ہمارا بحران محض معاشی نہیں فکری بھی ہے۔عقل یا کامن سینس سے ہم رجوع کریں تو شاید ہمیں معلوم ہو جائے کہ اس گھڑی ہمیں کرنا کیا چاہئے۔لیکن یوں لگتا ہے کہ ہم نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ عقل پر مبنی کوئی بات ہم نے تسلیم نہیں کرنی۔اس لیے کسی حل کی طرف جانے کے بجائے روزبروز ہمارا معاشی اور فکری بحران بڑھتا ہی جا رہاہے۔
ایک لحاظ سے یہ اچھی بات ہے کہ اس قسم کا بحران اپنی انتہا کو پہنچے تب ہی اگلا قدم لیا جاسکتا ہے۔مارکسسٹ تھیوری میں تضادات تب ہی حل ہوتے ہیں جب وہ انتہا کو پہنچ جائیں۔لگتا ہے ہم مارکسسٹ تھیوری پر ہی عمل کررہے ہیں کیونکہ سب لگے ہوئے ہیں موجودہ بحران کی سنگینی کو بڑھانے میں۔عوام تنگ ہیں حالات سے بیزار ہیں لیکن چیخ نہیں رہے اور سڑکوں پر نہیں آ رہے۔ حالات کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ نادانستہ طور پر ہماری کوشش ہے کہ عوام اتنے تنگ ہوں کہ چیخ پڑیں۔بقول چیئرمین ماؤ حالات کا خراب ہونا اچھی چیز ہے کیونکہ خرابی سے ہی کسی بہتری کی طرف جایاجاسکتا ہے۔چیئرمین ماؤ کی اس سوچ کا خوبصورت اظہار اُن کے مشہور قول میں ہے کہ آسمانوں کے نیچے بہت افراتفری ہے اور یہ صورتحال بہترین ہے۔
آٹھ ماہ پہلے ایسی باتیں نہیں ہو رہی تھیں۔ جیسا بھی تھا کام چل رہا تھا۔ معاشی حالات مثالی نہ تھے لیکن اتنے خراب بھی نہ تھے۔پھراچانک اب تک نامعلوم وجوہات کی بنا پر ملکی نظام کو ایسا جھٹکا دیا گیا کہ افراتفری کے تمام دروازے کھول دیے گئے۔جھٹکا دینے والوں کو نہیں معلوم تھا کہ ایسا ہوگا۔وہ سمجھ رہے تھے کہ جو بھی ناٹک رچایا جائے حالات قابو میں رہیں گے۔ یہی اُن کی بھول تھی۔حالات نے قابو میں کیا رہنا تھا اب کھلی آنکھوں سے پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ حالات تو بالکل ہی بے قابو ہو گئے ہیں۔پاکستان کی ناؤ کو بپھرے پانیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔یہ ارادہ بھی نہیں ہے کہ ناؤ کو سنبھالنا ہے۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طغیانی بہت زیادہ اور خطرناک ہے لیکن ناؤ کو بظاہر سنبھالا دینے والے لوگ بہت چھوٹے ہیں۔
جناب اسحاق ڈار نے اس لیے ٹھیک ہی کہا کہ اس ملک کو اللہ نے بنایا ہے اور وہیں سے کوئی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔دیکھا جائے تو اُن کے اس بیان سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اُنہوں نے تو اپنے ہاتھ اوپر کو کر دیے ہیں کہ ملک کو سنبھالا دینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ایک نیا شوشا بھی چھوڑا جا رہا ہے کہ مخیر غیر ملکی پاکستانی اپنے ملک کو کچھ خیرات دیں۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تب معاشی حالت اتنی نازک نہ تھی لیکن خزانہ تقریباً خالی تھا۔روایت ہے کہ سیٹھ عابد‘جن کی مشہوری سونے کے کاروبار سے جڑی ہوئی تھی‘ نے ریاستِ پاکستان کو کچھ قرضہ فراہم کیا۔آج بھی شاید توقع ہو کہ کوئی نیا سیٹھ عابد نمودار ہواور ریاستِ پاکستان کو کچھ مدد فراہم کرسکے۔آئی ایم ایف کا آخری دروازہ ہے جس پر ہم دستک دے رہے ہیں اور آئی ایم ایف کا رویہ ایسا ہے کہ اُس میں تھوڑی سی نرمی بھی نہیں آرہی۔راستہ تو ایک ہی ہے کہ الیکشن کرائیں تاکہ عوام کی حمایت سے ایک مضبوط حکومت معرض وجود میں آ سکے اور جن نوٹنکیوں کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے اُن سے جان چھوٹے۔لیکن جو فیصلہ کرتے ہیں اور جن کے ہاتھ میں اصل اقتدار ہے‘ وہ اس بات پر راضی نہیں۔وسوسے ہیں‘ ڈر ہے‘ کہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ اس رویے سے ہرگزرتے لمحے صورتِ حال زیادہ سنگین ہو تی جا رہی ہے۔لیکن بظاہر تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ کسی کو کوئی پروا نہیں۔غیرملکی پاکستانیوں سے خیرات مانگنے تک بات پہنچ چکی ہے۔شاید معجزوں کی بھی توقع ہو۔آئی ایم ایف کے پاس پھر کیا جانا‘ کسی خانقاہ کا رخ کرنا چاہئے۔
