ہم اخبار والوں کی دنیا بڑی محدود ہے‘کھل کر بات کر نہیں سکتے‘ اشاروں کنایوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ہر موضوع کے بارے میں نہیں۔قومی زندگی میں کئی اہم علاقے ہیں جو ہمارے لیے شجرِ ممنوعہ ہیں۔ٹیلی وژن چینلوںکا بھی یہی حال ہے‘ سیاست کی سطحی باتوں پر ہم بَک بَک کرتے رہتے ہیں‘ سیاستدانوں پر ایک حد تک تبرے کَس لیتے ہیں لیکن قومی زندگی کے اصل حقائق سامنے نہیں لاسکتے۔دیکھ لیا ارشد شریف کے ساتھ کیا ہوا‘اپنی بے باکی کی قیمت اُسے چکانی پڑی۔
ویسے بھی اب تو یوں لگتا ہے کہ سارے نہیں تو بہت سے نئے آنے والے چینلز پراپرٹی کاروبار کی ایکسٹینشن ہیں۔جس بڑے پراپرٹی والے کو دیکھو ایک آدھ ٹی وی چینل کھول لیتا ہے‘ وہ شاید اس لیے کہ ٹی وی چینل کا مالک بننے سے تھوڑی معتبری مل جاتی ہے‘ حالانکہ دیکھا جائے تو آج کے پاکستان میں معتبری کا سب سے بڑا ذریعہ پراپرٹی کا کاروبار ہے۔ دوسرے ممالک میں سائنس اور ریسرچ کی اہمیت ہوگی‘ یہاں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہرسمجھدار شخص یہ سمجھ چکا ہے کہ مال بنانے کے دو ہی ذریعے ہیں‘ ایک تو آپ سرکار سے ٹھیکے لیں یاپراپرٹی کے کاروبار میں چلے جائیں۔یہ بھی ہے کہ جنہوں نے ٹھیکوں کا راستہ اپنایا وہ بھی آخر کار پراپرٹی کی وسیع دنیا میں آ گئے۔
اس صورتحال میں جہاں اصل حقائق سے پردہ اٹھانا ناممکن ہو گیا ہے‘ کچھ حقائق میسر ہو رہے ہیں تو وہ چند وی لاگروں کی وجہ سے۔میں میجر راجہ کا نام نہیں جانتا تھا لیکن کچھ عرصہ ہی ہوا ہے کہ ان کے وی لاگ دیکھنے لگا ہوں۔ شاید تھوڑا بہت مبالغہ ان میں ہو لیکن جس طرح وہ معاملات کا ذکر کرتے ہیں‘مزہ آتا ہے اور بہت سی معلومات بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔اُن کا اندازِبیان بڑا چسکے والا ہے اور اُنہیں سُن کر ہنسی بھی خوب آتی ہے۔رشک بھی آتا ہے کہ جو کام ہمیں کرنا چاہئے‘ نہایت خوش اسلوبی سے وہ کررہے ہیں۔اُن کے وی لاگ اگر آپ دیکھتے جائیں تو بہت سے معاملات میں خوب جانکاری ہو جاتی ہے۔ وجاہت ایس خان ہمارے ساتھ کچھ دیر دنیا چینل میں رہے‘ اب شاید انگلستان میں مقیم ہیں۔ یہاں تھے تو اُن کے تبصرے اور قسم کے ہوتے تھے لیکن جب سے انگلستان گئے ہیں‘ خوب مزے کی باتیں سنا رہے ہیں۔ حیدر مہدی صاحب کے وی لاگ بھی دلچسپ اور معلومات افروز ہوتے ہیں۔وہ بھی انگلستان میں مقیم ہیں۔کچھ صحافی بھی ہیں جنہوں نے باہر جانے میں ہی عافیت سمجھی۔شاید عمدہ وی لاگر بننے کیلئے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ وطنِ عزیز کے بجائے کہیں باہر مقیم ہوں۔یوں تو ہمارے ہاں ایک آئین ہے اور قانون کی حکمرانی کی باتیں بھی ہوتی ہیں لیکن تمام اہلِ نظر جانتے ہیں کہ اصل حکمرانی یہاں ڈالوں کی ہے۔جاپانیوں کو کیا معلوم تھا کہ وہ ویگو بنائیں گے اور اُن کے ایجادکردہ کرشمے کی اصل مشہوری ہمارے دیس میں ہوگی۔جو کام ان سے یہاں لیا جاتا ہے شاید کہیں اور نہ ہو۔
میں اپنے ٹی وی شو میں بیٹھتا ہوں تو اکثر اوقات بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ہم کتنی سطحی باتیں کرتے ہیں۔سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں لگے رہتے ہیں حالانکہ اس ملک کی حقیقت کچھ اور ہے۔ہوسِ اقتدار یہاں بے معنی اصطلاح ہے۔ اصل میں یہاں ہوسِ لوٹ مار ہے‘ جس طریقے سے بھی ہو‘ مال بنایا اور اکٹھا کیا جائے۔ یہاں پھر لوگوں نے مال بنایا بھی ہے‘ اور اس ڈھٹائی سے کہ جب کہانیاں سامنے آتی ہیں تو یقین نہیں آتا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔لیکن ڈر کی وجہ سے زبانیں کھلتی نہیں‘لہٰذااس خلا میں وی لاگروں کا بھلا ہو کہ قوم تک حقائق پہنچانے کا بیڑہ اُنہوں نے اٹھارکھا ہے۔یہ ہمارے معتبروں کی پریشانی کی ایک بڑی وجہ ہے۔