مصیبت ٹی ٹی پی نے ڈالی ہوئی ہے‘ سبق عمران خان کو سکھانا ہے۔ معیشت ڈوبی جا رہی ہے لیکن جو مزاحیہ افراد حکومت چلانے کے نام پر بٹھائے گئے ہیں‘ اُنہی سے گزارا کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مرضی کی سیاست کرنی ہے تو انتخابات کا کچھ کرنا پڑے گا۔ یا عمران خان کو نااہل قرار دینا پڑے گا یا الیکشن ملتوی کرنا پڑیں گے۔ الیکشن کرائے گئے توکوئی ضمانت نہیں دے سکے گا کہ پرچیاں کس کو پڑنی ہیں۔ یہ صورت حال عیاں ہے لیکن اپنی ضد پر بھی قائم رہنا ہے۔ اسی مخمصے میں ملک پھنسا ہوا ہے۔ عوام کی مرضی کچھ اور لگتی ہے‘ اصل طاقت جن کے ہاتھوں میں ہے ان کی سوچ مختلف ہے۔
ہمارے ملک میں اعلانات پر بہت زور رہتا ہے۔ رانا ثناء اللہ فرماتے ہیں کہ ضرورت پڑی تو افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر حملہ ہو سکتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی اعلان کرتی ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ یاد پڑتی ہے کہ اسرائیل زیادہ تر کچھ کرنے کا اعلان نہیں کرتا‘ جو کرنا ہو کر لیتا ہے۔ جن کو وہ دہشت گرد سمجھتے ہیں اُن کے پیچھے جانا ہو تو پیچھے جایا جاتا ہے‘ اعلانات پر اکتفا نہیں کیا جاتا۔ یہاں لگتا ہے کہ ذہنوں میں پلان وغیرہ کچھ نہیں‘ بس دانت پیسنے کا عمل جاری ہے۔ پوچھنا بنتا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کس امید پر کیے گئے تھے۔ مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا اور ٹی ٹی پی کے جنگجو اپنے پرانے ٹھکانوں کو لوٹنے لگے۔ اب جو دہشت گردی کی لہر پھر سے پھیل رہی ہے‘ وہ قیادت کی تمام تر توجہ چاہتی ہے۔ لیکن طاقت کے سرچشموں کا دھیان بٹا پڑا ہے۔ بلوچستان میں ایک علیحدہ محاذ سرگرم ہے اور پھر سیاسی معاملات پر بھی توجہ دینی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاسی معاملات عوام پر چھوڑے جائیں‘ جو اصل ذمہ داریاں ہیں ان پر کل وقتی توجہ رہے۔ یہی رجیم چینج کا نتیجہ دیکھ لیا جائے۔ رجیم چینج تو ہوگئی لیکن حالات سنبھالے نہ گئے اور معیشت تو بالکل ہی ڈوبنے لگی۔ ایک یہ ٹیکنو کریٹ والا تجربہ رہ گیا ہے اُسے بھی کرکے دیکھ لیا جائے۔ غالبؔ پھر یاد آرہا ہے‘ کیا خوبصورت مصرع ہے وہ کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ ہماری صورتحال یہی ہے‘ گھوڑا بھاگے جا رہا ہے کوئی سنبھالنے والا نہیں۔ قوم کو تلقین کی جاتی ہے کہ اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے۔ آپ خود بتائیے حضور! جب ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہو تو اتفاقِ رائے کس چیز پر اور کیسے پیدا کیا جائے؟ ہمارے معاشرے میں تو اتفاقِ رائے غریبی اور امیری کے بارے میں نہیں۔ اسلام آباد‘ لاہور اور دیگر بڑے شہروں کے جو امیر علاقے ہیں‘ اُن سے کوئی پتا چلتا ہے کہ یہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے؟ سڑکوں پر جو گاڑیاں نظر آتی ہیں اور جس طریقے سے مہنگے ریستوران ہر شام بھرے رہتے ہیں‘ اس سے تو لگتا ہے کہ ہمارے حالات خاصے اچھے ہیں۔ استطاعت رکھنے والے طبقات پر جو ٹیکس لگنے چاہئیں وہ کوئی نہیں لگاتا۔ خرچے ہمارے زیادہ ہیں قومی آمدن کم۔ ادھار نہ ملے تو بالکل ڈوب جائیں‘ تنخواہوں کیلئے پیسے نہ رہیں لیکن ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی بات کریں تو وہ حلقے جو خود اس کاروبار میں دھنسے پڑے ہیں‘ برا منا جاتے ہیں۔ جہاں بہت کچھ اس ملک میں حساس نوعیت کا ہے‘ ریئل اسٹیٹ سیکٹرکے بارے میں تفصیلی گفتگو بھی حساسیت کے زمرے میں آتی ہے‘ کھلی بات آپ نہیں کر سکتے۔
ہمیں کوئی بتائے تو سہی کہ کرنا کیا ہے۔ 2014-15ء میں جب سابقہ فاٹا میں دہشت گردی سے نمٹا گیا تو قوم ساتھ کھڑی تھی۔ آج جو صورتحال ہے کھل کر بیان نہیں کی جا سکتی کیونکہ کھل کے بات کی جائے تو ڈر رہے گا کہ اعظم سواتی والی دفعات نہ لگ جائیں۔ لیکن کوئی انکار ممکن ہے کہ اس وقت قومی اتحاد کی اشد ضرورت ہے؟ قوم اور ادارے ایک ساتھ کھڑے ہوں لیکن خود ساختہ سیاسی ترجیحات ہمیں ایسا کرنے سے روکتی ہیں۔ پھر تو پہلے سیاسی ترجیحات درست کی جائیں تاکہ کوئی متفقہ لائحہ عمل مرتب ہو سکے۔ نیا سال نئی امیدوں کے ساتھ آنا چاہئے‘ ہم اپنے ڈپریشن اور کنفیوژن کو گھسیٹ کر نئے سال میں لا رہے ہیں۔
