کیا کیا کہانیاں ہمیں سنائی جا رہی تھیں۔ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی‘ چودھری پرویز الٰہی ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ یہ پروپیگنڈا بھی پورے زوروں پر تھا کہ چودھری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے۔ آصف علی زرداری کھیل اُلٹ کر دیں گے۔ چودھری شجاعت حسین نوید سنا رہے تھے کہ پنجاب اسمبلی ہر حالت میں قائم رہے گی۔ جتنی زبانیں اُتنے خیالی پلاؤ۔
اب سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ رانا ثنا اللہ اور مرحوم صدر رفیق تارڑ کے ہونہار پوتے عطا تارڑ پنجاب اسمبلی کی مہمانوں کی گیلری میں ایسے گھورے جا رہے تھے جیسے وہ نظر ڈالیں گے اور پنجاب اسمبلی کے ممبران گھائل ہوتے جائیں گے۔ لیکن جوں جوں رات گزری چہرے لٹکنے لگے کیونکہ پتا چل گیا تھا کہ کھیل ہاتھ سے جا چکا ہے۔ کھیل نے ہاتھ سے جانا کیا تھا‘ نون لیگیوں کے ہاتھوں میں کھیل آیا کب تھا۔ سب کچھ زبانی جمع خرچ تھا۔ پشیمانی اب اتنی ہے کہ چھپائی نہیں جا رہی کیونکہ بات اب پنجاب اسمبلی سے آگے جا چکی ہے۔ انتخابات کی راہ میں کتنی دیر بند باندھنے کی کوشش جاری رہے گی؟ پنجاب اسمبلی کی تحلیل ان سے رُک نہ سکی۔ کیا انتخابات کی راہ روک سکیں گے؟
یہ بھی دیکھیے کہ نیوٹرل ہونے کے دعوے تو بہت کیے گئے لیکن چودھری پرویز الٰہی کو بات سمجھانے کی خاطر دو بار راولپنڈی بلایا گیا اور یار دوستوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ بھی کبھی ہو سکتا ہے کہ اشارہ راولپنڈی سے آئے اور گجرات کے چودھری اشارے کا مفہوم نہ سمجھ سکیں؟ لیکن نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے اور چودھری پرویز الٰہی نے اپنی طویل سیاست کا ایک نیا باب شروع کیا ہے جس میں بڑا ہاتھ ان کے بیٹے مونس الٰہی کا ہے۔ سیانوں کا کمال دیکھیے کہ چودھری پرویز الٰہی کی فیملی کو نو فلائی لسٹ پر ڈال دیا گیا اور مونس الٰہی کے ایک قریبی دوست کو اٹھا لیا گیا اور جیسے کہا جا رہا ہے‘ دورانِ غیرقانونی حراست اُن پر زیادتی بھی کی گئی۔ کون سمجھائے ہمارے عقلمندوں کو کہ ایسے حربوں کا وقت جا چکا ہے۔ جو ترکیبیں پہلے بارآور ثابت ہوتی تھیں اب بیکار ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاسی ماحول بدل چکا ہے‘ حالات بدل چکے ہیں۔ پچھلے مہینوں میں جس انداز سے ہمارے پردھانوں اور عقلمندوں کو للکارا گیا‘ جو باتیں اُنہیں کہی گئیں‘ پہلے کبھی ایسا ہوا تھا؟ اور یہ جو چودھری پرویز الٰہی نے سٹینڈ لیا ہے‘ یہ تیسری بار ہے کہ عقلمندوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔
پہلا موقع وہ تھا جب پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ ہمارے کئی پردھان جو کہانیاں اندرونِ خانہ سن کے آتے وہی بڑے یقین سے ٹی وی سکرین پر آکر اُگلتے رہتے۔ ضمنی انتخابات کے بارے میں تو یہاں تک کہا گیا کہ بارہ سیٹیں تو نون لیگ نے لینی ہی ہیں‘ گنتی اس کے بعد کی شروع کریں۔ شام کو جب نتائج آنا شروع ہوئے تو ان پردھانوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ منہ کہاں چھپائیں۔ پشیمانی کا دوسرا معرکہ تب درپیش ہوا جب قومی اسمبلی کے آٹھ‘ نو حلقوں میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے اور تمام حلقوں میں عمران خان کھڑا ہوا۔ وہ میدان بھی خان نے مارا اور اگلے تکتے رہے۔ اب یہ تیسرا پشیمانی کا موقع ہے۔ کتنے حربے استعمال کیے پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے روکنے کے لیے‘ تمام ناکام ہوئے اور اب تو خیبر پختونخوا اسمبلی بھی تحلیل ہو رہی ہے۔ کہاں بھاگیں گے‘ کہاں چھپیں گے؟ ہونا وہی تھا جو ہو گیا ہے لیکن اگلوں نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ پیازوں کا ذائقہ چکھنا ہے اور چھترو ل کے مزے بھی۔
