ہم نے حیران و پریشان کیا ہونا ہے ‘ برے اور اب تو ابتر حالات کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔صورتحال اب یہ آن پہنچی ہے کہ جس دن بری خبر رونما نہ ہو وہ دن ابنارمل لگتا ہے۔ البتہ ہمارے دشمن ضرور پریشانی کے عالم میں مبتلا ہوں گے‘ یہ دیکھ کر کہ پاکستانی اپنے ساتھ کیا کررہے ہیں۔انگریزی کی جو اصطلاح ہےwildest imagination‘ یعنی جب تخیلات بالکل بے قابو ہوجائیں ‘ اُس کیفیت میں بھی پاکستان کے بارے میں دشمن یہ کچھ نہ سوچ سکتے تھے جوہم اپنے ساتھ نہ صرف کررہے ہیں بلکہ کرچکے ہیں۔اس لحاظ سے تو ہم نے دشمنوں کو تقریباً ناکارہ بنا دیا ہے کیونکہ ان کا کام بحیثیت مجموعی ہم خود کررہے ہیں۔دشمن ہمارے خلاف اکادُکا واردات کرتے ہوں گے ‘ لیکن یہ جو وسیع پیمانے پر تخریب کاری ہم خود اپنے خلاف کررہے ہیں یہ دشمن کے بس کی بات نہیں۔
ہمارے افغان مہربان جن کو ہم نے چالیس سال کے لگ بھگ اپنے سرپر بٹھائے رکھا اُن کے حوصلے اتنے بلند کیوں ہو گئے ہیں؟بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت اپنے موجودہ حال پہ آن پہنچی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) ہمارے افغان مہربانوں کی بغل بچہ تنظیم ہے۔ ایک سال پہلے تک وہ سوچ سکتے تھے کہ پاکستان کی حالت یہ ہو جائے گی؟ اب جب سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور اس صورتحال کا بخوبی جائزہ لے رہے ہیں تو یہ قیاس کرنا اتنا مشکل نہیں کہ وہ پاکستان کے موجودہ حالات کو غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ اُن کی طرف سے حملے آئے روز جاری ہیں ‘ کبھی کوئی آئی ای ڈی (improvised explosive device) کا دھماکہ ‘ کسی روز کسی سرحدی چیک پوسٹ پر حملہ۔ اب تک تو ہم پنجاب والے آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں ‘ خیبرپختوانخوا میں پولیس اور وہاں کی جو مختلف لیویز ہیں‘ اُن کی حالت کیاہوگی؟ ایک نفسیاتی دباؤ ہمیشہ ذہنوں پر رہتا ہوگا۔سرحد کے اُس پار طالبان حکومت کی پناہ ٹی ٹی پی کو حاصل ہے۔ہم افغان حکومت کے منت ترلوں پر آ گئے ہیں اور وہ جنہیں ہم نے دہائیوں تک سرپہ اٹھائے رکھا وہ ہمیں طفل تسلیوں پر ٹرخا رہے ہیں۔زبانی جمع خرچ بہت لیکن ٹی ٹی پی کے خلاف عملی قدم ایک بھی نہیں ۔
بلوچستان میں بھی جنگجوؤ ں کے حوصلے بلند ہیں۔ ماضی میں بھی بلوچستان میں شورشیں برپا ہوتی رہی ہیں لیکن جنگجو پہلے کبھی اتنے منظم دکھائی نہیں دیے ۔صورتحال اب یہ ہے کہ ہماری افواج کو بلوچستان کے بیشتر علاقے میں چوکس رہنا پڑ رہا ہے ‘ پختونخوا کے بارڈر اضلاع میں ویسے ہی حالت ِ جنگ طاری ہے اور ہندوستان جو ہمارا بڑا دشمن ٹھہرا‘ اُس لمبے بارڈر پر تو ویسے ہی ہماری افواج کو ڈپلائے رہنا پڑتا ہے۔
خطرات کی کوئی کسررہ گئی تھی کہ ہم نے پورے زوروشور سے اندرونِ ملک بھی محاذ کھولنا تھا؟ ملک میں جو نئی لائنیں اور دراڑیں پڑ چکی ہیں یہ ایک نیا عمل ہے ‘ یہ تفریق پہلے کبھی پیدا نہ ہوئی تھی۔لہٰذا آفرین ہو ہمارے اُن اکابرین پر جنہوں نے یہ صورتحال پیدا کی۔ ادارے کہاں کھڑے ہیں ‘ کیا خیالات اُن کے ذہنوں میں جنم لے رہیں اور عوام کا موڈ کیا ہے؟یہ نئی صورتحال ہے۔ خاص طورپر پنجاب میں ایسی صورتحال پہلے کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ باجوہ صاحب کے زمانے میں یہ جو ہم سنتے تھے کہ اتنے ریٹائرڈ سینئر افسران کی پنشن روک دی گئی ہیں ‘ ہمارے تجربے میں پہلے کبھی ایسی بات سننے میں نہ آئی تھی۔لیکن ایسا ہوا اور پھر نئے آرمی چیف آئے تو رکی ہوئی پنشن بحال ہوئی۔