فضول کی دشمنیاں پالنا ہم نے آزمالیا۔ سوال بنتا ہے کہ اس امر سے ہم نے حاصل کیا کیا؟جن افلاطونوں نے ہمارے کہے بغیر اس قوم کی رہنمائی سنبھالی اور جن کی صلاحیتوں کے زور پر ہم یہاں تک پہنچے ہیں ان سے پوچھنا بنتا ہے کہ جنگوں سے ہم نے حاصل کیا کیا؟1965ء کی جنگ ہماری بھول سے شروع ہوئی لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ سترہ دن میں ہم تھک گئے اور بیرونی قوتوں کی طرف دیکھنے لگے کہ آ کے جنگ کو ختم کرائیں۔آنکھیں بند کرکے نام نہاد افغان جہاد میں ہم کودے اور اس مہارت سے کہ اپنی تباہی کا سامان پیدا کر دیا۔ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک ہم افغانستان کے حالات میں ملوث رہے اور آج سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا ہم نے کیوں کیااور ہماری جوانمردی کا ہمیں ثمر کیا حاصل ہوا۔
ملکوں میں معاملات خراب رہتے ہیں لیکن قوموں میں ہوش ہو تو عقل پہ پردے نہیں ڈلتے۔ہندوستان اور چین کے تعلقات خراب ہیں‘ گاہے گاہے اُن کے بارڈر پر جھڑپیں ہو جاتی ہیں‘ لیکن دونوں ممالک میں تجارت بھی جاری ہے اور اب تو سالانہ تقریباً ایک سو بلین ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔چین اور تائیوان کے تعلقات خراب ہیں اور چین کہتا ہے کہ تائیوان نے آزادی کا اعلان کیا تو جنگ چھڑ جائے گی۔لیکن تائیوان کی سرمایہ کاری چین میں موجود ہے اور چین اور تائیوان میں زبردست تجارت چلتی ہے۔ امریکہ اور چین کے تعلقات ٹھیک نہیں لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔ہم کس عقل کی پیداوار ہیں کہ ہندوستان جس سے جغرافیائی لحاظ سے ہمارا کوئی چھٹکارا نہیں اس کے ساتھ ہم نے تمام دروازے بند کیے ہوئے ہیں؟ آنا جانا مشکل‘ ویزا لینا ایک کٹھن کام اور تجارت ہماری بالکل بند ہے۔ہندوستان کی معیشت بہت آگے جا چکی ہے‘ ہمارے اقدامات سے اُس کا نقصان کیا ہونا ہے‘ سب کچھ بند کرکے نقصان ہمارا ہے۔ ہمارے کرتا دھرتوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی؟
چین یہ نہیں کہہ رہا کہ تائیوان کا مسئلہ کل حل ہو گا۔ اپنے مؤقف پر چین قائم ہے چاہے اس مسئلے کے حل ہونے میں سو سال لگ جائیں۔کشمیر کا مسئلہ ہے لیکن اس کا ممکنہ حل نظر نہیں آتا۔ہمارے پاس نعرے ہیں اور نعروں سے یہ مسئلہ حل ہونا ہوتا تو کب کا ہو گیا ہوتا۔کشمیر پر جو ہمارا مؤقف ہے اُس پر ہم قائم رہیں لیکن یہ جو بارڈر ہم نے بند کیے ہوئے ہیںاور فوجوں کی تعیناتی ہے‘اس سے دونوں ممالک کو کیا حاصل ہو رہا ہے؟ عرصہ دراز تک بارڈر پر فوجوں کی تعیناتی رہنی ہے‘ دونوںممالک کی سوچ اتنی اونچی نہیں کہ اس صورتحال میں جلد کوئی تبدیلی آئے۔تو چلئے اس بات کو ایک طرف رکھتے ہیں۔فوجیں جہاں ہیں‘ وہیں رہیں لیکن بارڈر تو نرم کر دیے جائیں۔ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر پانچ چھ راستے کھلے ہوں جہاں لوگ آ جا سکیں اور جتنی تجارت ہو سکے وہ بھی چلے۔اس سے ہمارا فائدہ اور کشمیریوں کا بھی فائدہ۔ مودی سرکار پاکستان کے کہنے سے ختم نہیں ہوگی۔ جو کچھ بی جے پی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کیا وہ ہمیں اچھا نہیں لگتالیکن جو کچھ ہوا پاکستان اُسے تبدیل نہیں کرسکتا۔ ہمارا جو مؤقف ہے اُس کا اظہار ہمیں کرتے رہنا چاہئے لیکن جہاں تک ممکن ہو ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں کہ لائن آف کنٹرول اور انڈین بارڈر تھوڑے نرم ہو جائیں تاکہ میل جول زیادہ ہوسکے۔