روایتی میڈیا کو کنٹرول کرنا اتنا مشکل کام نہیں لیکن یہ جو پوڈکاسٹ اور وی لاگ کے گوریلا ہیں‘ انگلستان میں کہیں بیٹھے اپنی کتھا بیان کرتے ہیں اور منٹو ں میں اُن کی بات دنیا کے اُن تمام کونوں کھدروں میں پہنچ جاتی ہے جہاں پاکستانی مقیم ہیں۔کسی کا نام لیں تو وہ دنیا میں مشہور ہو جاتے ہیں۔کسی معتبر نے باہر کہیں رہائش یا جائیداد خریدی کچھ دیر بعد یہ حقیقت منظر عام پر آجاتی ہے۔نوازشریف وغیرہ کو لیجئے‘ یوں تو بڑے پُرتعیش اور محفوظ مقام میں بیٹھے ہیں لیکن وہاں اُن کا جینا حرام ہو گیا ہے کیونکہ اُن کے مال بنانے کے حوالے سے جو کارنامے ہیں وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اتنے پھیل چکے ہیں کہ بڑے چھوٹے پاکستانی ایسی باتوں کی معلومات رکھنے لگے ہیں۔ظاہرہے پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد لندن میں رہتی ہے۔شریف ٹبرکے کسی فرد کو دیکھ لیا تو آوازیں لگنے لگتی ہیں۔اندازہ لگائیے ایسی آوازیں کانوں پر پڑیں تو آپ جتنے بھی بے شرم ہوں‘ کچھ نہ کچھ شرمندگی تو ہوتی ہوگی۔
اب تو باتیں بڑی واضح ہوتی جارہی ہیں۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے ڈالوں نے مدد تو فراہم کی تھی لیکن منصوبہ یہ تھا کہ عمران خان اقتدار میں تو ہوں گے لیکن اُن کے پَر کٹے ہوں گے۔سندھ جناب زرداری کے حوالے ہو گیا تھا‘بلوچستان میں ویسے ہی ڈالوں کی حکمرانی تھی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کچھ تھی اور کچھ نہیں تھی۔خیبرپختونخوا کا کچھ کیا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ بیشتر پختون قوم خان کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔اب تو سارا کچھ مولانا فضل الرحمن نے بیان کر دیا ہے کہ جب وہ اپنا لشکر اسلام آباد لائے تھے تو اُنہیں یقین دلایا گیا تھا کہ خان کی چھٹی کرا دی جائے گی۔اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے ساتھ وعدہ خلافی ہوئی اور اُس وقت خان کو نہیں ہٹایا گیا۔پچھلے سال اپریل میں جب ملتوی آپریشن پھر شروع کیا گیا تو اس یقین کے ساتھ کیا گیا کہ عدمِ اعتماد کا ووٹ پاس ہوگا اور سیاسی طور پر عمران خان ختم ہو جائے گا۔اور پھر حکومت ہمارے تابعدار بندوں کی ہوگی جو وہ کریں گے جو اُنہیں بتایا جائے گا۔ غلطی وہاں سے شروع ہوئی کیونکہ ایک تو خان ڈٹ گیا اور دوسرا عوام کا ایک بہت بڑا حصہ اُس کے ساتھ ہو گیا۔ معیشت تباہ ہونے لگی اور حالات نہ مہربانوں کے ہاتھ میں رہے نہ اُن کے کارندوں کے۔اور خان پھر وہ کہنے اور بولنے لگا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ عوام نے یہ للکار کی باتیں سنیں تواُن کے ذہن کھل گئے اورزبانیں بھی کھل گئیں جس کی وجہ سے عوامی سطح پر وہ کچھ کہا جانے لگا کہ کم از کم پنجاب میں پہلے کبھی نہ سنا گیا تھا۔
اس بھول میں کوئی نہ رہے کہ پاکستان کی فکر کسی کو ہے۔عام آدمی کی بات نہ کریں‘ اُن کو آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے لگا دیا جائے تووہاں سارا سارا دن خوار ہوتے رہتے ہیں۔بات ہے کرتے دھرتوں کی اور اُن کی نظریں لوٹ پر لگی ہوئی ہیں۔غریب تو مزدوری کیلئے باہر جانا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کیلئے یہاں کچھ نہیں لیکن جو ا میر کبیرہیں‘ اُن کے دلوں میں یہی خیال ہے کہ مال بنا کر باہر سیٹل ہونا ہے۔ ملک کا کیا بنے گا‘ اس کا مستقبل کیا ہے‘ یہ سب کہانیاں لگتی ہیں۔صرف ایک آدمی ہے جو ملک کی بات کررہا ہے اور جس کی کوئی جائیداد باہر نہیں ہے اور وہ اس لیے ان سب کو کھٹکتا ہے کہ ان کے دلوں میں ڈر ہے کہ عوام کی سپورٹ کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آ گیا توہمیں مشکل پڑ جائے گی۔ اصل میںتو یہ کچھ یہاں ہو رہا ہے اور وی لاگروں کو سلام کہ اَن کہی باتیں ہم تک پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