گاؤں میں چھوٹا سا جو میرا باغ ہے‘ اُس میں اس دفعہ خوب گل کھلے ہیں۔ اس طرح کے گلاب کبھی پہلے نہیں ہوئے۔ تھوڑے سے جو مالٹے اور کینو کے درخت ہیں‘ اُن پر فروٹنگ بہت اچھی ہوئی ہے اور امید ہے اڑتے کیڑوں کے حملوں سے بچے رہیں تو صحیح پھل ہوگا۔ عید کی تیاری کے ضمن میں جو سامان لاہور سے لانا تھا‘ وہ لا چکے‘ لہٰذا جو شامیں یہاں گزرنی ہیں اُن میں اشیائے ضروریہ کی کمی کا اندیشہ نہیں۔ موسم بھی بہت خوشگوار ہے‘ اس لیے عید کے دن اچھے گزرنے چاہئیں‘ لیکن کیا کریں دل بوجھل ہے کیونکہ حالات دیکھیں تو اپنے سمیت سارے نکمے جو اس ملک کی تقدیر کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں‘ ان کو دیوار کے ساتھ کھڑا کرنے کا جی چاہتا ہے۔
اس ملک کا علاج تو یہ دیوار والا ہی ہے لیکن یہ بھی معلوم ہے کہ یہ دھرتی ایسے سخت انجاموں کیلئے نہیں بنی۔ ہم لوگ جو ہیں‘ ہر چیز برداشت کر لیں گے‘ غربت اور پسماندگی سے لے کر بے عزتی اور ذلت تک لیکن ہم نے کچھ کرنا نہیں۔ میری عمر کے لوگوں نے اس ملک کو بتدریج تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ ایک طویل فہرست نکموں کی ہم نے بھگتی ہے۔ جنرل ضیا الحق کے کرشمات دیکھے‘ افغان جہاد کے نعروں کی گونج سنی لیکن ہم نے کیا کیا؟ کرنا تو تب تھا کہ ہم صحیح طور پر سمجھ سکتے کہ ہو کیا رہا ہے‘ لیکن فضول جنگوں میں قدم رکھا‘ یہ سوچے سمجھے بغیرکہ ان کے نتائج کیا ہوں گے۔ افغان جہاد کے چاچے اور مامے بن گئے اور اس مشق میں اپنی تباہی کا سامان پیدا کر لیا۔ آمروں کی تعریف کی‘ اداروں کو سرکا جھومر بنایا کیونکہ اجتماعی طور پر ہم تھے ہی پرلے درجے کے بیوقوف۔ جمہوریت کی باتیں تو بہت کیں لیکن ہر موڑ پر جمہوریت کو ایسی گزند پہنچائی کہ بس اس تصور کی مردہ حالت ہی باقی رہ گئی ہے۔
عید کے موقع پر ایسی باتیں کرنی نہیں چاہئیں لیکن خیال اس طرف جاتا ہے کہ جو ہم اپنے ساتھ کر رہے ہیں‘ وہ دیگر ممالک نے بھی اپنے ساتھ کیا اور اپنے کیے کی پھر سزا بھی بھگتی۔ تاریخ کی بات نہیں کر رہا‘ ہم عصر زمانے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ نظرِبد لگنے سے پہلے افغانستان کتنا سہانا ملک ہوا کرتا تھا لیکن افغان قوم پر بیوقوفی سوار ہوئی اور پھر سلسلۂ تباہی نے بند ہونے کا نام نہ لیا۔ عراق کی قسمت کو دیکھئے‘ صدام کی آمریت کے باوجود خوشحال ملک تھا اور پھر امریکی اس پر چڑھ دوڑے اور انہوں نے وہ کیا جو اپنے زمانے میں منگولوں نے بغداد کے ساتھ کیا تھا۔ لیبیا تیل کی بدولت امیر ملک تھا اور پھر اس کی قسمت نے بھی انگڑائی لی اور ہمارے سامنے وہ ملک تباہ ہو گیا۔ مغربی طاقتیں شام کے ساتھ بھی یہی کچھ کرنا چاہتی تھیں لیکن ایک تو صدربشارالاسد مضبوط اعصاب کا مالک ثابت ہوا اور پھر روس اور ایران اس کی مدد کو آئے۔ شام کو بچانے میں حزب اللہ نے بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ 1970ء کی دہائی تک صومالیہ مستحکم ملک تھا اور پھر اس کی قسمت بھی خراب ہوئی اور آج تک سنبھل نہ سکی۔ سوڈان تو آج کل خبروں میں ہے اور وہاں سخت قسم کی خانہ جنگی جاری ہے۔ تیس سال تک سوڈان کا سربراہ عمرالبشیر تھا۔ اس کی طویل اور کرپٹ حکمرانی سے سوڈان کے عوام تنگ آئے تو اُٹھ کھڑے ہوئے۔ وہاں کے لوگوں کو امید تھی کہ آزادی اور خوشحالی ملے گی لیکن تحفے میں انہیں دو جرنیل ملے جو آپس میں کچھ طے کر نہ سکے اور اب خانہ جنگی میں مصروف ہیں۔ جنوبی سوڈان پہلے ہی باقی سوڈان سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں مسئلہ کرپٹ حکمران طبقے کا ہے‘ سوڈان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ سوڈان کے بارے میں ہمیں جانکاری حاصل کرنی چاہیے کیونکہ وہاں کے حالات عبرت کی ایک داستان ہیں کہ جب حکمران طبقات کسی معاشرے کے بنیادی مسائل حل نہ کر سکیں تو پھر انجام یہ ہوتا ہے۔
