انتخابات کا تو پتا نہیں کب ہوں گے۔ درپردہ اگر کوئی بات چل بھی رہی ہے ہمیں اُس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں‘ لیکن خان صاحب کے حالیہ انٹرویو کے بعد توسیع کا مسئلہ واضح ہو جاتا ہے۔ جب خان صاحب خود ہی کہہ دیں کہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والے وزیراعظم تک آرمی چیف یہی رہ سکتے ہیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ مسئلہ تو حل ہوگیا یا ہو جائے گا۔ بڑا اعتراض خان صاحب ہی کرسکتے تھے‘ جب اُن کا اعتراض علی الاعلان ہٹ گیا تو پھر مسئلے کو حل ہی سمجھنا چاہئے۔
سارا کچھ ہوا ہی اس لیے تھا کہ مختلف حلقوں میں یہ ڈرپایاجا تا تھا کہ خان صاحب وزیراعظم رہے تو نومبر کے کلیدی مہینے میں بڑے ادارے کے حوالے سے اپنی منشاکا سربراہ چنیں گے۔ ملک کے طول و عرض میں افواہیں گردش کررہی تھیں کہ خان صاحب کی نظرِانتخاب ایک خاص شخصیت پر پڑ سکتی ہے اوراگر ایسا ہوا تو صورتحال بہت مختلف ہوجائے گی۔وہ اس لیے کہ جن صاحب کا عوامی سطح پر نام لیا جا رہا تھا اُن کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں کی جاتی تھیں۔ کئی حلقوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ خان صاحب اور جنہیں اُن کا فیورٹ سمجھا جا رہا تھا ملک میں کہیں مطلق العنانیت قائم نہ کر دیں۔ یہ ساری افواہیں تھیں لیکن ان افواہوں میں بڑا زور تھا اور اگر ان کو بے بنیادقرار دیا جائے تو پھر ماہ ِاپریل کے اقدامات کا جواز ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کا عمل تبھی سمجھا جا سکتا ہے جب ایسی افواہوں کو‘ جن کا اوپر ذکر ہوا ہے‘ سامنے رکھا جائے۔ سارا معاملہ ہی نومبر میں تقرری کا تھا۔ اور تقرری کا مطلب یہ تھا کہ تقرری ہوگی کسی کی‘ توسیع نہیں۔لیکن اگر عمران خان خود ہی راضی ہو گئے یا حالات نے اُنہیں ایسا کردیا ہے کہ وہ راضی ہو جائیں تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ اگلوں نے اپنی بات منوا لی ہے اور وہی ہونے جا رہا ہے‘ لہٰذا اس موقع پر یہی کہنا بنتا ہے کہ مقتدرہ زندہ باد‘ ایک بار پھر اُسی کی بات چلی ہے۔
یعنی جو پتنگیں میڈیا میں اڑائی جا رہی تھیں کہ فلاں آرمی چیف ہوسکتا ہے‘ فلاں کے چانس زیادہ ہیں وغیرہ وغیرہ‘ یہ ساری باتیں فضول کی لگتی ہیں۔یہ سمجھا جارہا ہے کہ تقرری کا معاملہ اب ختم ہو چکا اور جس امر کے گرد اتفاقِ رائے ہو رہا ہے‘ وہ توسیع کا ہے۔ کیسے کہا جا رہا تھا کہ یہ مسئلہ متنازع ہوگا۔ خان صاحب کے ایک بیان نے سب تنازع ختم کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی اس معاملے پر جو باتیں ہو رہی تھیں‘ یا یوں کہئے کہ جو تنقید کی توپیں چل رہی تھیں‘ وہ ایسے عناصر کی طرف سے تھیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ عمران خان کے حامی یا ہمنوا ہیں۔ کامران خان کے ساتھ انٹرویو کے بعد سارا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ توسیع کا مسئلہ شجرِممنوعہ سمجھا جا رہا تھا لیکن جب قائد ِ نیا پاکستان خود ہی تسلیم کرنے چلے ہیں تو پھر یہ باب تو ختم ہوا۔بالفاظ دیگر کوئی تقرری وغیرہ نہیں ہونی‘اتفاقِ رائے توسیع کے بارے میں سمجھئے کہ ہوچکا ہے‘ اگرچہ خان صاحب نے بعد میں یہ بھی کہہ دیا کہ توسیع کی بات انہوں نے نہیں کی الیکشن تک تعیناتی مؤخر کرنے کی بات کی ہے۔
