کیسی بے خبر قوم‘ پاکستانیوں کو معلوم نہیں کہ ان کی قسمت بدلنے والی ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں انقلاب آ چکا ہے۔ انڈسٹریل انقلاب‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کا انقلاب‘ انفارمیشن انقلاب۔ بس ایک کمی رہ گئی تھی اور وہ اب پوری کی جا رہی ہے کہ زراعت میں بھی انقلاب لایا جائے۔ قوم کو مٹھائیاں بانٹنی چاہئیں کہ بالآخر اس انقلاب کا اعلان ہو گیا ہے۔ اعلان کرنے والے ہمارے انقلابی وزیراعظم شہباز شریف ہیں جو ایک اور بات پر بھی دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کے چھوٹے فرزند تمام منی لانڈرنگ الزامات سے بری ہو گئے ہیں۔ لاہور کی سپیشل کورٹ‘ جہاں عزیزم سلیمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس چل رہا تھا‘ نے اعلان فرمایا ہے کہ عزیزم کے خلاف تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور متعلقہ کورٹ کے فاضل جج صاحب نے ڈائریکشن دی ہے کہ سابق دور کے احتساب چیف شہزاد اکبر کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے۔
میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ شاید میں ان پہلے لوگوں میں سے تھا جنہوں نے عزیزم سلیمان شہباز کی بے پناہ صلاحیتوں کو بھانپا تھا۔ قصہ یوں ہے کہ ہمارے مرحوم دوست ملک ظہور انور‘ جوکہ تلہ گنگ سے ایم پی اے تھے‘ خادمِ اعلیٰ سے ملاقات کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور سی ایم آفس سے انہیں ٹائم مل نہیں رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا تو وقت ملنے پر ہم مرکزِ اقتدار جاتی امرا پہنچے۔ خادمِ اعلیٰ سے ملاقات میں کچھ وقت تھا تو ایک کمرے میں ہم بیٹھے تھے کہ ایک نوجوان میری طرف آیا۔ ملاقات ہوئی تو پتا چلا کہ یہ تو ہمارے عزیزم ہیں۔ یہ کہنا پڑے گا کہ گفتگو ہماری بڑی اچھی ہوئی‘ خوش گفتار تو عزیزم تھے ہی لیکن یہ بھی واضح تھا کہ ذہین بھی ہیں۔ خادمِ اعلیٰ کے پاس جب ہم پہنچے تو میں نے ان سے کہا کہ سلیمان سے ابھی ملاقات ہوئی ہے اور وہ تو بڑا امپریسو لڑکا ہے۔ اسے آپ آگے سیاست میں کیوں نہیں لاتے؟ خادمِ اعلیٰ میری استدعا پر تھوڑے سے جھنجھلا گئے اور موضوع تبدیل کرنے کی انہوں نے کوشش کی لیکن میں نے دوبارہ کہا کہ جناب بڑا انٹیلی جنٹ لڑکا ہے‘ اسے آگے لائیے۔ میں تو یہ اس لیے کہہ رہا تھا کہ ہم نے تو تب تک دانشورِ پنجاب حمزہ شہباز کو ہی دیکھا تھا اور جب سلیمان سے ملاقات ہوئی تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ لیکن خادمِ اعلیٰ نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔ بعد میں سمجھ آئی کہ سلیمان شہباز کو اونچے کاموں کیلئے رکھا گیا ہے جبکہ سیاست کا کام حمزہ شہباز کے سپرد کیا گیا ہے۔
شریف خاندان کی ترجیحات ہمیشہ بڑی کلیئر رہی ہیں۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ جب جنرل ضیا الحق کا مارشل لاء لگا تو کچھ عرصے بعد مرحوم و مغفور میاں محمد شریف منصب دارِ پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ 1981ء میں فیصلہ ہوا کہ صوبوں میں بااعتماد سویلین کو بھی حکومتوں میں لینا چاہیے۔ میاں شریف صاحب کو معلوم تھا کہ ان کے ایک ہنرمند فرزند نے بھی کابینہ میں شامل ہونا ہے لیکن ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب انہیں پتہ چلا کہ کابینہ میں چھوٹے فرزند‘شہباز شریف کو لیا جا رہا ہے۔ انتہائی اضطراب کے عالم میں وہ بھاگم بھاگ جنرل جیلانی کے پاس پہنچے اور پھوٹ پڑے کہ حضور آپ یہ کیا کررہے ہیں‘ کابینہ میں تو نوازشریف کو لینا ہے‘ چھوٹے کو توہم نے کاروبار کیلئے رکھا ہوا ہے۔ خیر جنرل صاحب نے بات مان لی اور یوں میاں نواز شریف 1981ء میں پنجاب کے وزیر خزانہ چن لیے گئے اور اس کے بعد جیسے انگریزی محاورہ ہے‘ انہوں نے پیچھے مڑ کے نہ دیکھا اور آگے ہی آگے بڑھتے گئے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ شریف خاندان کے ذہنوں میں کبھی یہ کنفیوژن نہیں رہی کہ کس نے سیاست کرنی ہے اور کس نے کاروبار سنبھالنا ہے۔ تو جب میں سلیمان شہباز کی تعریفوں کا پُل باندھ رہا تھا تو یہ سنہری اصول بھول رہا تھا‘ اسی لیے خادمِ اعلیٰ میری گزارش کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے تھے۔
