ایک وقت تھا کہ زور آزمائی کرنے والی سرکاروں کو لاٹھی گولی کی سرکار کہا جاتا تھا۔زمانہ نفیس ہو گیا ہے اب ایسی اصطلاحیں استعمال نہیں ہوتیں‘ لہٰذا زورآزمانے والی اصطلاح کو ہی کافی سمجھا جائے۔یہ جمہوریت نام کا مرض ہمارے مزاج کے مطابق نہیں‘ ڈنڈے والی سرکاریں ہی ہمارا معمول رہی ہیں۔لہٰذا جو رویے ان میں روا رکھے جاتے ہیں ہمارے لیے انوکھے نہیں‘ہم ان سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن ڈنڈے والی سرکاروں کی ایک خصوصیت نمایاں ہو تی ہے کہ شروع کے دنوں میں رعب داب بہت ہوتا ہے اور لوگ سہمے سہمے رہتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ رعب اور ڈر کم ہو تا جاتا ہے۔پھر اُس رعب کا وہی ہوتا ہے جو غالب کی جوانی کے ساتھ ہوا‘ مارا زمانے نے اسداللہ خان تمہیں /وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی۔
اس لیے ہماری رائے ہے کہ یہ جو نیا نیا لاٹھی ڈنڈے کا اثر ہے‘ اسی میں انتخابات کرالیے جائیں تو حضور کی شان کیلئے زیادہ بہتر ہوگا نہیں تو وقت کچھ گزر گیا‘ رعب اور ڈر دونوں ڈھیلے پڑنے لگے توجو دل تھوڑے سہمے سہمے ہیں اُن سے ڈر اور خوف اُتر جائے گا۔ظاہر ہے حضور جو چاہیں گے وہی ہوگا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے دماغ تھوڑے سرکش اور باغیانہ ہو جاتے ہیں۔یہ قدرتی امر ہے اور ہرجگہ ایسے ہی ہوتا ہے۔پھر نہ کوئی کسی کو خاطر میں لائے گا نہ پروا کرے گا۔ایسا بھی دیکھنے میں آئے گا کہ جن پرندوں نے پی ٹی آئی کی شاخو ں سے اڑان بھری وہ کہتے سنائی دیں گے کہ ہم گئے تو ہوں گے لیکن ہمارے دل یہیں اٹکے ہوئے تھے‘ لہٰذا یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم کبھی گئے ہی نہ تھے۔جہاں تک نون لیگ کا تعلق ہے اُسے پرانے حساب کتاب پر ہی گزارا کرنا پڑے گا‘ یعنی جو اُس کا حلقۂ اثر ہے وہی رہے گا‘ اُس میں کوئی اضافہ نہ ہوگا۔ایک اور چیز کا بھی خدشہ ہے کہ جو اشخاص لاٹھی ڈنڈے کے خوف سے روپوش ہو گئے ہیں اُن کی ہٹ دھرمی کچھ زیادہ بڑھ جائے گی۔جن خواتین ورکروں اور رہنماؤں نے ابھی تک پریس کانفرنسوں کی افادیت کو نہیں سمجھا پنجاب کے عوام اُنہیں ہیروکی مانند دیکھنے لگیں گے۔ہمیں تو اب بھی ڈر ہے کہ یہ جو چند خواتین کوٹ لکھپت میں بند ہیں‘ ان کی ابھی سے لوگوں کے دلوں میں خاصی پذیرائی ہو رہی ہے۔جب یہ باہر آ جائیں گی اور فتح کے نشان لہرارہی ہوں گی‘ پھر کیا ہوگا؟ کہیں ان میں سے کسی کو پارٹی ٹکٹ مل گیا پھر یہی کہہ سکتے ہیں‘ الامان الحفیظ۔
ہم تو کمزور دل ٹھہرے‘ ہمارے ناتواں دل میں یہ دھڑکا لگا بیٹھا ہے کہ وہ حشر جو نون لیگ کے ساتھ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہوا تھا‘ اُس سے کہیں بڑا سانحہ نون لیگ کے ساتھ نہ ہو جائے۔ہمارے کچھ یار دوست تھے جنہیں یہ سبق پڑھایا گیا تھا کہ ضمنی انتخابات کی بیس سیٹوں میں سے بارہ تو نون لیگ کی جیب میں پہلے سے ہی ہیں اس لئے گنتی بارہ سے شروع کی جائے۔یہ انتخابات سے دو شامیں پہلے کی بات ہے۔انتخابات کے روز نتائج آنے لگے تو چہرے پھر دیکھنے چاہئے تھے۔ ہمارے یہ دوست ایسے غائب ہوئے کہ ہماری نظریں پریشان ہو گئیں۔اب جبکہ ڈالوں اور پنجاب پولیس کے رعب کااثر فریش فریش ہے اور جہانگیرترین وغیرہ کارکردگی دکھانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں‘انتخابات منعقد کرالیے جائیں تو کچھ مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔الیکشن کا اعلان ہو اور امیدواران اپنے کاغذات داخل کریں تو پی ٹی آئی کے مؤثر امیدواروں کو بآسانی کسی نہ کسی ایف آئی آر میں اندر کیا جاسکتا ہے۔