Escapism کا مطلب ہے؛ حالات سے فرار اختیار کرنا۔ ذاتی طور پر میں اسکیپ ازم کا قائل ہوتا جا رہا ہوں کہ حالات تو ٹھیک ہونے نہیں‘ کسی فرضی دنیا میں بسیرا کریں جس میں باہر کی کوئی آواز نہ آئے‘نہ باہر کی کوئی ٹینشن محسوس ہو۔عمر کا بیشتر حصہ کالم لکھتے گزرگیا۔اور کام آتا نہیں تھا یہی کرسکتے تھے۔یہ کام طبیعت کے مطابق تھا اور کچھ خرچہ پانی بھی چل جاتا تھا۔صحیح معنوں میں جستجو کرنے والی کوئی سیاسی پارٹی ہوتی تو اُس کی طرف ہم ضرور جاتے۔لیکن جدوجہد کرنے والی یہاں کون سی پارٹی ہے؟صحیح معنوں میں سیاسی پارٹی کوئی ہے نہیں‘ یہ تو سب خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔آج کے حالات میں لے دے کے تحریکِ انصاف ہی ایک جدوجہد والی پارٹی رہ جاتی ہے۔اور کچھ نہیں تو کم از کم طاقتوروں کو اس جماعت نے للکارا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس جماعت کے ساتھ ہے۔جب اقتدارمیں تھی تو شاید اس جماعت کی وہ کارکردگی نہ تھی جس کی توقع کی جاسکتی تھی۔لیکن اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جماعت اور اس کی قیادت نے ایک زوردار سٹینڈ لیا اور طاقتورو ں کا بھرپور سامنا کیا۔اسی وجہ سے طاقت کے ایوانوں میں بوکھلاہٹ کا سماں محسوس ہوتاہے۔لیکن جو ہیں اس جماعت کے ساتھ وہ ہیں اور اُن کے حوصلے مزید مضبوط ہوں۔لیکن ہم جیسے تو سائیڈلائنوں پر بیٹھے ہیں۔ ہم نے تو کالم لکھنے ہیں یا فضول کے تبصرے کرنے ہیں۔ ملک کے حالات اچھے ہوں تو ہم خوش لیکن جب حالات خراب ہوں اور مزید خراب ہوتے جا رہے ہوں توذہن میں ایسے حوصلہ پست کرنے والے خیالات ابھرتے ہیں کہ ہم تو کوئی بڑے نالائق لوگ ہیںجن سے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہوتا۔
پچھترسالہ تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ملک تو ہمیں مل گیا لیکن اسے چلانے کی صلاحیت ہم میں نہ آئی۔کام تو تھا ملک کو بنانا لیکن ہم نظریات گھڑتے رہے یا بیرونی طاقتوں کے گماشتے بنے رہے۔ جن قوموں کو ہم سے بعد آزادی ملی وہ کہیں کی کہیں پہنچ گئیں اور ہم پرانے اور فرسودہ جذبات کے چنگل سے اپنے آپ کو آزاد نہ کر سکے۔
اپنے میں کمزوریاں بھی ہوں تب بھی اپنے وجود پر کچھ فخر اور ناز ہوتا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جنہیں ہم پڑھے لکھے کہہ سکتے ہیں اُن میں سے بہت حالات سے لاتعلق ہو رہے ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اُن کی امیدیں ختم ہو تی جا رہی ہیں۔انگریزی کا لفظ ہے despair،یہ کیفیت تب طاری ہوتی ہے جب کوئی امید نہ رہے۔ پوری قوم پر تو شاید یہ بیان فِٹ نہ بیٹھے لیکن میرا تاثر ہے کہ پڑھے لکھے اور مڈل طبقات کے لوگ ڈِسپیئر کا شکار ہو رہے ہیں۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پڑھے لکھوں کو کو ئی موقع ملے تو یہاں رہنے کے بجائے باہر کسی ملک جانے کوترجیح دیں گے۔بہت سے پروفیشنل لوگ ہیں جو یا تو باہر ہیں یا باہر جانا چاہتے ہیں۔
حیرانی کی بات البتہ یہ ہے کہ آج کی صورتحال پچھتر سال کی حماقتوں کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ پچھلے آٹھ ماہ کے تجربات کا شاخسانہ ہے۔یعنی یوں سمجھئے کہ یہ آٹھ مہینے پچھتر سالہ تاریخ پر بھاری گزرے ہیں۔لیکن کوئی جوابدہ نہیں۔جو اِس ناٹک کے ذمہ دار ہیں اُن سے کبھی نہیں پوچھا جائے گا کہ جینئس تو آپ تھے ہی‘ ہم کون ہیں جو اِس چیز کا انکار کر سکیں‘ البتہ آپ نے جو کیا جس کے نتائج قوم کو بھگتنے پڑ رہے ہیں اُس نے تو تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ لیکن ہمارے مہرباں بھی ایسے ہیں کہ انہیں سمجھائے کون۔ یہی شاید مخمصہ ہے کہ باتیں کرنے والے کچھ کرنے سے قاصر ہیں اور جوکچھ کرسکتے ہیں اُن سے بات ہو نہیں سکتی۔