنے کی ضرورت زیادہ پیش آنے لگی۔ بھلا ہو قطر کا جس نے فیفا ورلڈ کپ کے سلسلے میں ہماری خدمات مانگ لی ہیں۔ کچھ تو مل جائے گا۔
گدا گرخاندانوں میں بھی اونچ نیچ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ خاندان کا سربراہ ہوتا ہے جو کام چلاتا ہے۔ کس نے کس چوراہے پہ بیٹھنا ہے‘ کون سی صدائیں لگانی ہیں‘ یعنی ایسے خاندانوں میں اپنے معاملات کے بارے میں کوئی کنفیوژن نہیں ہوتی۔ پاکستان کے معاملات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ غربتِ خزانہ ایک طرف‘ کچھ پتا ہی نہیں چل رہا کہ ملک میں ہو کیا رہا ہے اور آئندہ کیا ہونا ہے۔ آئندہ کا مطلب اگلے پانچ سال نہیں‘ اگلے پانچ مہینوں میں کیا ہونا ہے اس کا بھی پتا نہیں۔ اکابرینِ ملت امیدوں پر بیٹھے ہیں اور توکل پر کام چلا رہے ہیں۔ ان کے وسوسوں کا قوم کو کچھ اندازہ ہے۔ عمران خان کی شکل برداشت نہیں کر سکتے‘ اُن کی عوامی مقبولیت سے ڈرے ہوئے ہیں۔ ہرطرف آواز ہے کہ کام نہیں چل رہا تو الیکشن کراؤ تاکہ نئے لوگ نئے عزم و ہمت سے معاملات سنبھال سکیں‘ لیکن اس راہ پر بھی چلنے کیلئے تیار نہیں کیونکہ الیکشن کا سوچتے ہیں تو وسوسے ڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ الیکشن میں عمران خان کی موجودگی بھاری ثابت ہوگی۔ یہ سارا زائچہ مان لیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ ہوا ہے تو حکومت تبدیلی کے عمل کو شروع کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ سوال ہے لیکن اس کا جواب کہیں سے نہیں ملتا۔ قوم بیچ میں پھنسی ہوئی ہے اور قوم کے ساتھ وہ ہو رہا ہے جو اس بدقسمت قوم کے ساتھ پہلے کبھی نہیں ہوا۔
سیاست غیریقینی صورتحال کا شکار‘ معیشت تباہ حال‘ کل ہی ڈان کی ایک خبر تھی کہ کھلی مارکیٹ میں ڈالر دستیاب نہیں۔ ڈھونڈنے چلیں‘ نہیں مل رہے۔ یوٹیلیٹی سٹوروں کے سامنے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ گھنٹوں خواتین کھڑی رہتی ہیں کچھ سستا خوردنی تیل لینے کیلئے۔ شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے اور پھر کہیں ایک پیکٹ تیل ملتا ہے وہ بھی ناقص کوالٹی کا۔ بجلی کے بلوں نے قوم کو نڈھال کردیا ہے۔ بلوں میں اضافہ یکسر اتنا کہ عوام کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور ملک کے طول و عرض میں احتجاج کی صورت پیدا ہونے لگی۔ دو سو یونٹ کے بلوں پر کچھ چھوٹ کا اعلان ہوا ہے لیکن بینک ہاتھ سے ترمیم شدہ بل لینے کیلئے تیار نہیں اور ڈاک خانوں کے سامنے قطاریں لگ گئی ہیں۔ اوپر سے سیلاب اور بارش کی تباہ کاریاں۔ ہم جو شمالی پنجاب کے رہنے والے ہیں اس آفت سے بچے ہوئے ہیں کیونکہ یہاں پانی آتا ہے تو بہہ جاتا ہے۔ زیادہ تباہی تو جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں ہوئی ہے۔ کئی فلاحی ادارے ہیں جو صحیح معنوں میں آفت زدہ علاقوں میں امداد مہیا کررہے ہیں۔ اللہ اُن کو اور ہمت دے اور جو پاکستانی کچھ اور نہیں کر سکتے انہیں ان فلاحی اداروں میں حسبِ استطاعت چندہ دینا چاہیے۔ کل ہی میں نے اپنی بیٹی رابعہ سے پوچھا کہ کچھ دن پہلے جو میں نے پیسے بھیجے تھے اُن سے کیا کیا؟ کہنے لگی کہ اُس کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اُس کیلئے کچھ کپڑے لیے اور کچھ پیسے ہم نے الخدمت تنظیم کو دے دیے ہیں۔ یہ سن کر خوش ہوا اور کچھ شرم بھی آئی کہ میں نے اب تک کچھ نہیں دیا۔ ٹی وی پروگرام کرکے چکوال واپس لوٹا تو الخدمت تنظیم کی خدمت میں کچھ پیسے جمع کرانے کا ارادہ ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ بیٹی نے بالواسطہ شرم دلوائی ۔
