تاریخ جب صحافت بن جاتی ہے تو حالات کے تذکرے میں غلطیاں پیدا ہونا فطری عمل ہوتا ہے۔ تاریخ سوچ بچار اور تحقیق کے بعد لکھی جاتی ہے‘ صحافت میں کلہاڑے کا وار بھی چل جاتا ہے۔ پاکستان بننے میں دو چیزیں اہم تھیں‘ ایک جناح صاحب کی قیادت اور دوم مسلم لیگ کا ایک عوامی پارٹی بن جانا۔ شروع میں تو مسلم لیگ نوابوں اور جاگیرداروں کی پارٹی تھی اور مسلمانانِ ہند میں اس کا کوئی خاص مقام نہ تھا۔ 1935-36ء کے بعد اس میں ایک نئی جان آنے لگی جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کانگریس مسلمان نقطۂ نظر کو سمجھ نہ سکی۔ بہت سے کانگریس کے لیڈر تھے جو مسلمانوں کا نقطۂ نظر سمجھتے تھے لیکن بہت سے ایسے تھے جو اس نقطۂ نظر کو سمجھنے سے بالکل قاصر تھے۔ مثال کے طور پر پنڈت جواہر لال نہرو‘ جو جوان تھے اور بہت جلد جذباتی بھی ہو جاتے تھے‘ سمجھتے تھے کہ ہندو مسلم مسئلہ کوئی ہے ہی نہیں۔ 1935-36ء کے بعد خاص طور پر یوپی میں ایک خاص مسلم سیاسی ذہنیت پیدا ہوئی اور اس بنیاد پر مسلم لیگ نوابوں کے چنگل سے نکل کر ایک عوامی پارٹی بننے لگی۔
یہ کہنا بڑا آسان ہے اور بہت سے لوگ کہتے بھی ہیں کہ انگریزوں نے پاکستان بنایا۔ بات اتنی سادہ نہیں۔ جناح صاحب کی قیادت نہ ہوتی اور مسلم لیگ ایک مضبوط عوامی پارٹی نہ بنتی تو ہندوستان تقسیم نہ ہوتا۔ حیرانی کی بات البتہ یہ ہے کہ اگر ان دو بڑی وجوہات کی بنا پر پاکستان معرض ِوجود میں آ گیا تو پھر آزاد ملک بننے کے بعد پاکستان کے باسی اور جو ہمارا حکمران طبقہ تھا‘ وہ اس ملک کو سنبھال کیوں نہ سکے؟ قائداعظم کی وفات کے بعد کھلواڑ کا کام اتنا تیز کیوں ہونے لگا؟ یہ درست ہے کہ پاکستان کے نظریاتی بیج یو پی‘ جس کا مرکز لکھنؤ تھا‘ میں بوئے گئے تھے لیکن پنجابی اور بنگالی مسلمانوں کی حمایت نہ ہوتی تو صرف یوپی کے اہلِ زبان پاکستان بنانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ سرسکندر حیات نے جب جناح صاحب کی حمایت کا اعلان کیا‘ اس سے مسلم لیگ کو تقویت ملی۔ اسی طرح بنگال میں جناب فضل الحق مسلم لیگ کے نقطۂ نظر کے قریب آئے تو اس سے بھی مسلم لیگ کو تقویت ملی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی مسلمان قوم پائے کے لیڈروں سے خالی یا عاری نہیں تھی۔ اسی لیے حیرانی بڑھ جاتی ہے یہ دیکھ کر کہ مسلمانانِ ہند ہندوستان کو تقسیم تو کرا بیٹھے لیکن علیحدہ ملک حاصل کرنے کے بعد اسے صحیح خطوط پر چلا نہ سکے۔
تاریخِ پاکستان میں کئی سوال چبھتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ شدید بیماری کی حالت میں جناح صاحب جب کوئٹہ سے کراچی آئے تو انہیں لینے کوئی اعلیٰ عہدیدار ایئر پورٹ پر موجود نہ تھا۔ ڈرِگ روڈ کے کسی مقام پر فنی خرابی کی وجہ سے ان کی گاڑی رُک گئی۔ ستمبر کا مہینہ تھا جب کراچی کا موسم بڑا خراب ہوتا ہے‘ ایک گھنٹے سے زائد جناح صاحب گاڑی میں پڑے رہے اور کوئی دوسری گاڑی انہیں لینے نہ آسکی۔ ایسا کیوں ہوا؟ اسی رات ان کی وفات ہو گئی ۔
ایک اور بات جو سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ آئین ساز اسمبلی موجود تھی‘ اس کا پہلا اور آخری کام نئے ملک کیلئے آئین مرتب کرنا تھا۔ آئین کی طرف پیش قدمی تو نہ کی گئی لیکن آئین ساز اسمبلی نئی مملکت کے مقاصد بیان کرنے میں لگ گئی۔ لمبی لمبی بحثیں ہوئیں۔ ہمیں پتا ہے کہ پہلی آئین ساز اسمبلی میں کئی ہندو ممبران بھی تھے۔ جوگندر ناتھ منڈل کو تو جناح صاحب نے پاکستان کا پہلا وزیرِ قانون نامزد کیا تھا۔ مقاصد بیان کرتے کرتے ایسی چیزیں کہی گئیں کہ ہندو ممبران تھوڑا ڈر سے گئے اور اپنی تقریروں میں انہوں نے کہا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں تو جناح صاحب پر وشواس تھا اور وہ کچھ اور کہتے تھے۔ لیکن ظاہر ہے ہندو ممبران کی کچھ نہ سُنی گئی۔ آزادی سے دو تین روز پہلے اسی آئین ساز اسمبلی میں جناح صاحب نے بڑے واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست نہ ہوگی۔ آج کے پاکستان میں ان کی وہ تقریر پڑھیں تو انسان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے‘ ان کے افکار کیا تھے اور ہم کیا بن گئے ہیں۔ اس تقریر میں تو انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ آپ اپنے مندروں میں جاؤ‘ مسجدوں میں جاؤ‘ کاروبارِ مملکت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ مزید یہ کہا کہ اس نئی ریاست میں تمام شہری برابر حیثیت کے ہوں گے‘ بغیر کسی نسلی یا مذہبی امتیاز کے۔ مسلمانانِ ہند کے سب سے بڑے ترجمان تو جناح صاحب تھے‘ اس لیے ان پر یہ الزام تو لگایا نہیں جا سکتا کہ ان کی مسلمانیت میں کوئی کمی تھی۔ ان کا کہنے کا یہ مطلب تھا کہ مذہب اپنی جگہ اور کاروبارِ مملکت اپنی جگہ۔ ان کے بعد جو آئے ان کے پلے میں یہ بات کبھی نہ پڑی۔ جو آیا اس نے فضول کے نعرے لگائے اور ہر ایک نے اس جستجو میں اپنا کردار ادا کیا کہ پاکستان کو جناح صاحب کے افکار سے دور ہٹایا جائے۔
یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جناب غلام محمد جیسا آدمی کیسے پاکستان کا گورنر جنرل بن گیا۔ اس کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ جناح صاحب کی وفات کے دو تین سال بعد ہی نئی ریاست کے سیاسی عناصر اتنے کمزور ہو گئے تھے کہ فیصلہ سازی کا عمل طاقتور بیوروکریٹوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین‘ جو پہلے گورنر جنرل تھے‘ کو وزیراعظم بنا یا گیا اور پھر ان کی وزارت کو ڈسمس کر دیا گیا۔ ایک دن وزارت ڈسمس ہو رہی ہے تو جب محمد علی بوگرا کونیا وزیراعظم بنایا جاتا ہے تو تقریباً سارے کے سارے پرانے وزیر‘ جو کہ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ میں تھے‘ بخوشی بوگرا صاحب کے وزیر بن جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہمارے تب کے جو زعما تھے‘ کریکٹر یا کردار نام کی چیز اُن میں کم ہی تھی۔ ایک اور لطیفہ دیکھیں‘ جنرل ایوب خان جو کمانڈر اِن چیف تھے‘ وہ وزیردفاع بنا دیے جاتے ہیں‘ یعنی فوج کی کمان کے ساتھ کابینہ میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔نئی ریاست میں ایک اور چیز بڑی عجیب تھی۔ عدمِ برداشت کا عنصر شروع دن سے بہت شدید طریقے سے موجود تھا۔ خان عبدالغفار خان نے پاکستان کی مخالفت کی تھی‘ وہ دل سے یقین رکھتے تھے کہ تقسیمِ ہند نہیں ہونی چاہیے۔ بلوچستان میں عبدالصمد اچکزئی بھی تقسیم کے خلاف تھے۔ تو کیا ہوا؟ ہر معاشرے میں مختلف الخیال لوگ پائے جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ لاٹھی گولی کی سرکار ان پر مسلط کی جائے۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ سالوں تک غفار خان کو کیوں جیل میں رکھا گیا۔ آپ ان کے افکار سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بددیانت انسان تھے یا اپنے عقیدے کے ساتھ وفا نہیں رکھتے تھے۔ پاکستان کا شروع سے پرابلم ہی یہ تھا کہ معاشرے میں تو دیانتدار لوگ موجود تھے لیکن ملکی سیاست میں ان کیلئے کوئی زیادہ جگہ نہ تھی۔ انہی خطوط پر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اسکندر مرزا جیسا آدمی ملک کا کیسے گورنر جنرل بن گیا۔ قوم پرست لوگوں کی کمی پاکستان میں نہ تھی لیکن اسکندر مرزا جیسے آدمی تو انگریزوں کے ٹوڈی تھے اور ان کی سوچ یہی تھی کہ پاکستان کو امریکہ کا وفادار ہونا چاہیے۔
آج کل کے حالات دیکھیں۔ہم بدستور پسپائی کی طرف جا رہے ہیں اور یہ جو چودہ پندرہ ماہ گزرے ہیں‘ ان کو دیکھ کر توذہن میں یہی خیال اٹھتا ہے کہ شاید کہیں پاکستان کو پیچھے دھکیلنے کا باقاعدہ منصوبہ تیار ہوا ہے۔ لیکن ہماری بربادی ستاروں میں نہیں لکھی ہوئی۔ اب بھی ہم بچ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ پرانی روح کہیں پھر سے پیدا ہو۔