اور تو اور جو بیچارے مسلمان تقسیمِ ہند کی وجہ سے وہاں رہ گئے اُن کی بھی بہتری اسی میں ہے کہ دشمنی کی دیواریں تھوڑی نیچے آئیں اور زیادہ لوگ ادھر اُدھر جا سکیں۔اگر وہاں کے انتہا پسند ہندوؤں کی خواہش ہے کہ ہندوستان میں ایک ہندو مذہبی ریاست قائم ہو تو کم از کم ہمیں اتنا شدید اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہم تو پہلے ہی اپنے ہاں ایک مذہبی ریاست قائم کرچکے ہیں۔اگر ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے تو ہمارا اعتراض نہیں بنتا اگر ہندوانتہا پسند ایک ہندوریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اپنے لیے تو ہم سیکولرازم کو برا سمجھتے ہیں لیکن ہندوستان کیلئے ہم سیکولرازم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کا خاص سٹیٹس‘ جو کہ انڈین آئین کی دفعہ 370میں متعین تھا‘ کو ختم کیا تو ہم نے یہاں شور مچانا شروع کر دیا۔ پاکستان نے کبھی اُس خاص سٹیٹس کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ ہم تو یہی کہتے تھے کہ یہ سپیشل سٹیٹس والی بات ڈھکوسلا ہے اور کشمیر مسئلے کا واحد حل رائے دہی کے حق کا استعمال ہے۔جب آرٹیکل 370کو ختم کیا گیا اور مقبوضہ کشمیر کا آئینی الحاق ہندوستان سے کر دیا گیا تو ہم پاکستانیوں کو پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریریں یاد آنے لگیں کہ کشمیر کے بارے میں پنڈت نہرو نے یہ کہا تھا اور وہ کہا تھا اور مودی سرکار اس سے انحراف کر رہی ہے۔ہماری مفلسیٔ افکار کا جائزہ تو لیا جائے کہ جس نہرو کو ہم نے کبھی اچھا نہیں سمجھا مودی سرکار کے اقدامات کے بعد اُسی نہرو کی تقریروں کا ہم سہارا لے رہے ہیں۔
یہ اسی طرح ہے جیسے اپنی الوداعی تقریر میں قمر جاوید باجوہ صاحب نے 1971ء کی جنگ کے تناظر میں پاکستانی فوج کی بہادری کا ثبوت فیلڈ مارشل سیم مانک شا کے ارشاد میں ڈھونڈا۔مشرقی پاکستان میں فوج کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا کہ فیلڈ مارشل مانک شا نے بھی ہماری فوج کی بہادری کا اعتراف کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ 71ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں ہِلی آپریشن کے حوالے سے فیلڈ مارشل مانک شا نے پاکستانی کمان کو خط لکھا کہ پاکستانی دستوں نے بہت دلیری کا ثبوت دیا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ فیلڈ مارشل مانک شا نے کبھی بھی پاکستانی فوج کے بارے میں برے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ 1965ء کی جنگ کی جو آفیشل انڈین ہسٹری ہے‘ یعنی وہ تاریخ جو انڈین آرمی نے خود مرتب کی‘ اُس میں کئی پاکستانی یونٹوں کی تعریف موجود ہے کہ فلاں فلاں محاذ پر اُن کی کارکردگی اچھی رہی۔البتہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ہم پاکستانیوں نے کبھی کسی انڈین یونٹ کی کسی حوالے سے تعریف کی ہو۔میں نے کہیں یہ نہیں پڑھا کہ کسی پاکستانی نے اعتراف کیا ہو کہ 71ء کی جنگ کے بعد جب ہمارے نوے ہزار فوجی اور سویلین انڈین قید میں گئے تو عمومی طور پر اُن کے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں روا رکھا گیا۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے کہ کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کا اعتراف ہندوستانی افسروں نے کیااوراُنہی ذرائع سے ہمیں اُن کی بہادری کا صحیح پتا چل سکا۔
مسائل جو ہمارے ہیں چلتے رہیں گے۔ جیسے عرض کیا کشمیر کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔سیاچین میں ہماری فوجیں خواہ مخواہ ایک دوسرے کے متحارب کھڑی ہیں۔دونوںممالک کے مؤقف ایک طرف رکھے جائیں اور فوجوں کو پیچھے ہٹایا جائے۔اور ہمارا کیا مسئلہ ہے ؟ہم نے وہاں جنگجو بھیج کے دیکھ لیا‘قتل و غارت ہوئی کشمیر آزاد نہ ہوا۔جنگجویانہ کارروائیوں کی اب مقبوضہ کشمیر میں گنجائش نہیں رہی۔ جتنا جلد ہم یہ سمجھ سکیں اتنا ہمارے لیے بہتر۔ کشمیریوں کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ جنگجویانہ کارروائیوں سے اُن کی زندگیاں بہتر نہیں ہوئیں۔ ہاں‘ مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن اس صورتحال میں بھی نسبتاً بہتری تب آ سکے گی جب میل جول کا سلسلہ تھوڑا آگے بڑھے۔موجودہ پالیسیوں سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔
دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کے تعلقات کشیدہ ہیں‘ لیکن کوئی ایک دوسرے کو دشمن نہیں کہتا۔ہم دو ممالک کا اعزاز ہے کہ ایسا کہتے ہیں۔