کیا اجتماعی طور پر ہم عقل سے فارغ ہوتے جا رہے ہیں ؟ گمان تو یہی ہوتا ہے کیونکہ اربابِ اختیار‘ جو فیصلہ ساز کہلاتے ہیں لیکن فیصلے کی صلاحیت سے محروم لگتے ہیں‘ کی سمجھ میں کچھ بات نہیں آ رہی۔فوجی مقولہ ہے کہ ناکامی کو کمک نہیں دینی چاہئے لیکن یہاں تو یہ لگتا ہے کہ ناکامی پر ناکامی کی ضد دلوں میں بیٹھ گئی ہے۔ایک پرابلم ہو تو ہم کہیں‘ لیکن جس سطح یا محاذ پہ دیکھو پرابلم ہی پرابلم ہیں۔ سکیورٹی صورتحال خراب‘ معاشی صورتحال ابتر اور سیاسی صورتحال میں عقل کا مکمل فقدان۔کوئی بتائے تو سہی کہ اربابِ اختیار کیا کرنا چاہتے ہیں‘ کیا کرنے جا رہے ہیں؟
آپ کے پاس کوئی نسخہ ہے تو قوم کو اعتماد میں لیجئے۔ آپشنز دو ہی ہیں‘ آئین سے روگردانی یا انتخابات۔ تیسرا آپشن نہیں ہے۔ہمارے کرتے دھرتے یہ بات کیوں نہیں سمجھ رہے؟ پچھلے سال اپریل میں جو رجیم تبدیلی ہوئی وہ تو اب آشکار ہے کہ ایک بلنڈر تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو سوچا آنے والے حالات نے اُس کو غلط ثابت کردیا۔ ٹھیک ہے بلنڈر ہو گیا لیکن اُس سے نکلنے کی کوشش تو کی جائے۔یہاں ایسے لگتا ہے کہ ذہنوں پر تالے لگ چکے ہیں اور ذہنوں کے بیچ میں یہ سوچ بیٹھی ہوئی ہے کہ انتخابات نہیں کرانے۔وجہ اب بچے بچے کو پتا ہے کہ انتخابات سے ڈر اس لئے ہے کہ عوام کا موڈ بپھرا ہوا ہے اور خدشہ دلوں میں گھر کرچکا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے عمران خان ہرچیز کو روند کے رکھ دے گا۔ بتائیے پھر اگر انتخابات نہیں کرانے تو کیا کرنا ہے؟آگے ان بیچاروں کے ٹولے کو بٹھا دیا گیا ہے جو نہ کچھ سوچ رکھتے ہیں نہ کچھ کرنے کی صلاحیت۔جب ایک گاڑی نے چلنا ہی نہیں اُسے دھکے مارنے کا فائدہ کیا؟
کچھ روزپہلے لاہور لٹریری فیسٹیول میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں ایک بک سٹال سے قدرت اللہ شہاب کی تصنیف 'شہاب نامہ‘ اٹھا لی۔ کتاب کے کچھ اقتباسات تو آنکھوں سے گزرتے رہے ہیں لیکن پوری کتاب کو نہ پڑھا۔بڑی دلچسپ کتاب ہے اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ پڑھ کر کئی اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنے ماضی یا تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔جیسے آج کے صاحبِ اختیار انتخابات سے ڈر رہے ہیں صدر میجر جنرل اسکندر مرزا کے دل میں بھی انتخابات کا ڈر تھا۔پہلے عام انتخابات 1957ء میں ہونے تھے‘ حیلے بہانوں سے تاریخ کو ایک سال آگے کیا گیااور پھر مزید بہانوں کا سہارا لے کر الیکشن کی تاریخ فروری 1959ء کی طے ہوئی۔لیکن صدر مرزا کے دل میں ڈر بدستور قائم تھا کہ انتخابات ہوئے تو صدارت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ کمانڈر اِن چیف پاک فوج جنرل ایوب خان سے ساز باز کرکے مارشل لاء صرف اس وجہ سے لگایا گیا کہ آئین جب معطل ہوگا تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اسمبلیاں توڑ دی گئیں‘ آئین کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیااورمارشل لاء کا نفاذ ہو گیا لیکن صدرمرزا یہ نہ بھانپ سکے کہ اُن کی رخصتی بھی ہو جائے گی۔
1971ء میں یہاں کیا ہوا؟ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے انتخابات سویپ کیے تھے۔ اقتدار عوامی لیگ کو ملنا چاہئے تھا لیکن تب کی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ جو بھی ہو اقتدار عوامی لیگ کو نہیں دینا۔ پھرشکست ہوئی‘ ہتھیار پھینکنے پڑے اور ملک ٹوٹ گیا‘ لیکن آخری دم تک تب کی اسٹیبلشمنٹ اپنی کم عقلی اور ہٹ دھرمی پر قائم رہی۔