جواز خان صاحب جو بھی پیش کریں‘ بنیادی نکتہ تو یہ ہے کہ اُن کی طرف سے ایک بہت بڑا اقرارہو گیا ہے۔اس کے عوض اُنہیں ملا کیا ہے‘اس بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں کیونکہ ہم سارے حقائق سے واقف نہیں۔ کیا اس اقرار یا اعلان سے پہلے کوئی درپردہ رابطے ہوئے ہیں؟ ہمیں نہیں معلوم۔ کچھ طے ہوا ہے‘ ہم نہیں کہہ سکتے۔ خان صاحب کا مسئلہ تو انتخابات کا ہے کیونکہ وہی راستہ ہے جس سے وہ اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں۔کیا انتخابات کے بارے میں کچھ طے ہوا ہے ؟ چہ مگوئیاں ضرور ہو رہی ہیں لیکن کوئی حتمی چیز سامنے نہیں آئی۔عقلِ سلیم البتہ اتنا کہتی ہے کہ اگر اگلوں کا بنیادی نکتہ خان صاحب مان گئے ہیں تو کچھ تو الیکشن کا خاکہ سامنے آیا ہوگا۔تفصیلات شاید کچھ دیر بعد قوم کے سامنے آئیں لیکن فی الوقت قوم کو انتظار ہی کرنا پڑے گا۔
سوال البتہ یہ ہے کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو قوم کو اتنے امتحان میں کیوں ڈالا گیا؟تحریک عدمِ اعتماد لانے کی ضرورت کیا تھی؟ ان سارے سرکس کے کرداروں کو اکٹھا کرنے کی مجبوری کہاں سے پیدا ہوئی ؟ معاملات دو آدمیوں نے طے کرنے تھے‘ ایک عمران خان اور دوسرے جو مقتدرہ کی سب سے اعلیٰ پوزیشن رکھتے ہیں۔ وہاں معاملات طے نہیں ہوئے‘ بدگمانیاں بڑھیں‘ دونوں اطراف کے درمیان خلیج بڑھی‘ اور پھر عدم اعتماد کا کھیل رچایا گیا۔ کھیل کھیل تک ہی رہتا توکسی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ لیکن اس کھیل کی وجہ سے ملک کا ستیاناس ہو گیا۔ معیشت پہلے ہی بحرانوں سے گزر رہی تھی‘ عمران خان کی حکومت گئی اور یہ افلاطونی فنکار آئے تو حالات مزید خراب ہونے لگے۔ جتنا نقصان ان چار ماہ میں ہوا ہے اس کا ازالہ کون کرے گا؟ افراطِ زر پہلے بھی تھا لیکن اب تو بالکل قابو سے باہر ہو چکا ہے۔روپے کی قدر پہلے بھی کچھ اتنی زیادہ نہ تھی لیکن اب توروپیہ ردی کی قیمت کو جا پہنچا ہے۔ برآمدات ہماری بڑھ رہی تھیں‘ اُس عمل میں رکاوٹ آچکی ہے۔ فیصل آبادکی فیکٹریوں سے بیرونی آرڈر پورے نہیں ہو رہے تھے۔ اب جا کے فیصل آباد کی فیکٹریوں کا کوئی حال تو پوچھے۔ سارے رو رہے ہیں۔عمومی طور پر کاروبار ٹھپ ہوئے ہیں۔ ہرچیز جیسے جام ہو جاتی ہے کچھ ایسا منظر ملک کی صورتحال پیش کررہی ہے۔ اوپر سے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں۔یہ آفت تو چلیں آسمان سے آئی لیکن باقی معاشی تباہی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرا یا جائے؟
چلیں یہ تو سب کچھ ہو گیا۔ رونے پیٹنے سے کچھ بننا نہیں ہے‘ آگے کی طرف دیکھنا چاہئے۔ ساری خرابی پیدا کررہا تھا یہ تقرری کا معاملہ۔ اب جب سمجھنا چاہئے کہ یہ حل ہو رہا ہے تو واحد راستہ قوم کے سامنے انتخابا ت کارہ جاتا ہے۔ انتخابات کا اپنا پرابلم ہوتا ہے‘ ایک دوسرے پر دشنام طرازی ہوتی ہے‘ کشیدگی بڑھتی ہے۔ لیکن اور کوئی راستہ نہیں۔ملک کو سیاسی استحکام تب ہی نصیب ہوگا اگر عوام کی تائید سے ایک حکومت سامنے آئے‘ لہٰذا یہی دعا ہے کہ جس فضول تجربے سے قوم گزری ہے یا قوم کو گزارا گیا ہے اُس سے ہم کچھ سیکھیں۔ مقبول لیڈر عمران خان ہیں‘ اس میں کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی لیکن بات تو تب ہے کہ اُنہوں نے بھی اس سارے عمل سے کچھ سیکھا ہو۔ اگر اقتدار میں آتے ہیں تو پھر پہلے سے زیادہ بہتر اُن کی کارکردگی ہونی چاہئے۔محض نعروں یا جلسوں سے تو کام چلنا نہیں۔ انتخابات ہو جاتے ہیں تو پھر عمل کا دور شروع ہونا چاہئے۔ مقتدر قوتوں کو بھی کچھ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ مل جل کر ہی کام ہو سکتے ہیں۔اور قومی امور میں رہنمائی بہرحال عوام کے منتخب نمائندوں کی ہونی چاہئے۔طاقت کا مرکز جو بھی ہو عقل اور دانش کا مرکز بھی تو کوئی ہونا چاہئے۔ معیارِ حکمرانی ہمارے ہاں بہت پست رہا ہے۔ مواقع ہمیں بہت ملے ہم نے گنوا دیے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اِن سب چیزوں سے گزر کر ہم نے کچھ سیکھا ہے یا نہیں۔