عمران خان سے غلطیاں ہوئیں‘ بلنڈرز ہوئے۔ وہ ہو چکے اور اب واپس نہیں آسکتے لیکن یہ قریشی مارکہ سیاست‘ جو مبینہ طور پر کمپرومائز پر مائل کررہی ہے‘ یہ تو کوئی آپشن نہ ہوا۔ آج پی ٹی آئی کو برے وقتوں کا سامنا ہے‘ پارٹی پر دباؤ ہے‘ اَن گنت ورکرز اندر ہیں اور صعوبتیں برداشت کررہے ہیں‘ جو لیڈر ہیں ان کو بھی اندر سخت حالات کا سامنا ہے لیکن اس سب کے باوجود پارٹی کا نام قائم ہے‘ اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے‘ ختم نہیں ہوئی۔ لیکن آج قریشی مارکہ سیاست کی بات عمران خان مان جائے تو یوں سمجھئے کہ نہ پارٹی رہے گی نہ کوئی عزت بچے گی۔
کمپرومائز کا وقت پہلے تھا۔ عمران خان اپنے ممبرانِ قومی اسمبلی سے نہ کہتے کہ اسمبلی سے نکلیں۔ وقت کا انتظار کرتے‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑنے کا تصور بھی نہ کرتے۔ جلسے ضرور کرتے لیکن پچھلے سال 25مئی کو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ 25مئی کا مارچ ایک بلنڈر تھا۔ اس وقت ہوش کے ناخن لینے کا وقت تھا لیکن عمران خان اپنی جنگجویانہ راہ پر چلتے رہے اور پارٹی کے بیچ میں سے انہیں کسی نے نہ روکا۔ یہ جن کے اب ضمیروں نے کروٹ لی ہے تب کھڑے ہوکر کچھ بولتے اور عمران خان کے منہ پر کہتے کہ تم حماقت کر رہے ہو۔ تب تو یہ سارے مجاہدینِ ضمیر‘ خان کی عوامی مقبولیت سے خائف تھے‘ بولنے کی ہمت نہ تھی۔ لیکن اب جب سب نقصان ہو چکا ہے‘ کسی قسم کی سیاسی لچک سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گی۔
پی ٹی آئی کا اثاثہ اس کے نام نہاد لیڈران نہیں ہیں۔ یہ عمران اسماعیل‘ فواد چودھری اور دیگر جن کے ماتھے آستانۂ طاقت پر ٹکے ہیں‘ ان کے آنے جانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ عامر کیانی جیسا کوئی رہے تو پارٹی کا نقصان‘ چلا گیا ہے تو پارٹی کیلئے بہتری ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کا اثاثہ تو اس کے ورکرز ہیں۔ وہ اب بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کھڑے تھے۔ پولیس کے چھاپوں کے ڈر سے ان کے لب بند ہو گئے ہوں گے لیکن ان کی وفاداریاں نہیں بدلیں۔ وفاداریاں تو ممبرانِ اسمبلی کی بدلتی ہیں‘ مصلحت کا شکار وہ ہوتے ہیں‘ نفع و نقصان کا ترازو انہوں نے ہمیشہ ہاتھ میں تھاما ہوتا ہے‘ گرفتاریوں سے وہ ڈرتے ہیں۔ بیچارے ورکروں نے زمان پارک یا کسی اور آستانے سے کیا لینا ہوتا ہے۔ وہ تو ایک سحر کے اسیر ہوتے ہیں یا ایک جنون میں مبتلا۔ اُن کا جذبہ خالص ہوتا ہے‘ وہ کوئی ٹکٹ کے امیدوار نہیں ہوتے۔ انہیں تو کوئی زمان پارک کے اندر جانے نہ دے‘ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ عمران خان کے ارد گرد کہیں بیٹھیں گے۔ حاضریاں دینے والے اور لوگ ہوتے ہیں‘ درباری ذہنیت رکھنے والے‘ جو سب کام چھوڑ کے حاضریاں دیتے پھرتے ہیں‘ نون لیگ والے رائیونڈ کے آستانے پر‘ پی ٹی آئی کے بیچارے ورکر زمان پارک کے کہیں اردگرد۔ آج عمران خان ایک قدم کمپرومائز کی طرف چلے تو ٹکٹوں کے امیدوارو ں کو کچھ نہ ہوگا لیکن پی ٹی آئی کے جنونی ورکروں کے دلوں پر ایک بم گر ے گا۔ ان کی دنیا غرق ہو جائے گی‘ تصورات کے تمام محل خاک میں مل جائیں گے۔
پاکستانی سرزمین پر اگر کوئی وافر چیز موجود ہے تو و ہ عہدوں اور ٹکٹوں کے خواہش مند ہیں۔ اس دھرتی پر ان جیسوں کی کوئی کمی نہیں۔ کمی ہے تو جانثار ورکرو ں کی‘ ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ یہ کوئی کوئی لیڈر ہوتا ہے جس کے پیچھے عوام ہو جاتے ہیں‘ جو عوامی امنگوں کا محور بن جاتا ہے۔ ذوالفقا رعلی بھٹو ایسے لیڈر تھے‘ ان کی خامیاں گننے بیٹھیں لمبی فہرست بن جاتی ہے لیکن اپنے زمانے میں عوام کے ایک بہت بڑے حصے کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ ان کے جلسے ہوتے تھے تو کیا کیفیت اُن میں طاری ہوتی تھی۔ تختۂ دار پر چڑھ گئے لیکن آج بھی ان کا نام زندہ ہے۔ جماعت ان کی پتا نہیں کن سوداگروں کے ہاتھوں آگئی ہے لیکن پاکستانی تاریخ میں بھٹو کا مقام منفرد ہے۔ نواز شریف شروع میں خالصتاً مقتدرہ کی پیداوار تھا لیکن بعد میں مقبول لیڈر بن گیا۔ پنجاب میں اس کا طوطی بولتا تھا لیکن سیاسی مصلحت کی راہ پر چلا تو عوامی مقبولیت کی وہ بات نہ رہی۔ آج بھی اچھی خاصی تعداد میں نون لیگ کے ممبرانِ اسمبلی ہیں لیکن نون لیگ کی جو عوامی مقبولیت ہوا کرتی تھی اس کے زور میں اب کمی آ چکی ہے۔ بیس سال پہلے عمران خان جوان تھا‘ کرکٹ کپتانی کی یاد اس کی تازہ تھی‘ شوکت خانم ہسپتال بنایا ہوا تھا لیکن سیاست میں قدم رکھا تو اسے کوئی پوچھتا نہ تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں کئی جگہ سے کاغذات داخل کیے لیکن ہر سیٹ پر بری شکست کا سامنا ہوا۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور سیاسی دشت میں اپنا سفر جاری رکھا۔ مقبولیت آئی تو اس کی بڑی وجہ اپنی ذات نہ تھی بلکہ سیاست کے دوسرے کھلاڑیوں کی کمزوریاں تھیں۔ لوگوں نے جب باقی شہسواروں کا کھوکھلا پن دیکھا تو ان کے ارادے پی ٹی آئی کی طرف مائل ہوئے۔یہ درست نہیں کہ مقتدرہ نے عمران خان کو آگے کیا۔ عمران خان میں کچھ تھا تو وہ آگے ہونے کے قابل نکلا۔
یہ بھی ہے کہ دورِ حکمرانی میں عمران خان کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی۔ یہ جو آج کی مقبولیت ہے یہ تو ساری کی ساری اقتدار سے نکالے جانے کے بعد کی ہے۔ جس طرح سے بھی نکالا گیا آگے سے یہ ڈٹ گیا۔ اس کی یہ ادا لوگوں کو پسند آئی اور لوگ اس کے پیچھے ہو لیے۔ آج پھسلتا ہے‘ قدم تھوڑے اس کے ڈگمگاتے ہیں‘ قریشی مارکہ سیاست کا شکار ہو جاتا ہے تو سمجھیے ایک جھٹکے میں بہت کچھ کھو بیٹھے گا۔ ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے خان عبدالقیوم خان بڑا عوامی لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ مارشل لاء لگا تو اُسے اندر کر دیا گیا‘ جیل برداشت نہ کر سکا اور ایوب خان کو ایک خط لکھ مارا کہ صحت خراب ہے وغیرہ وغیرہ۔ بس اُس خط کا لکھنا تھا اور قیوم خان کی عوامی مقبولیت ہوا میں اُڑ گئی۔ برا وقت آیا ہے لیکن برا وقت گزر بھی جاتا ہے۔ فیضؔ صاحب کا وہ کیا لازوال شعر ہے:
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
یہ جو استحکامِ پاکستان پارٹی بنی ہے‘ جہانگیر خان ترین کی وہ فوٹو دیکھی جس میں اڑان بھرنے والے ممبران ان کے ساتھ کھڑے ہیں تو میری ہنسی نکل گئی۔ ایسی پارٹیاں پہلے بھی بنتی رہی ہیں اور ان کا انجام بھی ہم نے دیکھا ہے۔ ضیاء الحق دور میں پیپلز پارٹی پر برا وقت آیا تو ایسی استحکام پارٹیاں تب بھی بنیں۔ غلام مصطفی جتوئی نے ایک پارٹی بنائی‘ مولانا کوثر نیازی اس زمانے میں کمپرومائز کی سیاست کے فضائل بیان کرتے تھے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ان پرانی استحکام پارٹیوں کی یاد کسی کو نہ رہی۔پرویز مشرف کے زمانے میں سردار فاروق لغاری نے ملت پارٹی کی بنیاد رکھی جس کے سیکرٹری جنرل ہمارے پرانے دوست جاوید جبار تھے۔ آج کسی کو یاد بھی ہے کہ ایک ملت پارٹی ہوا کرتی تھی؟
بس یہ وقتی باتیں ہوتی ہیں۔ تھوڑا سا دباؤ پڑا تو سیاستدان ڈر جاتے ہیں اور غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ پھر پچھتاتے ہیں کہ ہم سے کیا غلطی سرزد ہو گئی۔ میں پھبتی نہیں کس رہا لیکن یہ جو سارے سیاستدان‘ جنہوں نے اڑان بھری ہے‘ یہ ایک بوجھ کی مانند تھے۔ ان کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پکے اور جانثار ورکر تو ساتھ ہیں۔ ان کا نام کیا لینا‘ وہ جو مرد و خواتین آج جیلوں کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں‘ پی ٹی آئی کا اثاثہ وہ ہیں۔ ایک الیکشن پی ٹی آئی کے ہاتھ سے جاتا ہے تو کیا ہوا‘ دُور کے مقاصد پر نظر ہونی چاہیے۔