افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میں تو ایف اے پاس بھی نہ تھا۔ لارنس کالج میں سینئرکیمبرج کے امتحان کے لیے بیٹھا جس کا سرٹیفکیٹ گیارہویں جماعت کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ ہمیں یہ برتری البتہ حاصل تھی کہ لارنس کالج جیسے سکولوں سے کچھ انگریزی وغیرہ آ جاتی تھی اور تب یہی سمجھا جاتا تھا کہ جو انگریزی بول لے اُس نے تو ویسے ہی دانشوری کا رتبہ حاصل کرلیا ہے۔ایسی تعلیم سے لیس ہم کچھ اور تو کر نہیں سکتے تھے لیکن ہمارے لیے بہترین راستہ یہی ہوتا تھا کہ کاکول کا راستہ چنیں۔میں نے بھی یہی کیااور نیم اَن پڑھی کی حالت میں کاکول پہنچ کر دو سال بعد افسری حاصل کرلی۔
میرے جیسے اور بھی بہت تھے جن کی تعلیم ادھوری ہوتی ... سینئر کیمبرج‘ او لیول اور ایف اے تک کی تعلیم کو ادھورا ہی سمجھا جائے گا... لیکن جنہیں اس شارٹ کٹ کے ذریعے افسری مل جاتی۔ سترہ سال کی عمر میں اکیڈمی گیا اور انیس سال کا تھا جب افسری کا نشان امتیاز حاصل ہو گیا۔ اُس وقت صدرِمملکت جنرل آغامحمد یحییٰ خان تھے۔اُس زمانے میں جو جو بھی اس شعبے میں بڑے عہدوں پر فائز تھے اُن کی تعلیم بس ہمارے جیسی تھی۔یہ اور بات ہے کہ انگریزی بولنے سے شخصیت میں کچھ کھڑاک سا پیدا ہو جاتا تھالیکن بنیادی بات یہی تھی کہ تعلیم کا زیادہ بوجھ کندھوں پر نہ ہوتا تھا۔یہ تو گزرے زمانے کی باتیں ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو بنیادی کیفیت آج بھی وہی ہے جو اُس دور میں تھی۔البتہ ایک واضح فرق یہ تھا کہ اُس زمانے کے افسر سیاسی اعتبار سے شاید اتنے کھلے ذہن نہ رکھتے ہوں لیکن سماجی لحاظ سے وہ لبرل قسم کے لوگ ہوا کرتے تھے۔جنرل ضیا الحق والا دور تو آیا نہیں تھا‘اس لیے کلب آباد ہوا کرتے تھے اور سارے افسر تو نہیں لیکن ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جن کی شامیں کلبوں میں گزرتی تھیں۔جنرل ضیا الحق کے دور کے نتیجے میں سیاسی طورپر ذہن مزید بند ہو گئے اور لبرل دور کی یادیں بھی جاتی رہیں۔ یہ کہنا البتہ ضروری ہے کہ جنرل یحییٰ ہوں یا جنرل ضیا الحق‘ سیاسی طور پر سوچ ایک ہی تھی۔مثال کے طور پر جنرل یحییٰ خان اور اُس دور کے افسروں کی طبیعت یا سماجی رجحا نات جتنے بھی لبرل ہوں سیاسی طور پر وہ یہی سمجھتے تھے کہ سیاست دانوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور ملک کے اصل گارڈین وہی ہیں۔کہاں یحییٰ خان اور کہاں آج کے حالات لیکن سیاسی سوچ وہی ہے کہ سیاست دان بے اعتبار لوگ ہیں۔ ایوب خان بھی قوم کو صحیح راستے پر چلانا چاہتے تھے۔ وہ تو برملا کہتے تھے کہ پاکستانی قوم جمہوریت کیلئے اَن فٹ ہے۔مداحین آج تک کہتے ہیں کہ ایوب دور میں بڑی ترقی ہوئی۔ فیکٹریاں وغیرہ ضرور بنیں لیکن دس سالہ اقتدار کے بعد وہ لاوا پک چکا تھا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دونوں میں افراتفری اور سوِل انارکی پھیلنے لگی۔ یحییٰ خان سمجھتے تھے کہ ڈنڈے سے ہر کام چلایاجاسکتا ہے‘ انتخابات تو کرا دیے لیکن اُن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ نومنتخب اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا اور ایکشن کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا۔جنرل ضیاالحق نے ڈنڈے اور کوڑوں کے زور پر حکومت چلائی۔ اسلام کا نعرہ بہت بلند کرتے تھے‘ قوم نیک اور پارسا تو شاید نہ ہوئی لیکن ذہنی اور فکری طور پر سو سال پیچھے چلی گئی۔اس لحاظ سے ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ہمیں مردِمومن ومردِ حق چھوڑ کر گئے تھے۔
