سرکار‘ کیا اب بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کس حال میں ملک پہنچ چکا ہے اور کس مزید تباہی کی طرف یہ بدقسمت ملک جا رہا ہے؟ التجا کچھ زیادہ نہیں صرف اتنی ہے کہ جو کام بس کا نہیں اسے کیے جانا عقل مندی نہیں کہلائے گا۔ تاریخ دہرا سکتے ہیں کہ بے جا مداخلت نے ملک کو کیا نقصان پہنچایا لیکن اس دہرانے کا کیا فائدہ؟
مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں بس سمجھنے کی بات ہے۔ اب تو کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے کہ اپریل میں جو تبدیلیٔ حکومت ہوئی اُس سے ملک غیرمستحکم ہو گیا۔ غیریقینی کے بادل چھا گئے اورمعاشی صورتحال جو پہلے بھی اچھی نہ تھی‘ مزید ابتری کی طرف جانے لگی۔ تبدیلیٔ حکومت کرنے والوں سے یہ صورتحال سنبھالی نہ جا سکی۔ تو کہیے‘ قصور کس کا بنتا ہے؟ اب تو پرلے درجے کے بیوقوفوں کو بھی سمجھ آ چکی ہوگی کہ اپریل میں غلطی کی گئی تھی۔ لیکن جہاں غلطی کا ادراک ہو جائے وہاں تقاضا یہی ہوتا ہے کہ غلطی کو درست کر لیا جائے۔ لیکن آپ ہیں ایک تو غلطی ماننے کو تیار نہیں اور دوسرے کسی حل کی طرف جانے سے قاصر ہیں کیونکہ دماغ میں سوچ یہی ہے کہ ایسا کیا تو ناک کٹ جائے گی۔ ملک کا جو نقصان ہوا اُس کی کوئی پروا نہیں‘ اپنی ضد پر آپ قائم ہیں۔
مصیبت کا ایک نام ہے‘ عمران خان۔ سمجھا نہیں جا رہا تھا کہ وہ اتنی مزاحمت کرے گا اور اس کا تو کسی کو گمان نہ تھا کہ اگر وہ ڈٹ گیا تو عوام بھی اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا ہی ہوا اور ایسی صورتحال کا آپ کے پاس اب تک کوئی جواب نہیں بنا۔ یعنی مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان دبنے سے انکاری ہے اور اسے کرش کرنے کی طاقت کسی کے پاس نظر نہیں آ رہی۔ چھ ماہ سے پوری کی پوری وفاقی حکومت اس کی کردارکشی پر لگی ہوئی ہے۔ مقدمات بھی بنے ہیں لیکن اس کی عوامی مقبولیت پر کوئی اثر پڑنے کے بجائے‘ مقبولیت ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جن پر بس چلا‘ انہیں سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ شہباز گل اور اعظم سواتی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ شہباز گل بہیمانہ تشددکا نشانہ بنا۔ دورانِ حراست اعظم سواتی کی تذلیل کی گئی لیکن اس کی ہمت کو داد دینی چاہیے کہ ڈرنے کے بجائے جن کو وہ تشدد کا ذمہ دار سمجھتا ہے اُن کا نام کھلم کھلا لے رہا ہے۔ ارشد شریف کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ شخص ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا‘ متعدد مقدمات اس پر بنے اور اس نے شہباز گل کا حشر بھی دیکھ لیا تھا۔ اب بات گولیوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ تو عمران خان کی قسمت ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ سے بچ گیا‘ نہیں تو اس کے ساتھ وہی ہونے جا رہا تھا جو بینظیر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا۔ اس واقعے کا ہیرو تو وہ شخص ہے جو حملہ آور کے پیچھے کھڑا تھا اور جس نے اس کا ہاتھ پیچھے سے پکڑ لیا نہیں تو جو گولیاں عمران خان کی ٹانگ پر لگیں پتا نہیں کہاں پیوست ہو سکتی تھیں۔
خان کیا ڈرنے والا آدمی ہے؟ میدان سے بھاگ جائے گا؟ اس کا عزم جو پہلے بھی کمزور نہ تھا‘ مزید پختہ ہو جائے گا۔ جیساکہ اس کا ذاتی کردار ہے عین اس کے مطابق کہہ رہا ہے کہ لانگ مارچ جاری رہے گا۔ سمجھنے والوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ اس کی حکومت مخالف مہم جاری رہے گی۔ گولیاں لگنے کے بعد اس مہم میں مزید جان پڑ جائے گی۔ یہ تو قوم نے دیکھ لیا ہے کہ تھکنے والا یا ہار ماننے والا وہ شخص نہیں۔ جب تک نئے انتخابا ت کا اعلان نہیں ہوتا اس نے پیچھے نہیں ہٹنا۔ یہی تو مخمصہ ہے حکومت کے لیے‘ عمران خان کو کرش نہیں کر سکتی اور اس کا مطالبہ مانے تو یوں سمجھیے کہ اپنی خودکشی کا پروانہ لکھ دے گی کیونکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ الیکشن ہوئے تو یہ سب پٹ جائیں گے۔
