قوم کا حال کیا کردیا گیا ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ انارکی ملک میں پھیلی نہیں بلکہ پھیلائی جا رہی ہے۔ آثار ہر جگہ نظر آ رہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے اپنے مسائل ہیں‘ انتخابات کے بارے میں ایک حکم جاری ہوتا ہے لیکن حکومتِ وقت اس کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ حکمرانوں کو انکار کی ہمت نہ ہوتی اگر مہربانوں کی تھپکی ان کے کاندھے پر نہ ہوتی۔ سیاست کا کیا حال ہے‘ معیشت کی کیا تباہی ‘ وہ ہمیں پتا ہے لیکن قوم کا اصل حال مفت آٹے کی تقسیم کے ٹرکوں کے پیچھے نظر آتا ہے۔ کیا کھینچا تانی‘ بدنظمی اور بے چارگی ہے‘ اور جہاں بس چلے لوٹ مار کی وارداتیں۔ یہ ہمارا اصل حال ہے۔ جو خوشحال ہیں اُنہیں تو کوئی پروا نہیں لیکن بیشتر آبادی مہنگائی سے بدحال ہو رہی ہے۔ وہ جو انگریزی کا لفظ ہے desperate‘ لوگ ڈیسپریٹ ہو رہے ہیں اور جب یہ عمومی کیفیت ہو جائے تو سماجی بدنظمی اور جرائم میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اب ہم یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
صرف عام آدمی ڈیسپریٹ نہیں ہے‘ بڑے بڑے بھی اس حالت سے گزررہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ نے سچ اُگل ہی دیا کہ یہ بقا کی جنگ ہے‘ یا ہم ہیں یا عمران خان اور اس جنگ میں نہ کوئی اصول ہے نہ کوئی جمہوریت۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ عمران خان کو روکنے کیلئے ہم کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ یہی تو ہم کہتے تھے کہ حکومت کی ذہنی کیفیت یہ ہے لیکن اب رانا صاحب نے کھل کر اس بات کا اعتراف کر لیا ہے۔
اصل ذہنی حالت خراب تو نون لیگ کی ہے‘ بلکہ نون لیگ کی قیادت کی۔ پنجاب ان کی میراث تھا‘ لاہور ان کا قلعہ‘ اور یہ دونوں ان کے ہاتھوں سے عمران خان نے چھین لیے ہیں۔ نون لیگی قیادت کے سینوں میں انگار ے تو پھر دہکتے ہوں گے‘ اسی لیے عمران خان کی بات کرتے ہیں تو جھاگ آنے لگتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ان کا ذکر کرتے ہیں‘ چاہے ذکر قومی اسمبلی میں ہو رہا ہو‘ تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں‘ اپنے پہ کنٹرول نہیں رہتا۔ بات سمجھ میں آتی ہے‘ سیاہ و سفید کے مالک تھے اور اب انتخابات کے ڈر سے بھاگ رہے ہیں کیونکہ معلوم ہے انہیں کہ انتخابات کی صورت میں ہمیں کیا مار پڑے گی۔ نواز شریف کی ذہنیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اپنی سوچوں سے زیادہ دولت وہ سمیٹ چکے لیکن دولت کا مزہ تب تھا جب پاکستان میں حکمرانی بھی چل رہی تھی۔ لندن میں امیرکبیر آدمیوں کی کمی نہیں‘ مہنگی گاڑیوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ وہاں بینٹلے یا رولز رائس میں گھومنے سے کیا فرق پڑتا ہے‘ حکمرانی تو نہ ہوئی۔ حکمرانی کے لاؤ لشکر یہاں تھے‘ جلسوں میں عوام کی گھن گرج بھی یہاں تھی۔ یہ سب کچھ ان کے ہاتھوں سے چلا گیا۔ اب تو لیگی قیادت کیلئے کہیں ایک عدد مناسب جلسہ بھی کرانا آسان نہیں۔ یہ جو حالیہ پی ٹی آئی کا جلسہ لاہور کے مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں ہوا‘ اس کے مناظر دیکھ کے لیگی قیادت کے دلوں پر کیا گزری ہوگی۔ ایسی کیفیت جب انسان پہ طاری ہو جائے وہ سب کچھ بھول جاتا ہے اور سینے میں فقط انتقام کی آگ بھڑکتی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اِن لوگوں کو کوئی سروکار نہیں کہ ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ملک کو کہاں پہنچا دیا گیا ہے‘ یہ بس عمران خان سے حساب چکانا چاہتے ہیں۔ اس نفسیاتی حالت میں ملک کے ساتھ جو ہوتا ہے ہو جائے‘ انہیں کوئی پروا نہیں۔
