آٹھویں ترمیم کی اصطلاح گول مول طریقے سے استعمال کر رہا ہوں ‘ میرا اشارہ اُن قوانین کی طرف ہے جن کی وجہ سے خواہ مخواہ کی فضول قدغنیں پاکستانی معاشرے پر لگی ہوئی ہیں۔یہ نہ کرو‘ وہ نہ کرو ‘ یہ چیز ممنوع ہے‘ فلاں چیز کی یہ سزا ہے۔سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں ‘ یہ فضول اور فرسودہ قوانین ہیں جن کی عمر گزرچکی ہے۔جنرل ضیا الحق کو اس جہانِ فانی سے گئے لگ بھگ پینتیس سال ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے ایک خاص سیاق و سباق میں کئی قانون نافذ کئے ۔ اُن کے اغراض و مقاصد اور تھے ‘ اُن کی مجبوریاں اور تھیں۔وہ سیاق و سباق تبدیل ہو چکا ہے ‘ دنیا بدل چکی ہے ۔ اب اُن کے مخصوص قوانین کو کسی قبرستان میں جاکر دفنانے کی ضرورت ہے۔ایک پاکستان ضیا الحق سے پہلے کا تھا ‘ اتنا برا پاکستان بھی نہ تھا۔ ہم اُس پاکستان کی طرف ہی لوٹ جائیں تو بہتری کی طرف سفر کا آغاز ہوسکتا ہے۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہاں نہ فیکٹریاں لگنی ہیں نہ باہر سے پیسہ آنا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی سوچ اپنائیں اور ترقی کے نئے راستے ڈھونڈیں۔اپنے ملک کو باقی دنیا سے الگ تھلگ رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔جب فیکٹریاں نہیں لگنیں‘ باہر سے پیسہ نہیں آنا تو پھر اپنے ملک کو کچھ اس طرح سے خوش شکل بنانے کی ضرورت ہے کہ باہر کی دنیا پاکستان کو ازسرِنو دریافت کرسکے اور باہر کی دنیا میں تجسس پیدا ہو کہ اس عجیب و غریب ملک کو دیکھا تو جائے۔ایک زمانے میں اور یہ زمانہ پرانے پاکستان کا زمانہ تھا باہر کے لوگ یہاں آیا کرتے تھے اور اس سرزمین کو دلچسپی کی نظروں سے دیکھتے تھے۔یہ تو ہم پہ برا وقت آیا اور افغانستان کا سایہ اس ملک پرپڑا اورہم بحیثیت قوم نظریات کے نعرے لگانے لگے کہ ہمارا ایک نیا تصور پیدا ہوا کہ یہ تو بڑاخطرناک ملک ہے جہاں پہ ہر طرف بندوق اٹھائے جہادی پائے جاتے ہیں۔امریکہ اپنا مقصد پورا کررہا تھا ‘ ہمارے اکابرین کے کاندھوں کو وہ تھپکی دیتا رہا اور ہمارے افلاطون سمجھے کہ وہ بڑے تیس مار خان ہیں۔اسی بھول میں اوروں کی ڈگدگی پر ناچتے رہے۔ملک کو ایسی جگہ پہنچا دیا گیا کہ وہاں سے نکلنا اب مشکل لگتا ہے۔
نکلا جاسکتا ہے ‘ شرط صرف ایک ہے کہ کوئی سرپھرا حکمران ملے جس میں بس دو خصوصیات ہوں : دوراندیشی کی صفت رکھتا ہو اور بازوؤں میں کچھ ہمت ہو۔شروع میں اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ‘ اور ویسے بھی جو ہماری حالت ہوچکی ہے ہم کر بھی کیاسکتے ہیں۔بس ضیاالحق کے قوانین جن کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے ہٹائے جائیں اور اس ضمن میں ہم امریکہ یا یورپ کی تقلید نہ کریں بلکہ برادراسلامی ملک متحدہ عرب امارات کو اپنا ماڈل سمجھیں۔وہ قوانین ختم ہوں تاکہ راہ بھولاکوئی باہر سے آئے تو شاموں کو کچھ دستیاب کرنے کی کوشش میں مارا مارا نہ پھرتا رہے۔ ہمیں باہر کی دنیا کو سمجھنا چاہئے۔ ہم تو ٹھہرئے پارسا‘ لیکن باہر سے جو لوگ آتے ہیں ہم جیسے سیدھے اور پارسا نہیں ہوتے‘ اُن کے شوق کچھ اورہوتے ہیں۔وہ شوق پورا نہ کر سکیں تواس ملک میں آکر اُنہوں نے کیا لینا ہے؟