اسے کہتے ہیں قسمت کا کھیل۔ اقتدار میں رہتے ہوئے عمران خان کی عوامی مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ مہنگائی کی وجہ سے حکومت کو برا بھلا کہا جاتا تھا۔ یہ بھی عام تاثر تھا کہ حکمرانی کے لحاظ سے پی ٹی آئی حکومت اتنی کامیاب نہیں رہی۔ لیکن خدا کا کرنا تھا کہ منصوبہ سازوں نے تبدیلیٔ حکومت کا منصوبہ بنایا‘ وجہ کچھ خاص نہ تھی بس وسوسے تھے کہ عمران خان پتا نہیں کس کو کس ادارے کا سربراہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ وسوسہ اگلوں کو ڈھیر کرگیا اور انہوں نے تبدیلیٔ حکومت کا پلان بنایا۔ ملک کو جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوا لیکن عمران خان کی ذات کو یہ اقدام راس آگیا۔ وہ ڈٹ گیا اور اس کی آواز پر عوام نے لبیک کہا۔ احتجاجی کال دیتا تو لوگ گھروں سے باہر آ جاتے۔ جلسوں کا سلسلہ شروع کیا تو ہر جگہ مثالی جلسوں کا انعقاد ہوا۔ حکومت اور سرپرستِ حکومت دونوں پریشان ہو گئے۔ ان کے پاس سوائے پروپیگنڈا مہم کے کچھ نہ تھا اور تمام کی تمام پروپیگنڈا مہم بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ لگتا یوں تھا کہ وفاقی وزرا کے پاس سوائے عمران خان کی دشنام طرازی کے اور کچھ کام نہیں۔ روز کی پریس کانفرنسیں لیکن بے سود۔ عوام کی نظروں میں عمران خان کا قدکاٹھ بڑھتا ہی چلا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ عمران خان کی زبان سخت ہوتی گئی۔ پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ کچھ حساس موضوع ہیں جن پر کھل کے بات کرنے سے ہم کتراتے ہیں۔ اشاروں میں بات ہوتی ہے لیکن عوام کا تجربہ بھی ہو چکا ہے اور گول مول بات بھی کی جائے تو لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ اسی گول مول زاویے کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی سیاسی گفتگو میں اسٹیبلشمنٹ کا لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ بہرحال تاریخِ پاکستان میں جو کچھ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کہہ رہا ہے ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اقتدار سے معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے تھے لیکن بھٹو صاحب کا جو حشر ہوا ہم سب اس سے واقف ہیں۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد نواز شریف نے بھی کچھ آوازیں نکالیں لیکن زیادہ دیر تک نہیں۔ مزاحمت کے راستے پر زیادہ دیر کاربند نہ رہ سکے اور پھر عافیت اسی میں سمجھی کہ جب راستہ ملا تو لندن کوچ کرگئے۔ عمران خان کی صورت میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک شخص کھلم کھلا ٹکر لے رہا ہے اور کھڑا ہے۔ اس پر ہاتھ ڈالنے کی آرزو تو ہوگی لیکن ہاتھ ڈل نہیں رہا۔ بھٹو صاحب والا اور زمانہ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ بہت طاقتور تھی اور سوشل میڈیا کی شکل میں آج کے ذرائع ابلاغ تب نہ تھے۔ بھٹو پر مقدمہ قائم کیا گیا اور اس مقدمے کا کیا بنا ہم جانتے ہیں۔ حالات اب مختلف ہیں۔ عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے حوالے سے خواہشات تو بہت ہوں گی لیکن حالات کی مجبوری ایسی کہ خواہشات کا پورا ہونا اتنا آسان نہیں۔
تو پھر آپ ہی بتائیے سرکار‘ کیا کرنا ہے۔ کیا ملک کی معاشی حالت آپ سے چھپی ہوئی ہے؟ جس سیاسی عدم استحکام کا شکار ملک ہے اس سے معیشت بہتر نہیں ہو سکتی‘ خرابی کی طرف ہی جائے گی۔ پھر کیا کرنا ہے؟ ایسے ہی چلانا ہے اور توکل پر یقین رکھنا ہے؟ صاف بات ہے اور یہ سمجھ آنی چاہیے‘ اس صورتحال کا متحمل ملک نہیں ہو سکتا۔ ہم تباہی کے دہانے پہنچ چکے ہیں۔ کچھ کرنا ہوگا۔ ایک تو ناسمجھی اوپر سے ضد۔ دونوں کو حلق سے نیچے کرنا ہوگا۔ پاکستان میانمار نہیں ہے نہ ہی مصر۔ وہاں جو ترکیبیں آزمائی گئی ہیں یہاں نہیں چلنے والی۔ مانا کہ مصلحتیں ہیں تحفظات بھی۔ ان کے اوپر ڈر بھی ہے کہ انتخابات کرائے گئے تو یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔ لیکن حضورِ والا اور کوئی راستہ نہیں۔