قدرتی آفات میں حافظ سعید کی جماعت بھی پیش پیش ہوا کرتی تھی لیکن اب اُس پر عالمی دباؤ کی وجہ سے مختلف پابندیاں عائد ہو گئی ہیں اور حافظ سعید اور اُن کی جماعت کے چیدہ رہنما زیرِ حراست ہیں یا گھروں میں نظر بند ہیں۔ اس لیے ان کی سرگرمیاں اتنی نمایاں طور پر سامنے نہیں آ رہیں۔ ذاتی طور پر جماعت اسلامی سے ہماری دوری رہی ہے‘ یہ بچپن سے رہی ہے لیکن کیا کریں‘ اُن کی فلاحی تنظیم ایسے کاموں میں سب سے آگے ہوتی ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں‘ تو پھر چندہ وہیں جائے گا۔
اب تو حالت یہ ہے کہ مہنگائی نے لوگوں کو مار دیا ہے۔ لاہور جہاں قیام ہوتا ہے‘ ظاہر ہے رخصت ہوتے وقت کچھ نہ کچھ ادھر اُدھر دے دیتے ہیں۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ پچاس پچاس روپے کیلئے لوگ ترستے ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو پچاس روپے سے آج کے زمانے میں کیا ملتا ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں کے نصیب میں غربت لکھی ہوئی ہے۔ امیر طبقہ تو ایک ہے ہی ہے لیکن یہاں‘ ہندوستان اور بنگلہ دیش میں دنیا کی انتہا کی غربت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اور اب جو غربت کی لکیر سے اوپر رہنے والے ہیں اُن کی حالت بھی نہایت خراب ہو رہی ہے۔
لیکن داد دیں ہمارے ملک کو کہ غربت کے ساتھ ساتھ جو اَپر مڈل کلاس اور اوپر والوں کی عیاشیاں ہیں اُن میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ یہ عیاشیاں برقرار ہیں۔ گاڑیاں ایسے ہی فراٹے بھرتی ہیں اور مہنگے ہوٹلوں میں پرانی طر ز کا رش دیکھنے کو ملتا ہے۔ کوئی نہ سمجھے کہ یہ عجیب بات ہے۔ صورتحال جتنی بھی گمبھیر ہو ایسا ہی ہوتا ہے۔ روسی انقلاب پر جان رِیڈ کی شاندار کتاب ہے ''Ten Days That Shook the World‘‘ (جن دس دنوں نے دنیا کو ہلا دیا)۔ لکھتا ہے کہ جب روسی دارالحکومت پیٹروگریڈ میں انقلاب شروع ہوا یعنی جب زار نکولیس دوئم کے ونٹرپیلس پر حملہ ہوا تو پیٹروگریڈ میں ریستوران بھرے پڑے تھے۔ فیشن کرنے والے لوگ‘ مرد و خواتین‘ اپنے پورے رنگ و بہار میں تھیٹروں اور دوسری ایسی جگہوں پر موجود تھے۔ یعنی ایک طرف ایک خونیں انقلاب شروع ہو رہا ہے اور ساتھ ہی دنیا کی عیاشیاں اپنے عروج پر ہیں۔ پیٹروگریڈ کا اوپرا ہاؤس بھرا پڑا ہے۔ بیلے تھیٹر میں بھرپور پرفارمنس ہو رہی ہے۔ شو کے بعد فیشن ایبل لوگ تھیٹروں سے نکل کر ریستورانوں کی طرف جا رہے ہیں۔ لینن کی جماعت بالشویک پارٹی اقتدار پر قبضہ کرنے جا رہی ہے اور فیشن والے لوگ اس دنیا کو ہلا دینے والے واقعے سے بے خبر ہیں۔ زار کے ونٹر پیلس کے اندر انقلابی داخل ہوتے ہیں اور جہاں محل کی شراب ذخیرہ ہوتی ہے‘ اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جان رِیڈ لکھتا ہے کہ رات گئے باہر نالیاں شراب سے بھر جاتی ہیں۔
بالشویک پارٹی کا ہیڈ کوارٹر سمولنی انسٹیٹیوٹ تھا۔ وہاں لینن نمودار ہوتا ہے۔ پوڈیئم پر پہنچتا ہے اور اُس کے منہ سے ایک لفظ مدح سرائی کا نہیں نکلتا۔ بالکل نہیں کہتا ہم نے قربانیاں دیں‘ ہم پر ظلم ڈھائے گئے۔ کسی کو مخاطب نہیں ہوتا۔ اُس کے پہلے الفاظ یہ ہوتے ہیں ہم اب شروع کرتے ہیں سوشلسٹ معاشرے کا قیام۔ کوئی وعدہ نہیں ہوتا کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے۔ ہاتھ میں زمین‘ تجارت اور انڈسٹری وغیرہ کے نئے قوانین تھامے وہ قوانین پڑھے جاتے ہیں۔ یعنی ہر بات میں ایک فیصلہ ہوتا ہے۔
یہاں بھی انقلاب کے سوتے پھوٹتے رہتے ہیں لیکن نہ کوئی بالشویک پارٹی نہ کوئی لینن۔ بس ہم ہیں اور ہماری آہ و زاری۔