کبھی یہ سنا تھا کہ جانے پہچانے لوگوں کے خلاف تھانوں میں کسی کی ایما اور کہنے پر ناروا اور ہتک آمیز سلوک ہو رہا ہے؟جوشہباز گل اور اعظم سواتی کے ساتھ ہوا‘ کئی ایک صحافیوں کے ساتھ ہوا ‘ ارشدشریف کا تو ذکر ہی نہ کیجئے کیونکہ جو اُس کے ساتھ ہوا وہ سارے واقعات ذہن میں لائیں تو ذہن پھٹنے لگتا ہے۔اور یہ جو کل پرسوں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے‘ یہ بھی حیران کن ہے۔اَسی سالہ ریٹائرڈ جرنیل جس کے بارے میں اچھی باتیں ہی سنی ہیں‘ وہ کسی ٹی وی چینل پر ایک دو جملے ادا کرتا ہے تو کسی کو برے لگتے ہیں اور پھر وہ اٹھا لیا جاتاہے ‘ یہ کوئی عقل مندی کی دلیل بنتی ہے ؟ہمیں چھوڑیے‘ دشمن بھی یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ پاکستان میں ہو کیا رہا ہے۔
اب تو ہمارازیادہ بسیرا گاؤں اور لاہور میں ہے اور اسلام آباد کم ہی جانا ہوتا ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب اسلام آباد ہی رہتے تھے‘ اور تب مختلف ممالک کے سفیروں اور ڈپلومیٹس سے بہت ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ہندوستان ایمبیسی کے کئی ایسے ڈپلومیٹس تھے‘ جن سے نہ صرف میل جول رہتا بلکہ اُن سے اچھا بھلا یارانہ بھی ہو گیا تھا ۔یہ تب کا زمانہ ہے جب مقبوضہ کشمیر میں جنگجویانہ کارروائیاں اپنے زوروں پر تھیں۔مجھے یاد ہے کہ ہمارے ہندوستانی دوست جب ان موضوعات پہ ہم سے بات کرتے تھے تو میں کہتا تھا کہ جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ اس لئے ہے کہ کرنے والے کرسکتے ہیں اور اس کے جواب میں آپ کچھ نہیں کرسکتے۔یہ میں کہتا تو آگے سے وہ چپ ہو جاتے کیونکہ اُن کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہ ہوتا۔اور واقعی تب ہندوستان کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔یادرہے کہ تب تک کارگل کا ایڈونچر رونما نہیں ہوا تھا‘ اور کارگل نے تو یوں سمجھئے ہمیں دنیا کے سامنے ننگا کرکے رکھ دیاتھا۔لیکن جو میں ذکر کررہا ہوں وہ کارگل سے پہلے کی باتیں ہیں۔تب ہمارا وہ اعتماد تھا اور آج ہم اس نہج پہ آن پہنچے ہیں کہ ترس کھانے والا بھی کوئی نہیں رہا۔تب کے میرے ہندوستانی دوست سب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ۔ دہلی بھی آنا جانا اب نہیں ہے لیکن سوچتا ہوں کہ وہاں کبھی جانے کا اتفاق ہو اور اُن پرانے دوستوں سے شام کی رعنائیوں میں ملاقات ہو تو میرے پاس کہنے کو کیا ہو گا؟ انڈین ٹی وی چینلوں پر میں بہت گیا ہوں ‘ ڈٹ کر وہاں بات کیا کرتے تھے لیکن آج ہم نے اپنے ساتھ کیا کر دیا ہے ؟
جو تاریخ پاکستان ہمیں پڑھائی جاتی رہی ہے‘ اُس کا ایک لازمی جز یہ تھا کہ ہندوستان ہمارا دشمن اس لئے ہے کہ اُس نے ہمارے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا‘ جس سے لازمی مفہوم یہ نکلتا تھا کہ ہندوستان ہمیں ختم ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔آج کے حالات ایسے ہیں کہ ہمارے ہمسائے ہمارے وجود کے متمنی ہیں کیونکہ کسی متبادل کی سوچتے ہیں تو اُن پر خوف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ بائیس کروڑ کا ہمارا ملک ہے اور آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ مختلف ادارے بڑے وسیع پیمانے پر استوار ہیں۔ ایٹمی ذخیرہ ہمارے پاس ہے ۔ ان سب کو سنبھالنا کوئی آسان کام ہے ؟قوم کا فوری مطالبہ تو یہ ہے کہ اُن افلاطونوں کو سامنے لایا جائے جنہوں نے آنکھ جھپکنے میں قوم کو اس حالت پر پہنچا دیا ۔دشمن جو سوچ نہ سکتا تھا‘ وہ ہم نے خود ہی کر دکھایا ہے۔جو ہمارے تصور میں باتیں نہ تھیں وہ ہمارے سامنے رونما ہو رہی ہیں۔