موجودہ حالات میں بہت سے مہربان سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں حالات کا صحیح تجزیہ کریں اور محض باتوں تک نہ رہیں‘ کوئی حل بھی تجویز کریں۔سنجیدگی کا دوسرا نام بوریت ہے ۔ ہم جیسے کب کے تجزیے کررہے ہیں ۔ہمارے تجزیوں سے کوئی فرق پڑا؟اپنی دانست اور عقل کے مطابق حل بھی تجویز کرتے رہے ۔ پر یہ بیکار کی باتیں ہوتی ہیں ‘ مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگ اپنی کرتے ہیں‘ خواہ مخواہ کی باتوں کیلئے اُن کے پاس وقت نہیں ہوتا۔
ویسے بھی تجزیے تو ہر طرف سے ہو رہے ہیں ‘ ان سے آٹے دال یا پٹرول کی قیمتیں نیچے نہیں آئیں۔ویسے بھی ایسی باتوں سے تنگ آ چکے ہیں‘ حالات ویسے ہی ہیں اور تبدیلی صرف اتنی ہے کہ حالات میں ابتری آرہی ہے ۔جب حالات وہی ہیں تو تجزیے کیا مختلف ہوسکتے ہیں؟ تجزیے بھی پھر وہی ہوں گے اور جو پڑھتے ہوں گے اُن کا جی چاہتا ہوگا کہ ساتھ پڑا جوتا اٹھائیں اور کسی جانب دے ماریں۔ہم ہاتھ کھڑے کئے دیتے ہیں‘ ویسے بھی فضا میں بوریت بہت ہے‘ ہم اس میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے۔اخبارات کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی تحریر پسند نہ آئے تو نظریں اگلی تحریر پر چلی جاتی ہیں۔یعنی آپ کی مرضی کہ کیا پڑھیں اور کس تحریر کو چھوڑ دیں‘ یا بہت ہی اُکتا گئے تو اخبارکو ردی کے ٹوکرے میں پھینک دیں۔
ملک کے حالات ہر ایک کے سامنے ہیں اور ہر طرف مہنگائی کے مارے لوگ رونے دھونے میں مصروف ہیں۔ ہم تو اپنے حالات بیان کرسکتے ہیں اور ان کے بارے میں یہی کہیں گے کہ پروردگار صرف نیک لوگوں کا پروردگار نہیں ہم گناہگاروں کا بھی ہے۔ یہ دیکھ لیجئے پچھلے دنوں ادرک اور پیازوں کی ایل سیاں نہیں کھل رہی تھیں کیونکہ زرمبادلہ کم تھا اورسٹیٹ بینک نے ایل سیوں کا اجرا روکا ہوا تھا‘ جس کے نتیجے میں کراچی بندرگاہ پرکنٹینروں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو رہاتھا۔ لیکن جو ہم جیسے گناہگاروں کی خاص چیزیں ہیں وہ کسی سٹیٹ بینک کی اجازت یا ایل سیوں کی محتاج نہیں۔جن دھندوں پر ہمارا انحصار ہوتا ہے وہ تو سارے کے سارے بینکنگ چینلوں سے باہر ہوتے ہیں۔جو حضرات ان دھندوں کو چلاتے ہیں ڈالر وں کی تلاش خود کرتے ہیں‘نہ اُن کا واسطہ بینکوں سے‘ نہ کسٹم کے ادارے سے۔ایسے دھندوں کی ایک اپنی زندگی ہوتی ہے ‘ اسی لئے جبکہ پیاز وغیرہ کے کنٹینرکراچی بندرگارہ میں پھنسے ہوئے تھے ان اشیاکی ترسیل پر کوئی فرق نہ آ رہا تھا۔
ہم تو خوش نصیب اس لحاظ سے ٹھہرے کہ جوصاحب ہمیں اب لاہور میں میسر ہیں ہرپہلو سے اُن کا کام احسن اور صحیح ہے۔ بس آستانے پر جانے کی دیر ہوتی ہے‘ وہاں گئے تو من کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔کارڈینل ریشلیو (Cardinal Rachelieu) پندرہویں صدی میں فرانس کے یوں کہئے وزیراعظم تھے۔بہت عظیم مدبر سمجھے جاتے ہیں ۔تھے تو پادری لیکن زندگی جینے کا ڈھنگ جانتے تھے۔اُن کا ایک مشہور قول ہے کہ مذاہب جن چیزوں کو ممنوع قرار دیتے ہیں وہ اتنی بری ہوتیں تو پروردگار اُن کے پیدا ہونے کی اجازت نہ دیتا۔روحانیت کی دکان میں بھی ایسی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ کن ہاتھوں سے ان چیزوں کی تخلیق ہوئی۔