ہم تھوڑے کم عمر تھے تو یوگوسلاویہ بڑا مضبوط ملک ہوا کرتا تھا۔ وہاں کے حکمران مارشل ٹیٹو عالمی شہرت رکھتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد یوگوسلاویہ‘ جو ہماری طرح مختلف قومیتوں پرمشتمل تھا‘ بکھرنے لگا اور آخرکار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ اور سوویت یونین کے ساتھ کیا ہوا‘ وہ ڈرامہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے کھیلا گیا۔ عام ملک نہیں تھا‘ ایک سپر پاور تھا‘ امریکہ کے برابر ایٹمی قوت رکھنے والا۔ سیاسی اور معاشی مسائل سوویت یونین میں تھے لیکن ان کی نوعیت ایسی نہ تھی کہ حل نہ ہو سکیں۔ لیکن وہاں ایک نکموں کا ٹولہ‘ جس کے سرکردہ رہنما میخائل گوربا چوف تھے‘ اقتدار میں آیا اور اس ٹولے نے ایسے اقدامات اٹھانا شروع کیے کہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ اقتدار کا محور کمیونسٹ پارٹی تھی اور گوربا چوف اور ان کے ساتھیوں نے اس محور کو کمزور کرنا شروع کیا۔ یہ لوگ امریکہ سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھے اور فضول فضول باتوں میں امریکہ کے نیچے لگنے لگے اور اس میں اُس حد تک گئے کہ امریکی خود حیران ہو گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
ہم پاکستانی جو بات بات پر کہتے ہیں کہ فلاں کی وجہ سے یہ ملک اکٹھا ہے‘ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ بڑی خطرناک گفتگو ہے۔ سوویت یونین کے ادارے ہم سے کہیں زیادہ طاقت رکھتے تھے لیکن ملک کو متحد نہ رکھ سکے۔ کسی معاشرے میں اندرونی طاقت نہ ہو تو بیرونی نمائش سے کیا بنتا ہے؟ اور یہ بھی ہے کہ کسی ملک یا معاشرے میں خود اعتمادی کا فقدان پیدا ہونے لگے تو طاقتور سے طاقتور اداروں کی قوتِ فیصلہ کمزور پڑ جاتی ہے۔ سوویت یونین کے طاقتور ترین ادارے تین تھے: کمیونسٹ پارٹی‘ مسلح افواج اور سراغ رسانی کا ادارہ کے جی بی۔ جب ملکی سالمیت کو خطرات لاحق ہوئے تو یہ تینوں ادارے قوتِ فیصلہ سے محروم ہو گئے۔ جب کچھ کرنے کی ضرورت تھی‘ کچھ کر نہ سکے۔ اس کے برعکس جب 1989ء میں چین میں ملتی جلتی صورتحال پیدا ہوئی تو ڈِنگ یاؤپنگ کی زیر قیادت چینی کمیونسٹ پارٹی نے سخت فیصلہ کیا اور نام نہاد جمہوری موومنٹ کو کچلنے کیلئے ٹائن این مین سکوائر میں فوجی ٹینکوں کو بھیجا۔ ظالم فیصلہ تھا اور بیجنگ میں بہت خون بہا لیکن چینی قیادت وہ نہ کرتی تو چین کا حشر سوویت یونین جیسا ہونا تھا۔
اس قسم کی تحریک ہمارے ہاں موجود نہیں۔ یہاں ایک قسم کی معاشرتی افراتفری ہے جو کہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ساتھ ہی قیادت کا فقدان ہے اور جنہیں ہم طاقت کا محور کہہ سکتے ہیں‘ ان کے بارے میں یہ زعم نہیں رکھا جا سکتا کہ ان کا ویژن گہرا یا وسیع ہے۔ اسی لیے حالات جو ایک سال پہلے تک نارمل تھے‘ غیرمعمولی حد تک بگڑ چکے ہیں۔ پھر نکما پن اتنا ہے کہ کسی چیز پر گرفت ہی نہیں‘ معاشی حالات تباہ کن نہج تک پہنچ چکے ہیں اور عوام مہنگائی کے نیچے دبے جا رہے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ تباہی کا عمل معاشروں میں شروع ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ حکمران طبقات آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے ہیں۔ جیسے نیند میں انسان چلتا ہے‘ وہ ایسے چلتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ ایسی کیفیت بن چکی ہے۔ یہ بھی ہے کہ حالات کا ادراک کسی کو نہیں۔ جنہیں ملکی کاروان کو سمت دینی چاہیے‘ فضول کی لڑائیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ سوڈان کی خانہ جنگی میں دونوں فریقوں کے لیڈروں نے خوب مال بنایا ہے۔ سوڈانی معاشرہ تباہ حال ہو گیا ہے لیکن دونوں لیڈروں نے اپنا سب کچھ ٹھیک کیا ہوا ہے۔
بتائیے پھر عید کیسے منائیں۔ شام کو بیٹھ جائیں گے راحت کے اسباب ڈھونڈنے‘ اداس شام کے سایوں کو مزید گہرا کرنے کیلئے کچھ موسیقی سن لیں گے لیکن یہ احساس دل کو کھائے جائے گا کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ اس ملک کی صورت میں تاریخ نے ہمیں جو ایک موقع دیا اس کے ساتھ جو وفا کرنی چاہیے تھی‘ کر نہ سکے۔