کتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ جب اقتدار اور طاقت کا سورج غروب ہونے لگے تو حالات پر گرفت نہیں رہتی۔بام ِ عروج پر ایوب خان تھے تو اُن کے سامنے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تھی‘ اقتدار پر گرفت ڈھیلی پڑی تو گلی کوچوں میں اُن کے خلاف نعرے لگنے لگے۔ مثالیں دینے لگیں تو صفحہ بھر جائے۔ جنرل مشرف کا قضیہ ہمارے سامنے ہے‘ طاقتور تھے تو ہر چیز مٹھی میں تھی‘ پاؤں پھسلا تو قدم پھسلتے ہی گئے۔ آج کل کی صورتِ حال بھی کچھ ایسے ہی ہے۔ طاقت کے سرچشموں کی حالت کبھی ایسی نہ تھی۔ وہ زمانہ بھی تھا کہ ایک مخالفانہ لفظ کی ادائیگی مشکل ہوتی‘زبانیں کھلی ہیں توجن کو اپنے اختیار و طاقت پر ہمیشہ ناز رہتا تھاپریشان اور لاچار نظر آتے ہیں۔
سب کچھ پہلے ہی ہل چکا ہے لیکن ایک ویب سائٹ پر چھپنے والی سٹوری اپنے اثر کے لحاظ سے کسی زلزلے سے کم نہیں۔ سٹوری پھیلی بھی کچھ ایسی ہے کہ پورا ملک اُس کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ جناب اسحاق ڈار کے اس اعلان نے پوری کردی کہ اس معاملے میں انکوائری ہوگی اور انکوائری کی رپورٹ چوبیس گھنٹے میں آ جائے گی۔ جب وزیرخزانہ کی طرف سے ایسا اعلان آئے تو بڑی خبر بنے گی اور اُس کا پھیلنا بھی فطری امر ہے۔ آئی ایس پی آر نے کچھ نہیں کہا لیکن جناب ڈار کی بظاہر ہمدردانہ حرکت پر غالب کا وہ مشہور مصرع صادق آتا ہے کہ 'ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو‘۔نوٹ کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ جناب ڈار نے انکوائری کا تو کہا ہے لیکن یہ کہنے سے اجتناب کیا ہے کہ یہ رپورٹ جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے۔
اس واقعے کی ٹائمنگ بھی ملاحظہ ہو۔ غالباً 20 نومبر یا ایک آدھ دن پہلے یہ خبر بذریعہ سوشل میڈیا منظرعام پر آئی۔آج 23نومبر ہے اور الوداع کی گھڑیاں قریب آ رہی ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ آنے والے طمطراق سے آتے ہیں‘ جانے والوں کے اوپر افسردگی کے بادل چھاجاتے ہیں۔اس کی کلاسک مثال پرویز مشرف کی الوداعی تقریب ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی جو کہ نئے آ رہے تھے‘ کے چہرے پر کیا اطمینان اور اعتماد جھلک رہا تھا اور جانے والے‘مشرف افسردگی میں ڈوبے ہوئے لگتے تھے۔جنرل اسلم بیگ بھی جب جا رہے تھے یوں لگتا تھا اُن کے پرکاٹ دیے گئے ہیں۔بس یوں سمجھئے یہ نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں۔الوداع کی گھڑیاں قریب آ رہی ہوں تو نفسیاتی طور پر کچھ کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ انسان نے کچھ کرنا ہو تو خود کرنا ہوتا ہے نہیں تو یہ امید یا توقع کہ میرا حساب آنے والے برابر کریں گے‘ خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔
بہرحال اس میں اوٹ پٹانگ قسم کے الزامات نہیں لگائے گئے۔ ٹیکس ریٹرن کے حوالے سے حقائق کو سامنے لایا گیا ہے‘ بغیر کسی تجزیے یا کمنٹری کے۔اور جب حقائق سامنے ہوں تو کمنٹری کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ظاہر ہے یہ سب حقائق ایف بی آر کے ریکارڈ میں موجود ہوں گے لیکن انہیں ڈھونڈنا‘ جمع کرنا اور پھر شائع کرنا یہ بڑی بات ہے۔ملکی حالات بھی دیکھئے کس نازک موڑ پر آئے ہوئے ہیں۔حکومت کرنے والوں میں یا طاقت کے سرچشموں میں اعتماد کا فقدان نہ ہوتا تو اہم ادارے میں تقرری کا اعلان اب تک ہو چکا ہوتا۔ چہ میگو ئیاں اور افوا ہ ساز فیکٹریاں بند ہو جاتیں اور قوم آگے کو دیکھتی۔لیکن کیا تماشا اس مسئلے کا بنا دیا گیا ہے‘ پوری قوم اس تقرری پر تبصرے فرما رہی ہے اور مبینہ فیصلہ سازوں کو ذرا بھی خیال نہیں کہ اُن کے بے حکمت رویے سے کیسا فضول کا سماں پیدا ہوچکا ہے۔
مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں ایک پیچیدگی بھی ہے۔ ایک صاحب جن کا نام تواتر سے لیا جاتا رہا ہے‘ بڑی الوداعی تقریب سے دو دن پہلے اپنی مدت پوری کررہے ہیں۔ ہمارے پاس حقائق نہیں ہیں لیکن افواہ ساز فیکٹریوں میں یہ خبر گرم تھی کہ شریف زادے ان کے حق میں ہیں کیونکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف ہیں۔ملاحظہ ہو کہ کیسی گول مول باتیں ہو رہی ہیں کیونکہ سیدھی بات کی جائے یا نام لیا جائے تو مصیبت پڑسکتی ہے۔ٹیکس ریٹرن خفیہ رہیں تو اُن میں جو کچھ بھی درج ہے‘ ٹھیک ہے۔ لیکن کوئی لاچار یا غریب کچھ کہہ دے تو قیامت برپا ہو سکتی ہے۔اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے یہ حالات ہیں۔ محلے کا چوکیدار چننا ہو تو ایسی لایعنی باتیں سننے کو نہیں ملتیں جو کہ ہمارے فیصلہ سازوں کی حکمت اورتدبر کے طفیل اس بڑے عہدے کی تقرری کے بارے میں سن رہے ہیں۔فلاں صاحب فلاں کے طرف دار ہیں‘ فلاں کا جھکاؤ فلاں طرف ہے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ فیصلہ میرٹ پر ہوگا۔ میرٹ کی تفصیل تو بیان ہو چکی کہ جھکاؤ یہاں ہے یا وہاں‘ پاکستان میں میرٹ کا آج کا پیمانہ یہ ہے۔
اوپر سے عمران خان ہیں جو اپنا ساز و سامان اور لاؤ لشکر راولپنڈی لا رہے ہیں‘ عین اُس وقت جب فیصلے کی گھڑی سر پر ہوگی۔ سیدھا سادہ میرٹ پر فیصلہ ہو تو کون انگلی اٹھا سکتا ہے؟ لیکن تھوڑی سی بھی ادھر اُدھر کی چیز ہو توعمران خان طوفان اٹھانے سے باز نہیں آئے گا۔ موجودہ بندوبست ویسے ہی ہچکولے کھا رہا ہے‘پھر یہ آنے والے دن اور اسلام آباد میں فیصلہ ساز ایسے جو اپنے سایوں سے گھبراتے ہیں۔یہ بھی دیکھا جائے کہ اس حکومت کا سب سے مؤثرہتھیار جناب راناثناء اللہ کی بڑھکیں تھیں اور اب حیرانی کا مقام ہے کہ بڑھکیں بھی قدرے دھیمی پڑگئی ہیں۔وزیردفاع خواجہ آصف نے بڑھکوں کا بیڑہ اٹھا لیا ہے لیکن خالی قومی اسمبلی میں جتنے بھی وہ گرجیں‘ اس تقریر آزمائی کا کیا اثرہوسکتا ہے؟
ہمارے دوست میجر سعید اختر ملک جو لارنس کالج کے پڑھے ہوئے ہیں اور میجرجنرل اختر حسین ملک کے بڑے بیٹے ہیں‘نے اپنی ایک سوشل میڈیا پر تحریر میں 1971ء کے حالات کی یاد دلائی ہے۔ ڈھاکہ پر ہندوستانی فوج قابض ہو چکی تھی‘ زمین پر ہتھیار ڈال دیے گئے تھے لیکن جنرل یحییٰ اُس موڑ پر بھی اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ مغربی پاکستان میں تمام فوج بارڈرپر تھی۔ ایک ریزرو ڈویژن گوجرانوالہ میں تھی جس میں بریگیڈیئر ایف بی علی ایک کلیدی عہدے پر تعینات تھے۔بریگیڈیئر ایف بی علی نے کرنل علیم آفریدی اور کرنل آغاجاوید اقبال کولیفٹیننٹ جنرل گل حسن کے لیے ایک پیغام دے کر بھیجا۔ پیغام اقتدار چھوڑنے کا تھا اورجنرل یحییٰ خان اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔کہنے کا مطلب یہ کہ ایک وہ وقت تھا اور حالات آج کے بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔
پوچھنا تو پھر بنتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں ؟ اور کن ہاتھوں میں زمامِ اقتدار ہے؟ اب کس زمانے میں ہم آ چکے ہیں ؟ ماضی کی خرابیاں بھی تھیں لیکن ایسی کہانیاں کبھی نہ سنی تھیں۔ آگے کیا ہونا ہے‘ نہیں معلوم لیکن اپنی اجتماعی بے چارگی پر ماتم کرنے کوجی چاہتا ہے۔