گندم کی فصل بوئی جا چکی ہے‘ مونگ پھلی کی فصل اٹھائی جا رہی ہے۔ منڈی میں مونگ پھلی کی قیمت خاصی اونچی ہو گئی ہے۔اور اس وجہ سے جہاں پہلے گاؤں کے ہمارے دوست بوری کے حساب سے مونگ پھلی تحفتاً دے جاتے تھے‘ اب شاپروں پر آ گئے ہیں۔بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کچھ تو آ جاتی ہے۔ہمارے علاقوں میں سردی شروع ہو گئی ہے لیکن ابھی تک کڑاکے کی نہیں پڑ رہی۔کھیتوں میں کچھ کیکر کے درخت ہیں جن کی چھانٹی سے سردیوں کی شاموں کے لیے ایندھن اکٹھا ہو جاتا ہے۔ پھلاہی کے درخت بھی ہیں جن کی لکڑی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔انگیٹھی میں آگ ہو‘ پرانی موسیقی ہو پھر کچھ اور بھی ہو تو خیال گزرے ہوئے وقتوں کی طرف لوٹ جاتا ہے۔پرانی یادیں دل میں اٹھتی ہیں اور رونے کا مقام بنتا ہے کہ کیسے کیسے مواقع ہم سے گنوا دیے گئے۔
درست ہے کہ ایک نئے سپہ سالار کا چناؤ ہو گیا ہے۔ اور تو ہمارے سے کچھ ہونا نہیں یہی ہمارے لیے بڑی خبر ہے۔ نئے چیئرمین جوائنٹ چیف جو چنے گئے ہیں اُن کا تعلق چکوال کے قصبہ ملہال مغلاں سے ہے۔ کل ہی ایک دوست نے فون پر بتایا کہ راتوں رات جنرل ساحر شمشاد مرزا کے بہت سے نئے رشتہ دار پیدا ہو گئے ہیں جو اُنہیں مبارکباد پیش کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔ملہال چکوال کے مشرق میں واقع ہے۔ موضع لطیفال چکوال کے شمال کو پڑتا ہے۔ عمران خان وزیراعظم رہے تو اہل لطیفال کو یقینِ تھا کہ وقت آنے پر نیا آرمی چیف اُنہی میں سے ہو گا۔ یقین اتنا پختہ تھا کہ ذہنوں میں شک کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ اب لطیفال پر تھوڑا سا سناٹا چھایا ہوا ہے اور جیسے عرض کیا نئے رشتے دار ملہال میں نمودارہو رہے ہیں۔ہمارے دوست جنرل فیض حمید نہایت ہی متحرک انسان ہیں‘ دوستوں کے دوست بھی ہیں۔یہ اتفاق اور نصیب کی باتیں ہوتی ہیں۔ قربت ِ عمران بہت تھی شاید یہی اُنہیں مہنگی پڑی۔
ایک اور بھی چکوال کے جرنیل تھے جو رہتے رہتے آرمی چیف نہ بنے۔ جنرل اشفاق ندیم اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اُن کا تعلق موضع نیلہ سے تھا جو ہمارے گاؤں بھگوال اور لطیفال کے قریب ہے۔ہمارا تھانہ وہی ہے تھانہ نیلہ۔جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے تو اشفاق ندیم کچھ عرصہ چیف آف دی جنرل سٹاف رہے۔تب کہا جاتا تھا کہ فوج کی کمان تو جنرل راحیل شریف کے پاس ہے لیکن دو سوچ رکھنے والے جرنیل اُن کے معاون ہیں‘ایک لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم اورتب میجر جنرل عامر ریاض جو غالباً ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے۔ یہ بات مجھے میجر جنرل اعجاز امجد نے بتائی تھی جو کہ‘ جیسے ساری دنیا جانتی ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کے فادر اِن لاء ہیں۔ آرمی ہاؤس کے اردگرد کی جگہ کو عرفِ عام میں جنرل کالونی کہا جاتا ہے۔ جنرل اعجاز امجد وہیں رہتے ہیں اور پاس ہی ہمارے دوست جنرل صلاح الدین ترمذی کی رہائش بھی ہے جو بعد میں نون لیگ کے سینیٹر رہے۔جنرل اعجاز امجدسے ہماری علیک سلیک وہیں ہوئی۔دسترخوان جنرل ترمذی کا ہمیشہ پُرلطف ہوتا ہے۔وہاں پر ہی جنرل اعجاز امجد سے گپ شپ ہوتی اورپھر دوستی بھی ہو گئی۔
اب جب جنرل قمر جاوید باجوہ رخصت ہونے کو ہیں تو بتانے میں شاید کوئی مضائقہ نہیں کہ جب یہ نئے نئے چیف بنے تو ایک دن جنرل امجد کا فون آیا کہ شام ساڑھے نو بجے آ جاؤلیکن بہتر ہوگا کہ اُس سے پہلے میرے ہاں آ جاؤ۔اور کچھ نہ کہا گیا لیکن ساڑھے نو بجے والی بات میں سمجھ گیا اوراُس سے پہلے آجانے والی بات بھی سمجھ میں آ گئی۔جنرل اعجاز امجد کی میزبانی بھی ہم جیسوں کیلئے ہے۔ساڑھے سات بجے میں پہنچ گیا اورخوب گپ رہی۔ساڑھے نو بجے اے ڈی سی لینے آئے اور جو ساتھ والا بڑا گھر ہے وہاں مجھے پہنچا دیا گیا۔آرمی ہاؤس کا بڑا ڈائننگ ہال ہے اور اُس میں ڈائننگ ٹیبل خاصا لمبا ہے۔اکیلے ہم بیٹھے اوربتانے کی ضرورت نہیں کہ کھانا پُرتکلف تھا۔ مختلف موضوعات پر گفتگو رہی۔ تب ڈان لیکس کا مسئلہ چل رہا تھا اور پاناما کیس میں جے آئی ٹی گو تشکیل دے دی گئی تھی لیکن ابھی بیٹھی نہیں تھی۔گفتگو کی تفصیل میں جانا مناسب نہ ہوگالیکن ظاہر ہے سب موضوعات پر میں نے اپنی رائے دی۔