صورتحال کی سنگینی اور نزاکت کو توسمجھا جائے۔ جو صورتحال ملک میں بن چکی ہے وہ قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ ہم افراتفری کی طرف جا رہے ہیں۔ افراتفری کمزور لفظ ہے‘ اصل میں تو انارکی کہنا چاہئے لیکن اس لفظ کے استعمال سے ڈر لگتا ہے۔ صدرعارف علوی نے پنجاب اور پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ تجویز کرکے احسن قدم اٹھایا ہے۔ہرکوئی ذمہ داری سے بھاگ رہا ہے‘ حیلے بہانوں کے پیچھے چھپ رہا ہے۔ گورنروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں‘ الیکشن کمیشن پتا نہیں کس کی تھاپ پر چل رہا ہے۔عدلیہ تشویش کا اظہار کررہی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہاں بھی سوچ کی تفریق پائی جاتی ہے۔تو مسئلہ کون حل کرے گا؟ حکومتی ہرکارے صدر علوی پر تنقید کے گولے برسا رہے ہیں لیکن ہرکارے بتائیں تو سہی کہ اس صورتِ حال میں کرنا کیا ہے؟
موجودہ حکمران ٹولہ اور اُس کے سرپرست عمران خان کو مسئلہ سمجھ رہے ہیں‘ لیکن وہ غلط ہیں۔ مسئلہ عمران خان کا نہیں مسئلہ پاکستانی عوام کا ہے۔ عوام کی واضح سوچ بن چکی ہے کہ جو کچھ پچھلے دس ماہ میں ہوا وہ ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔اسی وجہ سے عوام کا بیشتر حصہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ عوام عمران خان کے ساتھ نہ ہوتوپھر تو کوئی مسئلہ نہیں‘لیکن جو موقع بھی ہاتھ آ رہا ہے عوام اپنی رائے واضح کررہے ہیں۔دو دن پہلے لاہور ہائیکورٹ میں کیا منظر دیکھے جارہے تھے؟عمران خان پیشی پر آیا اور عوام کا ایک سمندر اُس کے ساتھ تھا۔ علاج پھر کرنا ہے تو عوام کا کیا جائے۔عوام کے خیالات درست کیے جائیں‘ عوام کے دماغوں سے موجودہ سوچ نکالی جائے۔یہی تو نہیں ہو پا رہا اور یہی ہمارے کرتے دھرتوں کا پرابلم ہے۔ حالات اُن کی گرفت میں نہیں۔ اربابِ اختیار کی سوچ مختلف‘ عوام کی کچھ اور۔
ہم جیسے عاجز درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ پاکستان کو تختہ مشق نہ بنایا جائے۔سکیورٹی مسائل بہت گمبھیر ہیں‘ اُن پر توجہ دی جائے۔ سیاسی انجینئرنگ کے شوق سے اجتناب کیا جائے۔بہت ہو چکی یہاں سیاسی انجینئرنگ‘ کتنی اور کرنا چاہتے ہیں؟ لوگ حالات سے مایوس ہوچکے ہیں‘ دلوں میں لاواپک رہا ہے۔ کیا ہم سب اس انتظارمیں ہیں کہ لاوا پک کر پھٹ پڑے ؟
صدر علوی نے جو کیا اچھا کیا لیکن اُن کی ماننی ان افلاطونوں نے نہیں۔ بہرحال جو بھی ہو‘ انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا‘ یہ تو کوئی نہ کہے گا کہ آپ کو یہ کرنا چاہئے تھا اور آپ نے نہ کیا۔لیکن اس سے آگے جانے کی بھی ضرورت ہے اور وہ موجودہ حالات میں صرف ایک ادارہ کر سکتا ہے‘ سپریم کورٹ۔ مصلحتیں ایک طرف رکھی جائیں‘ ڈنکے کی چوٹ پر ہرایک کو بلایا جائے اور حکم صادر کیا جائے کہ الیکشن کی فلاں تاریخ ہوگی اور اُس تاریخ پر الیکشن کرائے جائیں۔ کوئی عذر اور بہانے خاطر میں نہ لائے جائیں۔ جتنی لیت ولعل سے کام لینا تھا الیکشن کمیشن کر چکا‘ پختونخوااور پنجاب کے گورنروں نے بھی جو بہانے تراشنے تھے تراش لیے۔ قوم اور ملک کا مستقبل داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔ کسی کو تو آگے آنا ہوگا‘ کسی کو تو باگ پر ہاتھ رکھنا ہوگا۔ جیسے عرض کیا موجودہ حالات میں وہ صرف سپریم کورٹ ہے۔ باقیوں کی تاویلیں ہیں‘ اُن کے دلوں کا ڈر ہے۔ باقیوں سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے؟
تاریخ معاف نہیں کرے گی‘ یہ تو ایک محاورہ ہے۔ سو سال بعد تاریخ معاف کرے گی یا نہیں‘ ہمارا اُس سے کیا واسطہ۔ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ ناؤ ہماری گہرے اور بپھرے پانیوں میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ ساحل اتنا دور بھی نہیں لیکن ناؤ بہت کمزور ہو چکی ہے۔ عام آدمی بھی دیکھ سکتا ہے کہ قوم کی قسمت کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ بدگمانی اور بے یقینی تو ہے ہی‘ لیکن عوام کے دلوں میں غصہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے کوئی تو ہمت دکھائے۔ مانا کہ سپریم کورٹ کے پاس مشین گنیں اور توپیں نہیں لیکن اخلاقی اختیار تواُس کا بنتا ہے‘ اور اس وقت یہی کافی ہے۔