اس میں کیا مضائقہ ہے‘ کسی نے کاغذ داخل کیے اور واپس آتے ہی اُسے کسی پرچے میں اندر کر دیا جائے۔ یہ احتیاط البتہ کرنی پڑے گی کہ کہیں جن کو اندر کیا جاتا ہے اُن کو اندر رہتے ہی ووٹ نہ پڑ جائیں۔ 1970ء میں ایسا ہوا تھا۔ مولاناکوثر نیازی گرفتار تھے اور سیالکوٹ کے کسی حلقہ سے اُن کے کاغذات نامزدگی داخل کیے گئے تھے۔ بیٹھے بیٹھے ساٹھ ستر ہزار کی لیڈ سے وہ الیکشن جیت گئے۔نہ مہم چلانی پڑی نہ ٹکا‘ دھیلا خرچنا پڑا۔الیکشن ہو تو ایسا ہو۔کہیں ایسا پھر نہ ہو جائے۔ لہٰذا یہ احتیاط لازم ہوگی کہ پی ٹی آئی کے تگڑے امیدواروں کو پہلے سے ہی اٹھا لیا جائے تاکہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ یہ تدبیر بہتر لگتی ہے۔لیکن یہ سب کچھ آج کل کے ماحول میں تو کیا جاسکتا ہے‘ بات کہیں اس سال کے آخر یا اگلے سال تک پہنچ گئی تو پھر ایسے نیک کام بآسانی نہ ہوسکیں گے۔
وقتی طور پر تو لوگ دبے ہوئے لگتے ہیں لیکن آنکھ رکھنے والے مبصرین نے یہ ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ایک مہینے کے اندر اندر پنجاب پولیس کے دبدبے کی وہ بات نہیں رہی جو تیس دن پہلے تھی۔پنجاب پولیس بھی آخر انسانوں پر مشتمل ہے‘چھاپوں سے اگلوں کی تو چلیں کچھ تذلیل ہوتی ہے لیکن انسان خود بھی تھک جاتا ہے۔کتنی دیواریں پھلانگی جاسکتی ہیں‘ کتنی گالیاں لبوں سے ادا کی جاسکتی ہیں‘ کتنا چلایا دھمکایا جا سکتا ہے۔آپ ایک دن کریں گے‘ دو دن کریں گے پھر انسان کہتا ہے کہ کیا مصیبت ہے۔یہ تو ایک ماہ کی داستان ہے‘ یہ وقت لمبا ہوتا گیا تو گرے ہوئے حوصلے پھر جوان ہو جائیں گے‘ آنکھوں میں بھی ایک اور قسم کی چیز نظر آنے لگے گی۔اسی لیے دہرائے دیتے ہیں کہ مثبت نتائج والے انتخابات کرانے ہیں تواب کرائیے‘ نہیں تو خطرہ رہے گا کہ بہت کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ہم تو محب وطن پارٹی کے ساتھ ہیں‘ وہ پارٹی جو سرکار کے ساتھ ہو۔اسی لیے مشورہ خلوصِ دل سے دیا جا رہا ہے کہ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ اب بھی سب کچھ کنٹرول میں نہیں ہے۔پی ٹی آئی کو دیکھ لیجئے‘ اڑان تو فصلی بٹیروں کی ہوئی ہے‘ کمبخت ووٹر اپنی جگہ پر کھڑا ہے۔ دوسری کوئی بات ماننے کیلئے تیار نہیں۔ اصل مسئلہ امیدواروں کا نہیں ووٹروں کا ہے۔امیدوار تو مل جاتے ہیں‘ پاکستان کی سیاسی منڈیوں میں امیدواروں کی ہمیشہ بہتات رہتی ہے۔ مسئلہ تو ووٹروں کا ہے‘ وہ دستیاب نہیں ہوتے۔موجودہ حالات میں اگر علاج درکار ہے تو ووٹروں کا ہے۔ اور ووٹروں کا علاج صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو سرے سے انتخابی میدان میں آنے ہی نہ دیا جائے۔
یہ کیسے ممکن ہے ؟پی ٹی آئی کو انتخابی میدان سے باہر رکھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اُس پر پابندی لگا دی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پابندی نہیں لگ سکتی جب تک سپریم کورٹ کی منظوری نہ ہو۔سپریم کورٹ دور کی بات رہی‘ زمانہ اس لحاظ سے اتنا بدل چکا ہے کہ چھوٹی عدالتوں کے جج اور مجسٹریٹ ہمہ وقت ہاتھ نہیںآ رہے۔کوئی ریمانڈ دینے سے انکاری ہے‘ کئی ایسے ہیں جو مقدمات خارج کررہے ہیں۔ایسے میں لاٹھی ڈنڈے کی سرکار کی وہ بات نہیں رہتی جو پرانے اور بھلے وقتوں میں ہوا کرتی تھی۔ہاں ڈالوں کا اثر ضرور ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈالوں میں کتنے لوگوں کو ڈالا جاسکتا ہے ؟ ڈالے مخصوص مقاصد کیلئے ہوتے ہیں‘ انہیں پنجاب پولیس کی طرح استعمال نہیں کیاجاسکتا۔
لہٰذا ہماری مانیں‘ اگلے دو تین مہینوں میں الیکشن کرا دیں۔ ایک احتیاط بہرحال بہت ہی ضروری ہے کہ یہ جو ساری کوٹ لکھپت میں بند ہیں‘ ان میں سے کسی کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ کچھ اور ہیں سر پھرے جو اِدھراُدھر بھاگے ہوئے ہیں‘ نام کیا لینا۔ ان عناصر کو دور رکھا جائے اور پھر اللہ سے بہتر ی کی دعا کی جائے۔