نالائقی کا طعنہ بے سود ہوچکا ہے۔بڑے فضول لوگ اس ملک میں گزرے ہیں لیکن جس ٹولے سے پالا پڑرہا ہے اس نے تو تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔کچھ سمجھ سکتے ہیں نہ کچھ کرسکتے ہیں‘ بس اوچھے ہتھکنڈے جن کی ناکامی سے منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ حالات بدل چکے ہیں‘ جو گزرے زمانوں میں چل جاتا تھا اب ایسا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔لیکن دل سے تھانیداری کی تمنا نہیں جا رہی اور وہ حربے استعمال ہو رہے ہیں جن سے عوام کا اشتعال مزید بڑھ رہا ہے۔ان سے کوئی پوچھے تو سہی کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟
گزرے زمانے ہوتے تو ریاستی جبرمزاحمت کی ہر نشانی کو کچل نہ دیتا؟ لیکن جو کچھ ہو رہا ہے ہمارے سامنے ہے۔زمان پارک کے خلاف ایک باقاعدہ آپریشن شروع کیا گیا لیکن کارگر ثابت نہ ہوا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ورکر اور ہمدرد دبنے یا بھاگنے کے لیے تیار نہیں۔زمان پارک میں ہم نے دیکھا‘ کیا کچھ وہاں استعمال نہ کیا گیا لیکن عوام کھڑے رہے اور پولیس کو ہی پھر وہاں سے بھاگنا پڑا۔ جس دن عمران خان عدالت میں حاضری کیلئے اسلام آباد گئے اُس دن بھی پورا ایک تماشا لگایا گیا۔ حامیوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ عمران خان موٹر وے پر پہنچے تو پیچھے پنجاب حکومت کے افلاطونوں نے زمان پارک پر پھر چڑھائی کر دی۔کچھ ملازم تھے اور باقی گھر کی خواتین۔کیا بہادری کا مظاہرہ پنجاب پولیس کے شیرجوانوں نے کیا۔بھاری مشینری لائی گئی تھی جس سے باہر کی دیوار توڑی گئی اور باہر کا بڑا گیٹ اکھاڑ لیا گیا۔گھر کے ملازمین پر ایسا تشدد کیا گیا کہ لگتا تھا بغداد پر حملہ ہو رہا ہے۔ادھر جو کانوائے موٹر وے پر تھی‘ چکری عبور کرتے ہی کوششیں شروع ہو گئیں کہ باقی کاروں کو پیچھے روکا جائے تاکہ خان کی گاڑی تنہا ہو جائے۔زمان پارک پر جو کارروائی کی گئی اُس میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس کی نفری استعمال ہوئی۔موٹروے پر آپریشن کے لیے بھی ہزاروں کی نفری استعمال ہو رہی تھی۔بظاہر منصوبہ بندی یہ تھی کہ اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں خان اکیلا داخل ہو تاکہ اُسے دبوچنا آسان رہے۔پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے ڈرپوک ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہ منصوبہ بندی کامیاب نہ ہوتی۔ لیکن پتا نہیں کن کونے کھدروں سے لوگ جمع ہوتے گئے۔ یہ اب ریکارڈ کی بات ہے کہ عوام کی طرف سے کوئی اشتعال نہ ہوا‘ پولیس نے آنسو گیس شیلنگ شروع کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جوڈیشل کمپلیکس میدانِ جنگ کا سماں پیش کرنے لگا۔بنیادی بات یہ ہے کہ تاریخی آنسو گیس شیلنگ کے باوجود عوام ڈٹے رہے اور تمام ہتھکنڈے ناکام ثابت ہوئے۔ رات گئے عمران خان واپس زمان پارک پہنچ گئے تھے۔یعنی پورا زور لگالیا لیکن مقصد کے حصول میں کامیابی نہ مل سکی۔
اب ایک نئی سکرپٹ تیار کی جارہی ہے۔ وفاقی کابینہ کی ایک لمبی میٹنگ کے بعدا علامیہ جاری ہوا جس میں یہ کہا گیا کہ یہ تو کوئی سیاسی ورکر نہیں لگتے‘ ان لوگوں سے شائبہ یہ ملتا ہے کہ انہیں دہشت گردوں نے ٹریننگ دی ہے۔پی ٹی آئی کا مقابلہ سیاسی میدان میں تو ہو نہ سکا‘ اب دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنا چاہتے ہیں۔آگے کیا ارادے ہیں خدا جانے۔پاکستان کی تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ نامعلوم افراد سویلین حکومتوں کے خلاف ایک مخصوص کردار ادا کرتے رہے ہیں۔پیچھے سے ہوا دی‘ لوگوں کو اکسایا‘ خاص سیاسی پارٹیوں کے کندھوں پر تھپکی دی اور یوں افراتفری اور ایجی ٹیشن کا ماحول بنایا۔یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ تمام قوتیں دوسری طرف کھڑی ہیں‘ کیا طاقتور حلقے‘ کیا نامعلوم افراد اور کیا سیاسی آلہ کار و دیگر سہولت کار۔