لیگی قیادت کی نظروں میں عمران خان کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے ان کی زندگی کا مزہ کِرکرا کر دیا ہے۔ اتنی بڑی سیاسی ایمپائر‘ اتنی بڑی کمرشل اور انڈسٹریل ایمپائر اور یہ سب اثاثے کس کام کے جب لندن بھی ان کیلئے محفوظ مقام نہیں رہا۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے نکلتے ہوں گے تب بھی یہ ڈر کہ کہیں پاکستانی جمع نہ ہوں اور ان پر آوازے نہ کسیں۔ شہباز شریف کو جب وزیراعظم بنایا گیا تو لیگی قیادت کی میٹنگ لندن میں ہونی تھی۔ آوازے کسنے کے ڈر سے انہیں کسی خفیہ مقام پر یہ اجلاس کرنا پڑا‘ چھپ چھپا کے گئے‘ میڈیا کی نظروں سے اوجھل۔ ان کی حالت یہ کر دی گئی ہے۔ رانا ثناء اللہ نے پھر سچ ہی کہا کہ یا وہ ہے یا ہم۔ جمہوریت اور آئین جیسی چیزوں کو بھول گئے‘ خیالات پھر وہی ذہن پر غالب آئے جو ایک دیہاتی ذہن کا آپ خاصا کہہ سکتے ہیں۔ ایسی سوچ تو ہم دیہات والے رکھتے ہیں کہ فلاں کی ایسی کی تیسی‘ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے‘ دیکھ لیں گے اسے۔ ایسی رقابت کی آگ جب بھڑکتی ہے تو انسان کوئی پروا نہیں کرتا کہ پیسے کتنے لگ رہے ہیں اور لڑائی کا انجام کیا ہوگا۔ ذہن پر حاوی سوچ بس یہی ہوتی ہے کہ فلاں سے بدلہ لینا ہے۔ عمران خان کا بڑا جرم یہی بنتا ہے کہ اس نے لیگی قیادت کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔
دوسرا مسئلہ ہمارے کرتے دھرتوں کا ہے‘ وہ بھی کسی ایسی کیفیت میں ہی مبتلا ہو چکے ہیں۔ آنکھوں کے سامنے سے ہر چیز دھندلا چکی ہے‘ سوچ فقط یہ ہے کہ عمران خان نے ہمارے سینوں پر مونگ دَلنے کی جسارت کی ہے۔ احسان فراموش ہے‘ سرکش ہے‘ فتنہ باز ہے۔ اپنا استاد خود ہے‘ ہماری بات نہیں مانتا اور ہمارے بارے میں وہ زبان اس نے استعمال کی جس کی اس سے پہلے کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے آپ کو بڑا سیاستدان سمجھتا تھا‘ وہ اپنے انجام کو پہنچا۔ عمران خان کون ہوتا ہے کہ اس انداز سے للکارے۔ لیکن للکار رہا ہے اور دبنے کا نام نہیں لے رہا۔ کرتے دھرتوں کیلئے یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ دل میں آرزوئیں بہت ہوں گی لیکن دانت پیسنے کے سوا کچھ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ کچھ یہ سمجھنے میں مشکل درپیش آ رہی ہے کہ وقت بدل چکا ہے۔ بھٹو کتنا بڑا آدمی تھا لیکن ایک 302کا پرچہ اسے نکیل ڈالنے کیلئے کافی تھا۔ پرچے کی پاداش میں اندر گیا تو جیسے شاہین کے پر کٹ گئے ہوں‘ حالت اس کی یہ بنا دی گئی تھی۔ قتل کے مقدمے میں ہائیکورٹ میں پیش ہوتے تو چیف جسٹس پنجاب ہائیکورٹ مولوی مشتاق حسین انہیں قہر بھری نظروں سے دیکھتے اور موقع ملتا تو بے دریغ ڈانٹ دیتے۔ پرانی راولپنڈی جیل میں بھٹو کو لایا گیا تو بس بے بسی کا ایک عالم تھا۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ آخری دم تک باہمت رہے۔ جب سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد دریانہ نے بلیک وارنٹ کی اطلاع دی کہ کل صبح پھانسی ہے تو چہرے پر ایک دم شاک تو نموار ہوا لیکن جلد ہی سنبھل گئے اور سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ مجھے شیونگ کا سامان مہیا کرو‘ میں مولوی کی موت نہیں مرنا چاہتا۔ داڑھی ان کی تھوڑی بڑھی ہوئی تھی۔ موت کے اتنے قریب ایسا فقرہ ایک بہادر شخص ہی ادا کر سکتا ہے لیکن یہ ان کی ذاتی بہادری تھی‘ پر تو ان کے کٹ چکے تھے۔ عمران خان کے بارے میں آرزو یہی ہے کہ پر کاٹیں‘ اسے سبق سکھائیں لیکن کوئی ترکیب بار آور ثابت نہیں ہو رہی۔ وہ دور نہیں رہا‘ زمانہ بدل چکا ہے اور عمران خان‘ وہ کہہ اور کر سکتا ہے جو ان بیتے ہوئے حالات میں بھٹو کے بس میں نہیں تھا۔ اسی لیے دانت پیسنے کے سوا بظاہر طاقت رکھنے والے کچھ کرنہیں پا رہے۔
ذاتی لڑائی ہوتی تو ہم کہتے کہ جو ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے لیکن انتقام کی آگ میں اندھے ہونے کے نتیجے میں قوم و ملک کا بھرکس نکال دیا گیا ہے۔ اور تو اور ہمارے مبینہ دشمن حیران ہیں کہ پاکستانیوں نے اپنا حال کیا کر دیا ہے۔ ہمیں سمجھ آ رہی یا نہیں‘ مبینہ دشمنوں کو ہماری حالت سمجھ نہیں آ رہی۔ ہماری تاریخ میں نااہل اور نکمے ٹولے پہلے بھی اقتدار میں آئے ہیں لیکن ایسا نکما پن اپنی مثال آپ رکھتا ہے۔