یہ سب ہمارے جتنے ہی پڑھے ہوئے تھے‘ پروفیشنل معاملات میں دانش رکھتے ہوں گے لیکن کیونکہ اپنے آپ کو پروفیشنل معاملات تک محدود نہ رکھا اور ملک کی سمت درست کرنے چلے تویہ بھی دیکھنا لازم ہو جاتا ہے کہ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کتنی تھی۔ایک قسم کی چالاکی یا ہوشیاری تو ان سب میں بہت ہوگی لیکن جسے آپ مدبرانہ سوچ کہتے ہیں اُس کا مالک ان میں سے ایک بھی نہ تھا۔جنرل پرویز مشرف کو دیکھ لیجئے‘ وہ بھی ہمارے جتنے پڑھے لکھے تھے لیکن کچھ منصب نے ساتھ دیا‘ کچھ قسمت نے اور ملک کے سربراہ ہو گئے۔ذاتی خوبیاں اُن میں بہت تھیں لیکن ملک چلانے کی صلاحیت‘ اس بارے میں سوالیہ نشان ہی رہیں گے۔
اگر یہ ماضی کی مثالیں ہیں تو آج کی حالت دیکھ لیجئے۔ ملک و قوم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔لیکن اب بھی ضد ہے کہ قوم کو صحیح ڈگر پر ڈالنا ہے۔ایک بار مجھے جنرل باجوہ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔رات کے کھانے پر مدعو تھا اور دعوت اُن کے سسر میجر جنرل(ر) اعجاز امجد نے ٹیلیفون کرکے پہنچائی تھی۔ یہ بھی تاکید ہوئی کہ دعوت تو رات ساڑھے نو بجے کی ہے لیکن تم ساڑھے سات بجے میرے ہاں آ جانا۔ میں بات سمجھ گیا اور دل میں قدرے اطمینان بھی ہوا کہ خواہ مخواہ کا سوکھا کھانا نہیں کھانا پڑے گا۔ اب کیونکہ زمانہ بدل گیا ہے تو دنیا جنرل (ر)اعجاز امجد کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہے لیکن جو دو‘ تین بار میں اُنہیں ملا اُنہیں بہت مہمان نواز ہی پایا۔اُس شام بھی اُن کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ تھی اور جب میں آرمی ہاؤس پہنچا تو یوں سمجھئے میں خاصے موڈ میں تھا۔اور کوئی کھانے کی میز پر نہ تھا‘سوائے بیگم صاحبہ کے لیکن جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری گفتگو گو کہ بڑی خوشگوار رہی لیکن اُس میں ایک بھی ایسی چیز نہ تھی جس سے میں متاثر ہوا ہوں۔اور وہ اس لیے کہ ہم سب جو اس بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتے ہیں ایک ہی قسم کے پڑھے لکھے ہیں‘ جسے انگریزی میں mental horizonکہتے ہیں اور جس کا اردو ترجمہ شاید ذہنی افق ہے‘ وہ ہم جیسے لوگوں کا کوئی اتنا وسیع نہیں۔ عمومی طور پر ہمارا مطالعہ کوئی زیادہ نہیں ہوتا‘ تاریخ دوسروں کی ہو یا اپنی اُس میں زیادہ گہرائی سے ہم نہیں گئے ہوتے۔ ہم میں سے بہت ہیں جو بس ذہنی ٹوٹکوں پر چلتے ہیں۔لیکن وہ کیا اردو کا محاورہ ہے‘ عقل بڑی یا بھینس‘ہمارے ہاں اس سوال کا جواب بڑا واضح ہے کہ بھینس بڑی ہے۔جس کا مطلب ہے کہ آپ کی سمجھ اور دانش جیسی بھی ہو جب آپ بھینسے پہ بیٹھے ہوں تو تمام عقل کے مالک آپ ہی ہوتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ آپ کو کوئی کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔منصب پہ فائز ہوں تو کئی حوالوں سے آپ کا نام لینا مشکل ہو جاتا ہے‘ تنقید تو دور کی بات ہے۔
المیہ البتہ یہ ہے کہ ا ب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ ایوب خان اوریحییٰ خان کے زمانوں میں ہم سمجھتے تھے کہ اگر حالات خراب ہیں تو پاکستان کا مستقبل یقینا روشن ہے۔جنرل ضیا الحق کے زمانے تک ہم سمجھتے تھے کہ آمریت ہے تو کیا ہوا‘ جمہوریت کے آفتاب نے تو طلوع ہونا ہے۔آج اس حالت پر ہم پہنچ چکے ہیں کہ مستقبل کی لچک نہیں رہی۔پانی سر کو پہنچ جائے تو گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔لیکن آفرین ہے کہ ان حالات میں بھی ہم تبدیل ہونے کو تیار نہیں۔ زمانہ بدل گیا‘ ہم نہ بدلے۔ لیکن اس بیچاری قوم کا کیا قصور؟اور تو اور‘ بیچارے ظل شاہ کا کیا قصور؟