لیکن پھر بھی عوامی قوت اپنی جگہ پر قائم ہے۔گرفتاریاں ہو رہی ہیں‘ جہاں بس چلے تشدد کااستعمال ہو رہا ہے‘ لیکن عوامی قوت تمام وار ہمت اور خندہ پیشانی سے سہہ رہی ہے۔نہ صرف یہ بلکہ عوامی قوت تمام مقدس مجسموں کے خلاف وہ کہنا شروع ہو گئی ہے جو پہلے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کبھی سنی نہ گئی تھیں۔نوبت یہاں تک نہیں پہنچنی چاہیے تھی مگر غصہ سمجھ بوجھ کی صلاحیت پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔پہلی بار کابینہ اجلاس کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ طاقتور اداروں کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی ہے۔ نوبت یہاں تک نہیں آنی چاہئے تھی۔
بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ موٹر سائیکل سواروں کے لیے ایک ایسی سبسڈی کا اعلان کیا گیا ہے جو ایک تو ناقابلِ عمل ہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے مذاکرات کو مزید مشکل میں ڈال دے گی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف مقامات پر رمضان پیکیج کے طور پر مفت آٹا تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مفت آٹے کے انتظار میں عوام کی لائنیں لگ رہی ہیں اور ایک دو مقامات پر مفت آٹے کے ٹرکوں کو باقاعدہ لو ٹا گیا ہے۔اس سکیم کی مضحکہ خیزی دیکھئے کہ ایک طرف مفت آٹے کا اعلان اور دوسری طرف بازار میں آٹے کے نرخ یکدم بڑھ گئے ہیں۔ بدحواسی کے نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں۔
انگریزی کا لفظ انارکی بہت سخت معنی رکھتا ہے‘ خدا نہ کرے ایسی عمومی کیفیت یہاں جنم لے۔لیکن دیکھا جائے تو حالات اسی طرف جا رہے ہیں۔ حکمرانی کی کوئی سمت نہیں اور پھر وہ بے اثر بھی ہو تی جا رہی ہے۔ہم نے دیکھا نہیں ہے کہ شہروں اور دیہات میں بھی چھوٹے بڑے جرائم کیسے بڑھ رہے ہیں؟ لیکن نظرآنے والے اور پسِ پردہ حکمرانوں کے ذہنوں پر ایک ہی چیز سوار ہے‘ کہ فلاں شخص کا راستہ کیسے روکا جائے اور انتخابات سے راہ ِ فرار کیسے اختیار کی جائے۔ ملک بحرانوں میں دھنس چکا ہے‘معاشی لحاظ سے ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔دہشت گردی کے خطرات خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سراُٹھا چکے ہیں۔قومی کشکول میں کوئی خیرات دینے کیلئے بھی اب تیار نہیں۔ہم نے سب کچھ آزما لیا‘ جس در پر جاسکتے تھے وہاں پہنچے اورکیا ماتھے رگڑے‘ لیکن بے سود۔مانگتے تو ہم پہلے بھی تھے لیکن اتنی بے توقیری کبھی پہلے نہ ہوئی۔کن گناہوں کی سزا قوم بھگت رہی ہے؟ جیسے اوپر عرض کیا نالائقی کے ہم آشنا ہمیشہ رہے لیکن کبھی تصور نہ تھا کہ اتنی نالائقی بھی ہمارے حصے میں آئے گی۔
سچ پوچھئے اب ڈر لگنے لگا ہے‘ ملک کے بارے میں اور مستقبل کے بارے میں۔کتنی بار ہم کہہ اور لکھ چکے کہ چھوڑیئے ملک کے مسائل کو‘ یہ لاعلاج ہیں۔تلقین کرتے تھے کہ اپنی موج مستی سے واسطہ رکھئے‘ باقی چیزیں بیکار ہیں۔لیکن بخدا‘ ہمت نہیں رہی ایسی باتوں کو دہرانے کی۔ لاعلاج تو اس ملک کے مسائل کو سمجھتے تھے لیکن یہ احساس تھا کہ جیسا بھی ہے چیزیں چل رہی ہیں‘اور شاید ہماری قسمت یہی ہے کہ اسی بے ڈھنگے انداز سے ہمارا قومی سفر جاری رہے۔ لیکن اب جس حال کو ہم پہنچ چکے ہیں دل و دماغ وسوسوں کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ڈر لگ رہا ہے کہ ہم اپنے ساتھ کیا کررہے ہیں۔
آج کے حالات ایسے خطرناک ہیں کہ 1971ء سے بھی مماثلت نہیں رکھتے۔ تب مشرقی پاکستان میں جب غدر کے مناظر پیش ہوئے توپیچھے مغربی پاکستان تو تھا۔اب جو یہاں کھلواڑ مچی ہوئی ہے تو ہم بھاگ کر کہاں جائیں؟جنہیں ہم اپنی آخری دفاعی لائن سمجھتے تھے‘ جب وہ بھی شدید تنقید کی زد میں آ گئے ہیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