بس آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہم بھٹکے جا رہے ہیں‘ کسی کو کوئی پتا نہیں کس سمت جانا ہے‘ کیا کرنا ہے۔ قیادت جو بٹھائی گئی ہے‘ اُس کا وہ معیار ہی نہیں کہ وہ موجودہ صورتحال کا مقابلہ کر سکے۔ جو عرض کیا جا رہا ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ یہ پرانی گھسی پٹی باتیں ہیں لیکن یہی تو المیہ ہے کہ دائروں میں ہم گھوم رہے ہیں‘ آگے کی طرف قدم نہیں بڑھ رہے۔ یہ بات بھی نہیں سمجھ آ رہی کہ کس چیز کا انتظار ہے۔ کیا مکمل تباہی سے پہلے ہم نے ہوش میں نہیں آنا؟ چلیں پھر انتظارہی کرتے ہیں‘ اور چارہ بھی کیا ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ جسے ہم شام کی راحت سمجھتے تھے اس کی چاشنی بھی جاتی دیکھ رہے ہیں۔ موسیقی کا اثر بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ جو قومی حالات بن چکے ہیں اس میں ہارمونیم اور طبلہ نے بھی کیا اثر دکھانا ہے؟ ایک چیز رہ گئی ہے‘ سبز چادر اوڑھ لی جائے اور درگاہوں کے چکر لگانے لگیں۔ نکل جائیں تاریک راہوں پر اور صوفیانہ کلام پر گزارا کریں۔ یہی راستہ رہ گیا ہے۔
کبھی خیال آتا ہے کہ یہ جو ہمارے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں‘ انہوں نے ہماری تاریخ سے کچھ سیکھا نہیں؟ کتنے تجربات اس ملک کے ساتھ ہو چکے ہیں؟ کوئی ایک بھی کامیاب رہا ہے؟ اپنی تاریخ کے واقعات دہرائیں تو وہی پرانا راگ بن جاتا ہے جسے سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ یا تو ہم جمہوریت کا بسترگول کر لیں یا عوام سے رجوع کیا جائے کہ عوام کی مرضی کیا ہے۔ یہی جمہوریت کے معنی ہم سمجھتے ہیں‘ کوئی اور معنی ہے تو بتا دیجئے۔ طاقتور سربراہان ہمارے جو گزر چکے ہیں جمہوریت کی اپنی اپنی تشریح کرتے رہے اور اُن کی دانشوری کے نتائج ہم نے دیکھ لیے۔ مزید دانشوری کی گنجائش اب کوئی باقی ہے؟
عمران خان کی دانشوری بھی دیکھ لیجئے۔ فرماتے ہیں کہ ایکسٹینشن سے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ کے تیور کچھ اور تھے‘ ایکسٹینشن کے بعد بدلنے لگے۔ سوال تو حضور سے پوچھنا بنتا ہے کہ ایکسٹینشن کی عنایت آپ نے کس شوق یا مجبوری کے تحت کی۔ تین سال کی مدت گزر جائے تو کافی نہیں؟ قاعدے قانون میں یہی لکھا ہوا ہے لیکن کبھی ایکسٹینشن کیانی صاحب کو دی جا رہی ہے کبھی باجوہ صاحب کو۔ ایک بات کا اعتراف کرنا پڑے گا‘ سب سے زیادہ آرمی چیف کی تقرریاں نواز شریف نے کیں اور اُنہوں نے کسی شخص کو ایکسٹینشن نہیں دی۔ ہم یہی توقع عمران خان سے کررہے تھے کہ ایکسٹینشن بالکل نہیں دی جائے گی لیکن اُنہوں نے دے دی اور اب پچھتا رہے ہیں۔ اُنہوں نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل باجوہ نے مجھ سے پوچھا آپ پلے بوائے ہیں اور میں نے کہا‘ ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا‘ اب نہیں۔ ملاحظہ تو ہو منتخب وزیراعظم ہیں اور اُن سے یہ پوچھا جا رہا ہے۔ ایسا سوال ذوالفقار علی بھٹو سے کوئی کر سکتا تھا؟
بہرحال جو ہونا تھا ہو گیا‘ اب آگے کو دیکھنا چاہیے۔ طاقتوروں سے التماس ہے کہ کسی کے دوبارہ آنے کے حوالے سے جو وسوسے ہیں وہ دل سے نکالیں۔ عوام کو اپنی رائے دینے دیں‘ پھر ہی ہم آگے کی طرف جا سکتے ہیں۔ عوام کی جو بھی رائے ہو اُسے تسلیم کیا جائے اور جو سکیورٹی کے معاملات ہیں اُن پر ہمہ وقت توجہ دی جائے۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے حالات اچھے نہیں‘ جو شہادتیں ہو رہی ہیں‘ بہت زیادہ ہیں۔ مقبول لیڈر ہونے کے ناتے عمران خان کو بھی سوچنا چاہیے کہ اُن سے کون سی غلطیاں ہوئیں تاکہ آئندہ ایسی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