پچھلے دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے اُن کے بارے میں بہت سارے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ پہلے پہر چند خواتین ہی کورکمانڈر ہاؤس لاہور کے سامنے اکٹھی ہوئی تھیں۔ مجمع بڑھنے لگا تو آہستہ آہستہ اور جو لوگ اندر گھسے اُن کی تعداد کوئی اتنی زیادہ نہ تھی۔ اندیشہ ہونا چاہیے تھا کہ جس انداز سے عمران خان کی گرفتاری اسلام آباد میں ہوئی اُس کا منفی ردعمل ہو سکتا ہے۔ البتہ اس اندیشے کے پیش نظر مناسب سکیورٹی انتظام نظر نہ آئے‘ نہ لاہور میں نہ راولپنڈی میں۔ لیکن اس بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ملک کے حالات پہلے بھی ہر لحاظ سے خراب تھے اور اب تو بیگاڑ بہت بڑھ چکا ہے۔ جلتی پہ تیل چھڑکنے سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں‘ بہتر نہیں۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ جس طرف ملک جا رہا ہے یا اُسے لے جایا جا رہا ہے‘ اس عمل کو روکا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ روکنے والا کوئی نہیں۔ کس کس کا نام لیں‘ کئیوں کا نام لیا بھی نہیں جا سکتا‘ لیکن ہر کوئی حالات کو مزید خراب کرنے میں لگا ہوا ہے۔ پہلے زمانوں میں ادارے ثالث کا کردار ادا کرتے تھے‘ اب جن کو ثالث ہونا چاہیے تھا‘بدقسمتی سے ان کو فریق بنا دیا گیا ہے اور ہرگزرتے دن اُن کی طرفداری اور تعصب بڑھتے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے حالات کو ٹھنڈا کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جیسا ہم دیکھ رہے ہیں‘ حکومت اور اُس کے مختلف اتحادیوں کی تمام توپیں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ عقل یا سمجھداری کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں۔ ہر ایک اُسی کو اچھا سمجھتا ہے جو اُس کی ہاں میں ہاں ملائے اور اُس کے ساتھ کھڑا ہو۔ باقی تمام دشمن ہیں۔
کورکمانڈر کانفرنس کے بعد عوام کا حوالہ دیا گیا کہ عوام کی حمایت کے ساتھ حالات پر قابو پا لیا جائے گا اور بہتری کی طرف راستے نکلیں گے۔ کسی بھی جمہوریت میں عوام کا مطلب عوام سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ یعنی دیکھا جائے کہ عوام کی رائے کیا ہے اور عوام کی رائے انتخابات ہی کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔ یہاں مسئلہ ہی انتخابات بنے ہوئے ہیں کیونکہ لگتا ہے قسم اٹھا لی گئی ہے کہ جو کچھ ہو‘ انتخابات نہیں کرانے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ انتخابات سے فرار کیوں اختیار کیا جا رہا ہے۔ عمران مخالف جماعتوں کو ڈر ہے کہ انتخابات کا میدان عمران خان مار جائے گا۔ یہ اندازے غلط یا درست ہو سکتے ہیں لیکن یہ ڈر موجود ہے اور اسی ڈر نے سیاسی عمل کو روکا ہوا ہے۔ اس صورتحال کا کیا علاج کیا جائے؟
سیاسی جماعتوں کو ممکنہ انتخابی نتائج کا ڈر ہو تو بات سمجھ آتی ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جن کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے‘ بقول عمران خان وہ انتخابات کے ممکنہ نتائج سے خائف ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ سیاسی عمل آئینی تقاضوں اور سیاسی کرداروں پر چھوڑا جانا چاہیے۔ دوسروں کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔جیسے سیاسی جماعتوںکا کام توپیں یا ٹینک چلانا نہیں‘ ویسے ہی دوسرے جو ہیں اُن کا کام سیاسی مداخلت یا انجینئرنگ نہیں۔ بس یہ تفریق پاکستان میں کبھی کسی کو سمجھ نہیں آئی اور جن کا کام سیاست میں مداخلت کرنا نہ تھا اُنہوں نے ہمیشہ جسے وہ قومی مفاد سمجھتے تھے‘ اُس کا رکھوالا اپنے آپ کو سمجھا اور اس ناتے سیاسی امور میں مداخلت اُنہوں نے اپنا حق سمجھا۔ اس سو چ سے ملک کو کیا نقصان اٹھانا پڑا‘ وہ ہم سب جانتے ہیں۔ ایک نارمل ملک کے طور پر ہمارا ارتقا ہی نہیں ہو سکا۔ بطورِ قوم ہمیں غلط راستوں پر ڈالا جاتا رہا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جن کو سیاسی فیصلے کرنے چاہیے تھے یا تو اُن کا معیار ہی اتنا نہ تھا یا دانستہ طور پر اُن کو بیکار کر دیا گیا۔ اور جن کو سیاست سے دور رہنا چاہیے تھا‘ وہ فیصلہ سازی کے مدارالمہام بن گئے۔