باتوں باتوں میں یہ ذکر بھی ہوا کہ کہتے ہیں اور اُن کا اشارہ میاں نواز شریف کی طرف تھا کہ آرمی چیف بنا کر مجھ پر بڑا احسان کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ سنیارٹی لسٹ میں جنرل باجوہ کا نام چوتھے نمبر پر تھااور اُسی تناظر میں یہ ذکر ہو رہا تھا۔پھر ایسی بات وہاں ہوئی جس سے میں چونک گیا کہ اور کرتے بھی کیا‘ میرٹ پر جاتے تو لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم کو آرمی چیف بناتے۔جنرل اشفاق ندیم اور جنرل باجوہ ایک ہی کورس کے تھے لیکن سنیارٹی میں جنرل اشفاق ندیم آگے تھے۔سنیارٹی سے ہٹ کر بھی فوج کے حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ اُس وقت کے سب سے قابل افسر لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم تھے۔اور جنرل باجوہ کا خود یہ تسلیم کرنا اور میرے سامنے اقرار کرنا بڑے پن کا مظاہرہ ہے۔
جنرل اشفاق ندیم سے ناراضی کی وجہ کیا بنی تھی ؟ وہ اپنی رائے کا کھلا اظہار کرتے تھے اور یہ بات میاں نواز شریف‘ جوتب وزیراعظم تھے‘ کو پسند نہ آتی تھی۔خاص طور پر یمن کی موجودہ جنگ چھڑی اور یہ سوال اٹھا کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہئے تو کہا جاتا ہے کہ جنرل اشفاق ندیم‘ جو کہ تب چیف آف دی جنرل سٹاف تھے‘ نے بڑے بلنٹ انداز میں کہا کہ پاکستان کی طرف سے کسی قسم کی مداخلت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگی۔غالباً اندازِ بیان میاں صاحب کو پسند نہ آیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ گو پاکستان کی تاریخ میں میاں نوازشریف نے سب سے زیادہ آرمی چیف نامزد کیے ہیں اُن کی کسی سے بھی نہیں بنی۔جنرل اسلم بیگ کا بڑا ہاتھ تھا میاں نوازشریف کو سیاسی تقویت پہنچانے میں لیکن جب 1990ء میں وزیراعظم بنے تو اُنہیں جنرل بیگ کا سٹائل پسند نہ آیا۔اور یہ بھی درست ہے کہ وردی میں بطورِ چیف جنرل اسلم بیگ کا انداز کچھ زیادہ ہی شاہانہ تھا۔ تکبرانہ کا لفظ دانستہ میں استعمال نہیں کر رہا۔شاہانہ مزاج کو کاٹنے کی خاطر صدر غلام اسحق اور وزیراعظم نواز شریف نے یہ ترکیب سوچی کہ ابھی جنرل بیگ کی مدت ِ ملازمت میں کچھ عرصہ باقی تھا کہ نئے چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے نام کا اعلان کر دیا گیا۔جنرل بیگ ہواؤں میں اڑتے تھے اس اعلان سے وہ یکدم زمین پر آ گئے۔
لیکن میاں صاحب کے مزاج کا اندازہ لگایا جائے کہ اُن کی جنرل آصف نواز سے بھی نہیں بنی۔ شروع دن سے ہی ان کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ جنرل آصف نواز کی ناگہانی موت واقع ہوئی تو سینئر موسٹ جنرل واہ کے لیفٹیننٹ جنرل فرخ تھے لیکن کسی وجہ سے میاں نوازشریف اس بات پر ڈٹ گئے کہ جو بھی ہو جنرل فرخ آرمی چیف نہ بنیں۔صدر غلام اسحق خان کو سٹینڈ لینا چاہئے تھا اور اُس وقت سروس چیفس کی تقرری کا کامل اختیار صدرِ مملکت کے پاس تھا لیکن صدر غلام اسحق میاں نوازشریف کے دباؤ میں آ گئے اور یوں جنرل وحید کاکڑ کا نام بطور آرمی چیف چنا گیا۔
یہ اور بات ہے کہ جب اُس وقت کا سیاسی بحران بڑھا اور صدر غلام اسحق خان اور میاں نوازشریف میں معاملات طے نہیں ہو رہے تھے تو جنرل وحید کاکڑ نے دونوں سے کہا کہ ملکی مفاد میں یہ بات ہے کہ آپ اقتدار سے فارغ ہوجائیں۔جنرل جہانگیر کرامت نہایت ہی نفیس انسان ہیں لیکن اُن کی ایک تقریر وزیراعظم کو پسند نہ آئی اور وہ گھر چلے گئے۔اُن کی جگہ جنرل مشرف آئے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا اس سے ہم سب واقف ہیں۔