ایک زمانہ تھا دنیا جہاں کی ایئرلائنیں کراچی آیا کرتی تھیں‘ ایئرہوسٹسز اور عملے کے دیگر اراکین ہوٹلوں میں رہتے تھے۔ شامیں کیسے گزارتے تھے یہ اُن کا ذاتی مسئلہ تھا ۔ اور ہم جو نیک اور پارسا لوگ ہیں جنہوں نے بے ایمانی اور بداعمالی کا کبھی سوچا نہیں ‘ اسی لئے ہمارا معاشرہ اتنا نیک اور خوشحال ہے‘ ہمیں کیا فرق پڑنا تھا کہ باہر کے لوگ بڑے ہوٹلوں میں کس انداز سے اپنی شامیں گزار رہے ہیں؟ایک اصول یا تو یہاں کبھی تھا ہی نہیں یا ہم بھول چکے ہیں کہ جیو اور دوسروں کو جینے دو۔ہمیں نہ جینے کا ڈھنگ آیا نہ دوسروں کو جینے دیتے ہیں۔نیکی بھی ایک حد تک اچھی ہوتی ہے ‘ ہم اتنے نیک ہو گئے کہ ہمارے ذہنوں میں دائمی فسادکی کیفیت پیداہونے لگی۔چلیں ایسی کیفیت پیدا ہو گئی لیکن جو گداگری کا لیبل اب ہماری قوم پر چسپاں ہے اُس سے تو بہتر ہے کہ ذہنوں کو تھوڑا صاف کیا جائے۔ جینے کا ڈھنگ سیکھیں اور دوسروں کو بھی اُن کو اپنے انداز کے مطابق جینے دیں۔ نہیں تو یہی ہوگا جو اَب ہو رہا ہے کہ ساری دنیا ہندوستان کا رخ کرے گی ‘ سیاحت کے حوالے سے وہاں اپنا پیسہ خرچے گی اور پاکستان کوئی نہیں آئے گا۔ اس ملک کے لوگوں کو کون سمجھائے کہ جتنے پیسے تھائی لینڈ جیسا ملک سیاحت سے کماتا ہے وہ ہماری پوری قومی آمدن سے کہیں زیادہ ہے۔ہم بس نیکی پر ہی لگے ہوئے ہیں اور جس قسم کی یہاں نیکی ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ یہاں پر سکیورٹی کے مسائل ہیں لیکن سکیورٹی کے معاملات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ تو ہم کسی حد تک تبدیل کرسکتے ہیں۔یہاں فرسودہ قوانین ختم ہوں تو کاروبار کے نئے نئے مواقع پیدا ہوں۔اندرونی سیاحت بڑھے گی اور آہستہ آہستہ باہر سے بھی لوگ آنے لگ پڑیں گے۔کچھ اندازہ ہمیں ہے کہ یہاں بے روزگاری کتنی ہے؟ اب یہ جو یونان کے پانیوں میں ہمارے لوگوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں ‘ وہ لوگ یہاں سے اتنا خطرہ مول لے کر کیوں جا رہے تھے؟ رہ کیا گیا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنا کوئی مستقبل یہاں دیکھیں؟ جس کسی کا بس چل رہا ہے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ حکمران اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔ جو کچھ آج کل قومی سٹیج پر ہو رہا ہے اُس کا عام آدمی کی حالت سے کوئی تعلق ہے؟یہاں سنگاپور کے لی کوآن یو جیسے حکمران کی ضرورت ہے۔کوئی آئے اور ہمیں جھنجھوڑے ‘ ہمارے ذہن کھولے اور گریبان سے پکڑ کر قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالے۔
مشرف ماڈرن حکمران ہوسکتا تھا‘ اُس نے موقع گنوا دیا ‘ کیونکہ شاید اُس کی اتنی سوچ ہی نہ تھی۔عمران خان ماڈرن حکمران ہوسکتا تھا لیکن بس وہ تسبیح ہلاتا رہا اور اُس کا ذہن ایک بات پر اٹکا رہا کہ ہاؤسنگ کے شعبے کو کیسے مراعات دی جائیں۔یہ رئیل اسٹیٹ والے بڑے فنکار قسم کے لوگ ہوتے ہیں ‘ پتا نہیں کیا رَس حکمرانوں کے کانوں میں گھولتے ہیں اور جو کوئی آتا ہے اسی ایک سیکٹر کو آگے بڑھانے کی سوچ میں گرفتار ہوجاتا ہے۔شاید اس لئے کہ اس سیکٹرمیں بڑا مال ہے‘ پلاٹوں کی فائلیں ادھر سے اُدھر کرتے جاؤ اور منافع بغیر کچھ کئے بڑھتا جائے۔ یہ کاروبار اب اتنا پھیل چکا ہے کہ اوپر کے طبقات کے منہ لگ گیا ہے۔ اور کوئی انویسٹمنٹ پاکستان میں نہیں ہو رہی ‘جس کا کوئی پیسہ ہے وہ یا تو پلاٹ خرید رہا ہے یا پیسے کو سونے اور ڈالروں میں انویسٹ کررہا ہے۔ حضور! ان روشوں نے ملک کو یہاں تک پہنچا دیاہے‘ اب تو کچھ سبق لیں نہیں تو جو بچ گیا ہے وہ بھی ہاتھ سے چلا جائے گا۔
البتہ یہ بھی درست ہے کہ یہاں کسی لی کوآن یو نے پیدا نہیں ہونا ‘ ہماری مٹی اس قابل نہیں۔چلیں کوئی جام صادق علی ہی آ جائے۔ جام صادق علی کا مسئلہ تھا کہ وہ سندھ تک محدود تھانہیں تو اُس جیسا فیصلہ کرنے والا انسان ہمیں اسلام آباد میں چاہئے تھا۔جو کرتا تھا دھڑلے سے کرتا تھا۔یہاں پتا نہیں کس قماش کے حکمران ہمیں ملتے رہے ہیں جو سوچ اور ہمت دونوں صلاحیتوں سے یکسر محروم تھے۔
جام صادق علی جیسا وزیراعظم ہوتو اور کچھ نہیں یہاں کی شامیں بہتر ہو جائیں۔پاکستان نارمل ملک لگنے لگے۔