بے یقینی کے بادل کچھ چھٹ رہے ہیں اور آنے والے منظرنامے کی ہلکی سی جھلک نظرآنے لگی ہے۔اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات سال کے آخر تک ہو جانے چاہئیں۔فیصلہ کرنے والے تین فریق ہیں: نواز شریف ‘ آصف علی زرداری اور جنہیں ہم احتیاط کے اصولوں کے تحت مقتدرہ کہتے ہیں۔بنیادی فیصلہ تو یہ ہوا ہے کہ انتخابات ہوں گے اور نگران سیٹ اَپ کو طویل کرنے کا ناٹک نہیں رچایا جائے گا۔ اس ساری سکیم کی کامیابی کا انحصار ایک نکتے پر ہے کہ معتوب جماعت اور اُس کے لیڈر کو انتخابات سے عملاً باہر رکھا جائے۔عملاً کا مطلب یہ کہ قانونی پابندی لگائے بغیر صورتحال ایسی پیداہو کہ معتوب جماعت صحیح طریقے سے انتخابات کا حصہ نہ بن سکے۔یعنی ایسا ماحول بنے کہ اُس کے سرکردہ لوگ جو اس وقت زیرزمین ہیں ‘ زیرزمین ہی رہیں اور الیکشن میں حصہ لینے کی جسارت نہ کرسکیں۔ دوم یہ کہ بہت سے حلقوں میں معتوب جماعت امیدواروں سے محروم رہے۔یہ کوئی اتنا مشکل نہ ہوگا کیونکہ سکہ رائج الوقت یہی بن چکا ہے کہ جن کو غائب ہونا ہے غائب ہو جاتے ہیں۔کئی نام لئے جاسکتے ہیں جو کسی قانون کے تحت غائب نہیں لیکن درحقیقت غائب ہیں۔ اُس صحافی کی صحافت کس کام کی اگر عملی سٹیج سے غائب ہوجائے۔ اسی طرح وہ امیدوار کس کام کا جو اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل نہ کراسکے۔ جو لوگ زیر زمین ہیں وہ گرفتاری کے ڈر سے اس حالت میں ہیں۔ انتخابات کا اعلان ہو بھی جائے اور شیڈول سامنے آ جائے تو گرفتاری کا اندیشہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔جو اتنی احتیاط برت رہے ہیں کہ پردۂ سکرین سے غائب ہیں وہ کاغذات ِنامزدگی داخل کرانے کے وقت ایسی احتیاط کیسے بھول سکتے ہیں؟ 2002ء کے الیکشن میں پنجا ب کے بہت سے حلقے ایسے تھے جہاں (ن) لیگ کا کوئی امیدوار ہی نہ تھا۔ میں چکوال سے (ن) کے ٹکٹ پر کھڑا ہوا تھا لیکن ساتھ ہی تلہ گنگ کی سیٹ پر کسی نے (ن) کے ٹکٹ پر کاغذات ِنامزدگی داخل نہیں کرائے تھے۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا معتوب جماعت کو ہوگا۔
اب بھی جو بندوبست چل رہا ہے اُس معتوب جماعت کے بغیر ہے‘ یعنی وہ کسی چیز کا حصہ نہیں۔جن صوبوں میں الیکشن ہونے تھے وہاں نہیں کرائے گئے اور ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ جنہوں نے نہیں کرائے اُن کا کسی نے کیا بگاڑ لیا ۔ فیصلہ کرنے والوں کے ہی فیصلے چل رہے ہیں۔ عوام کا فیکٹر بھی ہوا کرتا تھا لیکن نومئی کے واقعات کے بعد یہ فیکٹر تھوڑا دب سا گیا ہے۔جیسے الطاف حسین کے ساتھ اپنے زمانے میں ہوا تھا معتوب لیڈر کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے کہ بہت حد تک اُن کی آواز کو دبا دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ موجود ہیں لیکن مین سٹریم میڈیا سے غائب ہیں۔ قانونی محاذپر اُن کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل جاری ہے‘ کبھی ایک مقدمے میں پیشی کبھی دوسرے میں۔ فیصلے کرنے والوں کی جو الیکشن سکیم ہے اُس کی کامیابی کی لازمی شرط ہے کہ معتوب جماعت کے حوالے سے یہ صورتحال برقرار رہے۔لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت زندہ ہے لیکن کنٹرولڈ حالت میں‘ یعنی جمہوریت کے گھوڑے کی لگام کافی کَسی ہوئی ہے‘ اس مقصد کے ساتھ کہ گھوڑا کہیں آپے سے باہر نہ ہو جائے۔
