بھول کی اب گنجائش نہیں رہی‘ اک نئے نظام کی تیاری ہو چکی ہے۔ آئین اور قانون جیسی باتوں کو اب بھول جانا چاہئے‘ ایک نیا قانونی ڈھانچہ بن چکا ہے جس میں نئی قانون سازی کے ذریعے واضح کیا جا رہا ہے کہ کس قسم کی تابعداری کی اجازت ہو گی اور کن کن روشوں نے باغی پن کے کھاتے میں لکھا جانا ہے۔قوم نے آنکھ جھپکی نہیں اور یہ سب کچھ ہو گیا۔پارلیمنٹ کی ویسے کوئی وقعت نہیں رہی ‘ جو کچھ اوپر سے آ رہا ہے اُس پہ بلا چوں چرا مہر ثبت کی جا رہی ہے۔
اس نئے نظام میں پارلیمنٹ ‘ سیاسی جماعتیں اور آئین و قانون کے ضابطے ثانوی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔اہمیت کا حامل کس کا حکم ہے وہ راز عیاں ہوچکا ہے۔لگی لپٹی کی تو اب بات ہی نہیں رہی‘ سب کچھ واضح ہے ‘ کوئی پھر بھی نہ سمجھے اُس کا کیا علاج ہے۔اس سارے ماجرے کی وجہ کیا ڈھونڈنی۔ کچھ تو ہمارے نصیب ایسے ‘ کچھ حالات ایسے بنے کہ نہ زمان پارک والے سمجھ سکے نہ قوم کو معلوم ہو سکا کہ اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔یہاں انقلاب تو آیا نہیں لیکن ہم جو اَب دیکھ رہے ہیں اُس کو ایک نام ہی دیاجاسکتا ہے‘ کاؤنٹرانقلاب ( Counter-revoluation)۔ ہم پاکستانیوں کو مصر کی حالیہ تاریخ کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے کیونکہ یہاں کے آج کے حالات وہاں سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔ یوں سمجھئے فلم کی وہی ریل اب یہاں چل رہی ہے۔ جو مصر کے کاؤنٹرانقلاب میں مارے گئے وہاں کے حالات نہ سمجھ سکے۔ یہاں کے لوگ بھی صحیح طرح سے حالات کو نہ بھانپ سکے اور ان کی کم سمجھی کا خمیازہ اب قوم بھگت رہی ہے۔
موقع سے فائدہ یہاں خوب اٹھایا جا رہا ہے ۔ نئی قانون سازی کو پڑھ لیں تو سب کچھ سمجھ آ جاتا ہے ۔ جنہوں نے نظام کو اپنی منشا کے مطابق ڈھالنا ہے اُنہوں نے یہ کام تیزی سے کرلیا ہے۔جو دُم چھلے ان کے ہاتھ آئے ہیں اُن کے اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد ہیں‘ فلاں مقدمہ ‘ فلاں منی لانڈرنگ کا کیس۔ دُم چھلوں نے اپنی کتابیں صاف کرالی ہیں اورانہیں چلانے والے بڑے کام کررہے ہیں۔یہ پارٹنرشپ ہر دو فریق کیلئے فائدہ مند ہے۔عوام کی منشا مصر میں نہیں پوچھی جاتی ‘ یہاں کس نے پوچھنی ہے۔اچھا ہوا کہ فیض صاحب اور حبیب جالب اپنے وقت میں رہے اور چلے گئے۔زندہ ہوتے اور آج لکھتے جو اپنے وقت میں لکھ گئے تو دھر لئے جاتے اور ضمانت بھی نہ ہوتی۔عدالتوں کو بھی ہم نے دیکھ لیا ہے ۔ پہلے جبر کے ادوار میں باقاعدہ قانون سازی سے اعلیٰ عدلیہ کو تائب کیا جاتا تھا۔ آزمودہ فارمولا تھا کہ ایک پروویژنل آئینی آرڈر نافذ کیا اور جج صاحبان پر لازم ٹھہرایا کہ اپنے عہدوں کا اُنہوں نے پھر سے حلف لینا ہے۔ ناپسندیدہ جج صاحبان کو عہدِ وفا کی دعوت ہی نہ دی جاتی۔ لیکن اب جیسا ہم دیکھ رہے ہیں ایسے تکلفات کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی ۔جو کرنا ہے وہ ہو رہا ہے اور قانونی تکلفات میں کوئی زیادہ نہیں پڑا جا رہا۔یوں بھی کہہ لیجئے کہ یہ ایک نئی حقیقت پسندی ہے‘ انگریزی کا لفظ شاید pragmatism (عملیت پسندی) ہے ۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے التحریر سکوائرمیں لوگ جمع ہوتے تو سمجھ بیٹھتے کہ وہ انقلاب لے آئے ہیں۔اُنہیں ڈھیلی رسی دی جاتی رہی اور پھر جب ریاستی ردِعمل آیا توانقلاب کے تمام خواب ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ہمارے عوام مصر کے عوام سے زیادہ بھولے نکلے۔ التحریر سکوائر میں لاکھوں کا مجمع ہوتا۔ یہاں جلسے منعقد ہوئے دھواں دھار تقریریں ہوئیں ‘ گھریلو خواتین جو کبھی جلسوں میں نہیں نکلتی تھیں وہ باہر آئیں اور ہم سمجھ بیٹھے کہ سب کچھ بدل رہا ہے۔اگلے وقت کی تاک میں تھے ‘ کچھ موقع ہاتھ آیا کچھ موقع بنایا گیااور پھر جو ریاستی ردِعمل آیا اُس نے ہرچیز کو اپنی گرفت میں لے لیا۔مصر میں جو ریاستی ردِعمل کی زد میں آئے عوامی پذیرائی یامقبولیت اُن کی اب بھی ہوگی‘ لیکن اُس مقبولیت کے اظہار کی اجازت کس نے دینی ہے؟ یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ۔جوزیرعتاب آئے ہیں اُن کے بارے میں اب بھی حسنِ ظن ہے کہ عوامی مقبولیت اُن کی قائم ہے‘ لیکن مقبولیت کے اظہار کا موقع کس نے دینا ہے؟اب صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جنہیں طاقت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے اُن قومی شعبوں میں اپنی انٹری ