سیاسی مقابلہ خان کا ہو نہیں سکتا کیونکہ وہ اس بھان متی کے کنبے سے بہت طاقتور ہو گیا ہے۔عوام اُس کے ساتھ ہیں‘ اس رنگ برنگے سرکس کے پاس کچھ بھی نہیں۔اب تو ان کے پاس نعر ے بھی نہیں رہے۔یعنی کچھ کہنے کو نہیں۔اسی لیے خان کو کنٹرول کرنے کیلئے اور طریقے سامنے آرہے ہیں۔
جو معاملات عدالتوں کے سامنے ہیں اُن کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے‘ لہٰذا چپ رہنا ہی بہترہے۔ البتہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذہانت کو داد دینی چاہئے۔جو ضمنی انتخابات ہونے تھے اُن کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ عذر یہ ہے کہ ملک سیلاب اور اُس کی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں ہے حالانکہ جن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے تھے وہ سیلاب کی لپیٹ میں نہیں آئے۔لیکن تئیس تھانوں کی سلطنت جو اسلام آباد میں قائم ہے اُس کیلئے یہی فیصلہ بہتر تھا کیونکہ انتخابات ہوتے تو اندیشہ یہی تھا کہ وہی حشر ہونا تھا جو پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں ہوا۔البتہ جو بھی عذر پیش کیا جائے عوام نے تو وہ کہنا ہے جو اُسے نظر آ رہا ہے کہ شہباز شریف حکومت آنے والے ضمنی انتخابات کے میدان سے بھاگ گئی ہے۔
دوسرا کام بھی عقلمندی کا ہو رہا ہے کہ خان کی تقریروں کو براہ راست نشر کرنے میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ خلقِ خدا جلسوں میں جمع ہوتی ہے لیکن خان کی تقریر بیشتر چینل براہ راست نشر نہیں کرتے۔ ٹی وی سکرینوں پر لائیو کوریج نہ ہو تو یوٹیوب سے کوریج حاصل ہوسکتی ہے لیکن یہاں خان کی تقریر کے وقت یوٹیوب بھی پراسرارطریقے سے بند ہو جاتی ہے۔
ان دواقدامات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے مہربان‘ خدا اُن کو سلامت رکھے‘ ہوشیار ہو گئے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ خان کا سیاسی مقابلہ وفاقی حکومتی جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔اب اور ہی حربے کارآمد ہو سکتے ہیں اور ایسے حربوں کو آزمانے کا وقت آگیا ہے۔مسئلہ البتہ یہ ہے کہ محض ضمنی انتخابات کے التوا اور براہ راست نشریات پر پابندی سے کیا ہوگا۔خان دندناتا پھر رہا ہے اور عوام اُس کی باتوں پر لبیک کہہ رہے ہیں۔جہاں جلسہ منعقد ہوتا ہے تعداد کے اعتبار سے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔لوگوں کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے اور پھر جو لتے خان لیتا ہے اور مخالفین کو بھگو بھگو کے مارتا ہے‘ یہ سارا عمل پریشانی کا باعث تو بنتا ہے۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ سیاہ وسفید کے مالک یہاں تک ہی رہتے ہیں یا دو قدم آگے بڑھ کر حالات ایسے پیدا کیے جاتے ہیں کہ خان اندر ہو جائے اور اُس پر پابندیاں لگ جائیں۔ یہ اب مفروضہ نہیں رہا‘ ممکنات کے دائرے میں ایسا خدشہ آ گیا ہے۔جو لوگ کہتے تھے کہ سال کے آخر تک یا اگلے سال کے شروعات میں الیکشن ہو جائیں گے اُن کی سادہ لوحی پر ہنسی آتی ہے۔الیکشن ہوئے تو یہ لوگ پٹ جائیں گے۔ تمام آثار بتاتے ہیں کہ الیکشن ہوئے تو ان کے ساتھ وہ ہوگا جوہاری ہوئی سائیڈ کے ساتھ تاریخِ پاکستان میں پہلے نہیں ہوا۔ تو کیا یہ الیکشن کا خطرہ مول لیں گے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں کرسکتے لہٰذا ان کیلئے واحد راستہ راہِ فرار ہے اور راہِ فرار کی پہلی قسط ضمنی انتخابات کے ملتوی ہونے کی صورت میں ہم دیکھ چکے ہیں۔
سادہ لوحی سے کام اب نہیں چلے گا۔ جو پاور گیم ہم دیکھ رہے ہیں‘ ایک طرف خان دوسری طرف سارے ناٹک کرنے والے‘ اب ایک خطرناک فیز میں داخل ہورہا ہے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ داؤ پر بہت کچھ لگا ہوا ہے۔ ہم میں سے بہت ہیں جنہوں نے ویسے ہی سمجھ لیا تھا کہ جو بیٹھے ہوئے ہیں چپ چاپ سے ایسے ہی چلے جائیں گے۔ طاقت کے ایسے کھیلوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ خان ویسے بھی ان کیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے اس لیے دل وسوسوں کا شکار ہو رہا ہے کہ پتا نہیں کیا ہونے جا رہا ہے۔ کیا کہہ سکتے ہیں‘ یہاں تو ہرچیز ممکن ہے۔ البتہ ایک بات تونئی ہوئی ہے کہ جن کو کبھی للکارا نہیں گیا اُنہیں خان نے خوب للکارا ہے۔پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ دنیا کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم پتا نہیں کن گڑھوں میں اب تک پھنسے ہوئے ہیں۔چھوٹے بھنور اور اُنہی میں گھومتے رہنا‘ یہ ہمارا مقدر رہا ہے۔یہ ماننا پڑے گا کہ خان نے ہمت دکھائی ہے۔ کوئی اور ہوتا لیٹ جاتا یا حالات سے سمجھوتا کر لیتا‘ یہ آدمی ہے کہ ڈٹ کے کھڑا ہو گیا ہے۔ اللہ کی مہربانی یہ ہے کہ اکیلا و تنہا نہیں کھڑا ‘عوام اس کے ساتھ ہیں۔ سرکاری پروپیگنڈے کا تو اثر ہی زائل ہو چکا ہے‘ عوام اس پر کان نہیں دھرتے او ر وہاں سے کوئی بات آئے تو اُس پر یقین نہیں کرتے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ بڑی بات ہے‘ نہیں تو بحیثیت قوم ہم کہانیوں پر پلتے رہے ہیں۔پہلی بار ہے کہ عوامی سطح تک ذرا ہٹ کے باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔یہاں تک معاملات جب پہنچ چکے ہوں تو پابندیوں سے کیا ہوگا؟
مسئلہ ذرا مختلف ہے۔مسئلہ تو یہ ہے کہ ملک کیسے چلنا ہے ؟ اوپر حکومت ایک بٹھا دی گئی ہے جو عوامی حمایت سے یکسر محروم ہے۔اس کا کیا کیا جائے گا؟ کسی عذر پر خان کو میدانِ سیاست سے نکالا جائے تو کیا عوام ایسے اقدام کوقبول کریں گے؟ اور خان کو نکال کر الیکشن کرائے جائیں وہ تو ایک مذاق ہی ہوگا اور جگ ہنسائی آپ کی ہو گی۔ کیا برداشت کرلیں گے ؟ ضیا الحق کا زمانہ یہ ہے نہیں کہ آپ سالہا سال انتخابات کو ملتوی کیے رکھیں۔ایسا اب ممکن نہیں! اوریہ بھی بات ہے سوشل میڈیا کی وجہ سے اظہار ِ رائے پر روایتی پابندیاں اِتنی کارگر نہیں رہیں۔ بات پھیل جاتی ہے‘ یوٹیوب پر پابندی لگائیں‘ لوگ کچھ اور راستہ ڈھونڈلیتے ہیں۔ خان کا مقابلہ کرنا تھا تو سیاسی طورپر کیا جاتا لیکن یہ جماعتیں چلے ہوئے کارتوس ہیں۔جیسے عرض کیا ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں اور لوگ اِن کے چہروں سے اکتائے ہوئے ہیں۔شریف اور زرداری پتا نہیں کب سے ہماری قسمتوں پر سوار ہیں۔ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور یہاں پر یہ حد عبور ہو چکی ہے۔
بہرحال دلچسپ وقت ہے۔ پاکستان کے مسائل اور ہیں لیکن اکابرینِ ملت اپنا تمام زور عمران خان پر لگائے ہوئے ہیں کہ اِسے کیسے قابوکرنا ہے۔ اور اِس انسان کے بارے میں ایک بات کہنی پڑے گی کہ نہ تھکتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ یہی تو خاصیتیں ہیں جنہوں نے اگلوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔جو انہوں نے کرنا تھا وہ تو کر بیٹھے لیکن اب سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ آگے کا گیم پلان کچھ ہے ہی نہیں۔ کسی کو پتا نہیں اگلے ماہ کیا ہونا ہے‘ کجا اِس کے کہ اگلے سال کیا ہونا ہے۔ خود کنفیوزڈ ہیں اور قوم کو بھی کنفیوژن میں گرفتار کر دیا ہے۔
دیکھئے تو سہی خان پر کیا کیا الزام لگ رہے ہیں۔ لیکن عوام کا شعور اتنا ہوچکا ہے کہ بھونڈی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔اب تکیہ اس پر کیا جا رہا ہے کہ خان معافی مانگے گا۔ افسوس کا اظہار اس نے کر دیا ہے‘ اور کیا کرے۔