کوئی بتائے تو سہی کہ جن کو تماشا لگانے اسلام آباد میں بٹھایا گیا ہے اُن کے پلے کچھ رہ گیا ہے؟اور جو سارے ڈرامے کے اصل محرک ہیں اُن کے پلے بھی کچھ رہ گیا ہے؟بات کامن سینس کی ہے لیکن کامن سینس نامی چیز یہاں سے مکمل غائب ہو چکی ہے۔دیکھنا تو چاہئے تھا تیل کو اور تیل کی دھار کو۔ یعنی ڈرامہ رچانے والے ایک طر ف کھڑے ہیں اور عوا م کی واضح اکثریت دوسری طرف ہے۔مستقبل میں کیا ہوتا ہے‘ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پاکستان کا کیا بنتا ہے‘ یہ آگے کی باتیں ہیں۔فی الحال تو سند یافتہ بیوقوف بھی سمجھ چکے ہیں کہ عوام کہاں کھڑے ہیں اور عوام کیا چاہتے ہیں۔ الیکشن ہوں گے تو ایک ہی بگل بجے گا‘ طبلے کی تھاپ ایک ہی قسم کی ہوگی۔یہ ان کی خام خیالی ہے کہ جو ہونے والا ہے وہ روکا جاسکتا ہے۔لیکن لگے ہوئے ہیں کہ کوئی حربہ کام آئے۔ جب چودھری پرویز الٰہی جیسے آدمی نے آپ کی بات نہیں مانی تو اس سے آپ کو کوئی عندیہ نہیں ملتاکہ حالات یکسر بدل چکے ہیں اور حالات جو بھی ہوں کم از کم آپ کے ہاتھ میں نہیں رہے۔
جو خوبصورت بات ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی نے کوئی پیشگی شرط نہیں رکھی‘ جو کیا ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور بغیر تامل کے کیا۔میڈیا میں کیا آرہا تھا کہ ق لیگ اتنی سیٹیں مانگ رہی ہے وغیر ہ وغیرہ۔ جس انداز سے یہ سب کچھ ہوا چودھری پرویز الٰہی کا قد کاٹھ‘ جو پہلے بھی کم نہ تھا‘ مزیدبڑھا ہے۔ روایتی سیاستدان کہلائے جاتے تھے‘ اپنا ایک مخصوص انداز تھا جس میں رہ کر سیاست کرتے تھے۔ اب جو ہوا ہے اُس سے وہ پرانا انداز تبدیل ہو گیا ہے۔کمزوری دکھاتے یا بے جا مصلحت کا شکار ہوتے تو وہی پرانی سیاست رہنی تھی لیکن وہ ثابت قدم رہے اور اس انداز سے کہ پرانے طعنے‘ جو ان کی سیاست کو دیے جاتے تھے‘ اب نہ دیے جا سکیں گے۔
جہاں تک عقلمندوںکا سوال ہے اُنہوں نے نہیں بدلنا۔ دیکھئے کیسا کھیل کراچی میں جا ری ہے۔ایم کیوایم کے دھڑوں کو پھر سے اکٹھا کیاجا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی شاید قسمت ہی یہ ہے کہ عقلمندوں نے اُسے استعمال کرنا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب اس جماعت کی داغ بیل ڈالی گئی تو اس مشق کا مقصد پیپلزپارٹی کا مقابلہ تھا۔ پیپلز پارٹی کا زور سندھ کے دیہی علاقوں میں تھا اور ایم کیو ایم کا وجود شہروں میں تھا۔ یعنی پی پی پی کو زچ پہنچانے کیلئے کراچی اور حیدرآباد کو سندھ کے دیہی علاقوں کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ا ب ایم کیو ایم کو اکٹھاکرنے کا مقصد یہ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کوپی ٹی آئی کے خلاف استعمال کیا جائے۔ہمارے سیاسی انجینئروں کی کوئی ترکیب کامیاب نہیں ہوئی۔ملک کی جو حالت ہو چکی ہے اس میں سیاسی انجینئرنگ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتنی ناکامیوں کے بعد کچھ سبق سیکھا جاتا اور ان حربوں سے حربہ سوچنے والے باز آ جاتے۔لیکن پرانی عادات اتنی جلدی کہاں بدلتی ہیں۔
وہ کیا اصطلاح ہے‘ نوشتۂ دیوار؛ یعنی جو دیوار پہ لکھا ہوا ہے صاف واضح ہے۔ انتخابات سے کوئی راہِ فرار نہیں۔ کرانے ہی پڑیں گے۔ اور متبادل بھی کیا ہے ؟ کتنے شوشے چھوڑے گئے‘ کبھی یہ کہ عمران خان نااہل ہو جائے گا‘ کبھی توشہ خانہ کبھی کچھ اور۔کسی کی ذات سے یہ بات آگے نکل چکی ہے کیونکہ قوم کی بھاری اکثریت ایک طرف کھڑی ہے اوراُس کی پکار بھی ایک ہے۔قوم کی آواز کو کیسے دبایا جاسکتا ہے ؟کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی تو ملک کے حالات اتنے نہ بگڑتے لیکن جو کچھ ان آٹھ ماہ میں ہوا ہے اس کی نظیر ہماری طوفانوں سے بھری تاریخ میں نہیں ملتی۔
جو کچھ ہوا ناگہانی ہوا۔ کس کو خبر تھی کہ آپ نے یہ سب کرنا ہے۔ اور پھر جب آپ نے یہ کارنامہ کردیا کس کو پیشگی خبر تھی کہ نتائج ملک کی تباہی کی شکل میں ابھریں گے؟سیاست کو اپنا رخ متعین کرنے دیں۔آ پ کی راہ نمائی بہت ہو چکی اور اس کے نتائج بھی قوم نے دیکھ لیے۔