قومی غلطیوں کی فہرست لمبی ہے‘ دہرانے سے کیا فائدہ؟ ایک مثال دینا ہی کافی ہے۔ 1971ء میں انتخابی نتائج اور آئینی تقاضوں سے رُوگردانی کی گئی۔ عوامی لیگ اور مشرقی پاکستان کے عوام کو اُن کا حق نہ دیا گیا اور قوم کو خانہ جنگی کے راستے پر ڈال دیا گیا۔ 1971ء میں جو حالات مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے‘ وہ خانہ جنگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے اُس المیے سے کچھ سیکھا؟ جتنا بھی کریدیں‘ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بطورِ قوم اور بطورِ مملکت ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ 1971ء کے تجربے کے بعد کم از کم ایک بات پر تو قومی اتفاقِ رائے بننا چاہیے تھا کہ جو بھی ہو‘ جیسے بھی ملک میں حالات رونما ہوں‘ ملک کسی طالع آزمائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن 1977ء کا سیاسی تعطل بنا تو طالع آزمائی کا ایک ایسا تجربہ شروع ہوا جس نے قوم اور قومی مزاج کو سو سال پیچھے دھکیل دیا۔ اُس دورِ طالع آزمائی کے اثرات آج تک قوم پر موجود ہیں۔ ہچکولے کھاتے ہوئے جمہوریت کا سفر پھر سے شروع ہوا تو 1999 ء کی طالع آزمائی پر ختم ہوا۔ وہ دور گزرا تو شوقِ سیاسی انجینئرنگ ختم نہ ہوا۔لولی لنگڑی ہی سہی جمہوریت تو تھی اور اس جمہوریت کا پہلا تقاضا یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھے اور مختلف محکموں کو توسیع کی مہلک بیماری سے پاک رکھا جائے‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔دیگر بحران اپنی جگہ مگر آج جس بحران کا ملک کو سامنا ہے اُس کی ایک بڑی وجہ قمرجاوید باجوہ کی توسیع تھی۔ توسیع حاصل کر چکے تو ہر معاملے میں ٹانگ اڑانے لگے۔ اُس سے حالات بگڑتے گئے اور پھر پچھلے سال اپریل کا شاخسانہ رجیم چینج کی صورت میں رونما ہوا جس کی قیمت قوم آج تک ادا کر رہی ہے۔
رجیم چینج غیرضروری تھی یا ناگزیر‘ اس بحث کو رہنے دیجئے۔ البتہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ رجیم چینج کے بعد جو ملکی حالات پیدا ہوئے اُس پر لائی گئی حکومت کنٹرول نہ کر سکی‘ نتیجتاً ہرلحاظ سے پاکستان نیچے کی طرف جاتا رہا۔ آج ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے نہیں ہیں‘ وہ لائن ہم عبورکر چکے ہیں۔ اس تباہی کے پراسیس کو روکنا ہے یا نہیں؟ یا ہم نے اپنی چھوٹی چھوٹی ضدوں پر قائم رہنا ہے؟ اربابِ اختیار ایک سوال کا جواب تو دیں۔ کیا عام انتخابات سے کوئی چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں اور اگر آئین کو قائم رکھنا ہے تو خدارا اعلیٰ عدلیہ کے خلاف جنگ بندی کا اعلان کریں اور سب فریقین کو میز پر بلائیں۔ عمران خان کا فوری انتخابات کا مطالبہ نہ مانا جائے لیکن اگر آئینی تقاضے قائم رکھنے ہیں تو اس سال کے کسی نہ کسی مہینے میں انتخابات تو کرانے پڑیں گے۔ حالیہ دنوں کے واقعات کی پاداش میں البتہ یہ لگ رہا ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کوکچلنے کی مہم پورے زوروشور سے جاری ہے۔پولیس کی من مانیاں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس ہوا میں اُڑ چکا ہے۔ خواتین کی عزت کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ وہ زمانے بھی تھے جب جوڈیشل ریمانڈ کا کچھ بھرم تھا‘ اب تو جو اٹھائے جا رہے ہیں‘ بہت سے ہیں جن کو نامعلوم مقامات پر لے جایا جاتا ہے۔ ان سب واقعات کے پیچھے کون ہے؟ پولیس سٹیٹ اور کسے کہتے ہیں؟ یہ ساری روشیں جو پیدا ہو چکی ہیں‘ بڑی خطرناک ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بربریت کا ایک نیا عنصر پیدا ہو رہا ہے۔ایسے ہتھکنڈوں سے حاصل کیا کرنا ہے؟