بات ہو رہی تھی پاکستان کے آخری انقلاب کی یعنی زرعی انقلاب اور میں بھٹکتا ہوا کہاں پہنچ گیا۔ کہنا پڑے گا کہ جو ایک پیج کا تذکرہ سابقہ حکومت میں ہوتا تھا وہ تو کچھ بھی نہ تھا‘ اگر آج کے حالات سے اس کا موازنہ کیا جائے۔ صحیح ون پیج تو دورِ حاضر کا ہے اور داد دینی پڑے گی سابقہ خادمِ اعلیٰ اور حال وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کو کہ ستائش کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے۔ چاہے زرعی انقلاب ہو یا کوئی اور موقع۔ اسلام آباد ہے ہی تماشوں کا شہر‘ اورکوئی کام تو شاید اس میں ہوتا نہیں... محترم وزیراعظم ہر موضوع میں تعریف کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ اور تعریف کس کی ہو رہی ہوتی ہے وہ ہم جانتے ہیں۔ حب الوطنی کا معیار ہو تو ایسا ہو۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ محترم وزیراعظم کے پاس دوہی موضوع ہیں‘ ایک ون پیج کے حوالے سے تعریفوں کے انبار لگا دینا اور دوم اس شخص پر تبرے کسنا جس کا نام لینا بہتوں کو اچھا نہیں لگتا۔ روزانہ کی بنیاد پر تعریف اور روزانہ کی بنیاد پر تبرے۔ ایک تیسرا کام بھی ہے جس کا ذکر میں بھول رہا ہوں اور وہ ہے ٹویٹ کرنا۔ سارا سارا دن ٹویٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
ہمیں تو کچھ اور سوال الجھائے جا رہے ہیں۔ آئین کا جو حشر ہو چکا ہے وہ قوم جانتی ہے لیکن آئین میں بہرحال درج ہے کہ حکومت اور اسمبلیوں کی مدت پوری ہو تو مقررہ عرصے میں انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ قوم کے سامنے یہی مخمصہ ہے کہ یقین کہیں سے نہیں آ رہا کہ وقتِ مقررہ پر انتخابات منعقد ہوں گے یا نہیں۔ ویسے تو انتخابات کے انعقاد میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے لیکن یہاں ایک مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے کہ جو قوم کو زرعی اور دیگر انقلابوں کی نوید سنا رہے ہیں‘ وہ انتخابات سے ڈرے ہوئے ہیں۔ پچھلے سال پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جو حشر ان قوتوں کا ہوا وہ ہم نے دیکھا۔ ڈر ہے کہ کہیں قومی انتخابات میں یہ کہانی پھر سے نہ دہرائی جائے۔ فلم کا سکرپٹ تو یہ تھا کہ حکومت ہٹائی جائے گی تو سابقہ حکمران جماعت کہیں کی نہ رہے گی لیکن انہی قوتوں کے اوسان خطا ہوتے چلے گئے جب دیکھا گیا کہ مقبولیت ختم ہونے کے بجائے ہمالیہ کے پہاڑوں کو چھو رہی ہے۔ یہ سکرپٹ میں بالکل نہ تھا۔ پھر کچھ واقعات ایک دوماہ پہلے ہوئے اور اس کے بعد وسیع ایکشن شروع ہوا جس کے بارے میں سوچا جا رہا تھا کہ سابقہ حکمران جماعت اب ختم ہو جائے گی۔ جو کچھ ہوا ہمیں پتاہے‘ گرفتاریوں کا پتاہے‘ جیلوں میں حالات کا پتاہے۔ ضمانتیں ہونے پر فوراً ہی نئے مقدمات کے قائم ہونے کا پتاہے۔ پریس کانفرنسوں کا بھی پتاہے کہ وہ کیسے ڈرائی کلینگ لانڈریاں بن گئیں۔ جس نے پریس کانفرنس کی اور اس میں توبہ تائب کا حلف دیا یوں سمجھئے ڈرائی کلین ہوگیا۔ اور دہشت گردوں کی صف سے نکل کر محب الوطنوں کی صفِ اول میں کھڑا ہو گیا۔ لیکن انوکھی بات یہ کہ پھر بھی کام بنتا نظر نہیں آرہا۔ جسے میڈیا میں کچرا مال کے لقب سے نوازا جا رہا ہے‘ وہ تو سابقہ حکمران جماعت سے نکل گیا لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ پارٹی قائم ہے اور اس سے زیادہ خطرناک بات یہ کہ بیشتر عوام وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے۔
کچرے مال کی ڈرائی کلیننگ لانڈریاں لگنے سے کیا حاصل ہونا ہے۔ مسئلہ تو عوام کا ہے‘ اس کی نظریں درست نہیں ہو رہیں۔ اس کا کیا کیا جائے؟ یہ مخمصہ ہمارے ہر دلعزیز نقلی اور اصلی حکمرانوں کے سامنے ہے اور اس کا علاج کہیں سے میسر نہیں ہو رہا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کا ذکر ہوتا ہے تو دلوں میں وسوسے آنے لگتے ہیں‘ کہیں یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