نومئی کے واقعات سے پہلے معتوب جماعت کی عوامی حمایت خاصی بپھری ہوئی تھی ۔ زمان پارک کے اردگرد کے معرکے ہم دیکھ چکے ہیں‘ ایک سے زیادہ بار پولیس کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ایک کال دی جاتی اور عوامی ردِعمل ہوتا تھا۔نومئی کے واقعات کے بعد کریک ڈاؤن کچھ اس طریقے سے ہوا کہ صورتحال یکسر بدل گئی۔آج وہ عوامی حمایت خاصی دب چکی ہے۔ لیکن یہ غلط ہوگا اگر کوئی سمجھے کہ معتوب جماعت کی عوامی حمایت کے دل بدل چکے ہیں۔اگر موقع ملے تولوگ اپنی مرضی کریں گے۔لہٰذا فیصلہ کرنے والوں کی حکمت عملی یہی ہے کہ اُس مخصوص عوامی حمایت کو اظہار کا موقع نہ دیا جائے۔مثال کے طور پر اگر ایک حلقے میں پسند کا امیدوار ہی نہ ہو توعوامی حمایت کیا گُل کھلا سکتی ہے؟ان حالات میں کنٹرولڈ جمہوریت ہی چل سکتی ہے۔یعنی آنے والے انتخابات ایک ایسی گھڑ دوڑ کی مانند ہوں گے جہاں ناپسندیدہ گھوڑے ریس ٹریک پر آ ہی نہ سکیں۔ مولانا فضل الرحمن جیسے زعما یقینا ایسی صورتحال کو ویلکم کریں گے کیونکہ قبلہ مولانا ڈیرہ اسماعیل خان کے اپنے آبائی حلقے سے تب ہی سرخرو ہو سکتے ہیں اگر علی امین گنڈا پور زیرزمین رہیں اور اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل نہ کرا سکیں۔ میرے گاؤں کے پڑوس میں سرور خان کا حلقہ ہے۔ معتوب جماعت کے وزیر تھے لیکن سکہ رائج الوقت کے تحت پریس کانفرنس فرما کر جماعت چھوڑ چکے ہیں۔ حلقے میں اُن کے راویتی حریف نثار علی خان ہیں جو کہ آزاد حیثیت سے انتخاب لڑیں گے۔جب معتوب جماعت کا امیدوار ہی نہ ہوگا تو حمایتی بیچارے کیا کریں گے؟ ایسی صورتحال بہت سے حلقوں میں رہے گی۔
یہ تکلف تو اب رہا نہیں کہ اگر کسی مقدمے میں کسی ناپسندیدہ شخص کی ضمانت ہو جائے تو اُسے چھوڑ دیا جائے گا ۔جیسے نوٹوں کی مشین ہوتی ہے ایف آئی اے ‘ نیب اور پنجاب پولیس نے شاید مقدمات قائم کرنے کی کوئی مشین بنالی ہے۔ایک مقدمے میں ضمانت ہوئی تو فوراً ہی دوسرا قائم کردیا جاتا ہے۔چودھری پرویز الٰہی سے پوچھا جاسکتا ہے ‘اُنہیں نہ اُن پر قائم مقدمات کی گنتی یاد رہی ہوگی نہ یہ کہ کتنی بار اُن کی ضمانت پر رہائی کے حکم صادرہوئے ۔لاہور ہائیکورٹ فیصلے کرتے تھک گئی ہوگی لیکن جنہوں نے رہا نہیں ہونا وہ اندر ہی رہتے ہیں۔اب یوں سمجھ لینا چاہئے کہ یہی ملک کا قانون ہے‘ وہی ہورہا ہے جو فیصلہ کرنے والے چاہتے ہیں۔
معتوب جماعت کی سیاسی غلطی یہ تھی کہ سمجھ نہ سکی کہ کہاں تک جانا چاہئے۔جوا کھیلتے وقت بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ کہاں تک شرط لگائی جاسکتی ہے۔پاکستان ایک اپنے طرز کی جمہوریت ہے اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اس جمہوریت میں طاقت کے اصلی مراکز کون سے ہیں۔معتوب جماعت کی حکومت جانے کے بعدجسے انگریزی میں برنک مین شپ (brinkmanship) کہتے ہیں‘ کچھ زیادہ ہی روا رکھی گئی تھی۔ قومی اسمبلی سے اپنے ایم این ایز کو نکالنا اگر غلطی تھی تو خیبر پختونخوا اورپنجاب کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ایک بلنڈر تھا۔اس برنک مین شپ کا خمیازہ آج معتوب جماعت بھگت رہی ہے۔
بہرحال دیکھنا تو یہ ہوگا کہ جن یکطرفہ انتخابات کی طرف قوم کو لے جا یا جا رہا ہے اُس سے کچھ حاصل بھی ہوگا یا نہیں۔پاکستان کو ایک مضبوط حکومت چاہئے‘ کیا یکطرفہ انتخابا ت سے یہ مقصد حاصل ہو سکے گا؟جب عام لوگوں کو پتا چل جائے کہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہو رہا ہے پھر جوش و خروش تو رہتا نہیں‘ جذبات مر جاتے ہیں اور پھر انتخابات کیا ہوئے ایک ناٹک ہوا۔ نوازشریف اور آصف زرداری پرانے چہرے ہیں ‘ قوم نے انہیں ایک بار نہیں کئی بار بھگتا ہے۔آج پاکستان کو سخت ترین چیلنجز کا سامنا ہے ‘ کیا ان چیلنجز سے چلے ہوئے کارتوس نمٹ سکتے ہیں؟
سرفہرست دو چیلنجز ہیں‘ معاشی حالت اور مغربی سرحد پر برپا شورش ۔قوم کو نوید سنائی جا رہی ہے زرعی انقلاب کی ۔ موجودہ حالات میں اس سے بہتری کی امید بھی ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو گا تو خوراک کا مسئلہ جو شدت اختیار کر چکا ہے ‘ اس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ دہشت گردی کے بارے میں ہماری آنکھیں اب کھل رہی ہیں‘ یا یوں کہنا چاہئے کہ تحریک طالبان پاکستان ہمیں مجبور کررہی ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں۔ جو بات ہمارے اعلیٰ دماغوں کو پہلے سمجھ آنی چاہئے تھی‘ اب سمجھ آ رہی ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں۔