بہرحال بات تو ہم اپنے نئے پیرصاحب کی کررہے تھے‘ عقیدت اوراحترام سے ان کے معتقد پیرلَبھا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔فیض ان کے آستانے سے اتنا کہ ہماری زندگی بدل گئی ہے۔کبھی ضرورت میں نہیں رہتے کیونکہ آستانے کا روحانی کام جاری رہتا ہے۔ہماری قوم بھی کیسی ہے ‘ کبھی مفتاح اسماعیل کا نام لیتی ہے کبھی اسحاق ڈار وں کو ولی سمجھ بیٹھتی ہے اور ان سے معجزوں کی توقع کرتی ہے۔پیر ہو توپیر ِ کامل ہو۔آستانہ ایسا ہو کہ فیض کی نہریں وہاں سے پھوٹیں۔ دن جیسے بھی گزریں شاموں کو تو کچھ راحت نصیب ہو ۔ویسے بھی یہاں کیا پڑا ہے ؟شامیں یہاں بھاری گزرتی ہیں ۔جانے کو کوئی جگہ نہیں ملتی‘ بس گھروں میں بیٹھ جائیں اور سامنے پڑے ٹی وی کو آن کر لیں اور پھر واہیات قسم کے ٹاک شو سنتے رہیں۔یہ بھی کوئی شامیں گزارنے کا اسلوب ہے؟خوش قسمت ہوئے تو کسی دوست کے گھر چلے گئے وہاں پردوں کے پیچھے محفل سج گئی ۔ ایسی محفلوں میں سخن کا موضوع کیا ہوتا ہے ؟وہی سیاست اور معیشت کے حوالے سے گھسی پٹی باتیں۔ ایک مہربان ہیں ہمارے‘ بھلا ہو اُن کا اور اللہ اُن کی عمر دراز کرے‘ کبھی کبھی اپنے ڈیفنس کے آستانے میں ثقافت کے حوالے سے کوئی تقریب منعقد کر دیتے ہیں۔ٹی وی شو ہمارا شام نو بجے ختم ہوتا ہے ‘ ڈیفنس میں جاتے جاتے آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ثقافت کی خدمت ہو جاتی ہے۔ ایک دو ہونہار لوگ آئے ہوتے ہیں ‘ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اُس وقت کیلئے اپنے سفید بال بھول جاتے ہیں اور گمان ہوتا ہے کہ ایامِ جوانی میں لوٹ آئے ہیں۔کم از کم اتنی سہولت تو ہمارے لئے ہو جاتی ہے لیکن کیا اچھا ہوتا کہ لاہور کے پرانے دن واپس آ جاتے اور شاموں کا وقت گزری ہوئی شاموں کی طرح ہم گزارتے ۔ کوئی مال روڈ یا آس پاس پرانے وقتوں کی طرح مہمان خانے ہوتے ‘ وہاں جاکر کچھ وقت گزر جاتا۔ہماری تو چھوڑیئے ہم نے تو اپنا ٹائم گزار لیا‘ ہمارے معاشرے میں کچھ عقل آ جائے تو شاید ملک کا بھلا ہو جائے۔باہر سے لوگ زیادہ آنے لگیں ‘ ہندوستان سے مہمانوں کا آناجانا معمول بن جائے‘ باہر کے ٹوریسٹ آئیں‘ یہاں کچھ پیسہ خرچیں‘ شہروں کے کاروبار میں اضافہ ہو‘ بھیک مانگنے کے بجائے کچھ ویسے ڈالر آجائیں۔ لیکن عقل کی بات یہاں ہونی نہیں‘ وہ تو ہم نے قسم کھائی ہوئی ہے ۔پھر رونا کاہے کا ؟ پھر یہاں یہی ہونا ہے جو ہو رہا ہے ۔
ایسی باتیں کرتے کرتے ہم تھک چکے ہیں ۔ ہم سمجھے تھے کہ ایسی باتوں کی ضمن میں اوروں نے تو کچھ کیا نہیں کیونکہ اُن میں اتنی ہمت نہ تھی ‘ لیکن عمران خان باہمت انسان ہیں اور وہ کرگزریں گے جو اوروں سے نہ ہوسکی۔لیکن اُنہیں تسبیح ہلانے سے فرصت نہ ملی۔ ایک دفعہ تو شرفِ ملاقات بخشی گئی تو اُن کے منہ پر کہہ ڈالا کہ ہمارے لیے کچھ آسانیاں پیدا کریں۔مزے کی بات یہ ہے کہ انکار کے بجائے اثبات میں جواب دیا لیکن ہوا کچھ نہیں۔حضورِ والا (یہ ہم فیصلہ سازوں سے مخاطب ہیں)‘حالات خراب ہیں ‘ بچہ بچہ اب یہ جان چکا ہے ۔ بہت کچھ کرنا آپ کے بس میں نہیں۔بڑے فیصلوں کو رہنے دیں لیکن جو چھوٹے فیصلے لئے جاسکتے ہیں اُنہیں تو کردکھائیں۔ایک تو معاشی حالت ابتر اوپر سے معاشرے میں مختلف اور فضول پابندیوں کی وجہ سے گھٹن ۔ہمارے کارناموں پر پروردگار بھی حیران ہوگاکہ کیسی قوم ہے۔ آخرساری قومیں اللہ کی قومیں ہیں۔ انسان کے عظیم تخلیقی شاہکاروں سے کیا آسمان خوش نہ ہوتے ہوں گے؟بیتھو فن (Beethoven) کی کوئی سمفنی بجے یا بڑے غلام علی خان کے کسی گانے کی آواز اٹھے تو کیا اوپر کی فضاؤں میں مسرت کی لہر نہ اٹھتی ہوگی؟ اسی پیمانے سے کوئی جاہل قوم ہو تواُسے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جائے گا؟
پر ہم نے کہاں سدھرنا ہے ‘ کڑھتے رہیں گے ‘ کچھ کریں گے نہیں۔بہرحال انسان کو بہتری کی تلاش کرتے رہنا چاہئے۔باہرآسودگی نہ ملے اپنی آسودگی پیدا کریں ۔ ماحول میں جہالت ہے تو یہ لازم نہیں کہ اپنے اوپر بھی جہالت طاری کرلی جائے۔ایک بات اور سوچنے کی ہے‘ جو ملک اپنے حالات سنبھالنے سے قاصر ہو ‘کیا اُس ملک کی گھٹن پیدا کرنے والی پابندیاں درست ہوسکتی ہیں؟قوم ایسی کہ معاشی طور پر اپنے آپ کو دیوالیہ پن کے قریب لا چکی ہے۔ کیا ایسی قوم کی پاکیزگی کے دعوے اور نام نہاد نیکی کی کاوشیں درست ہوسکتی ہیں؟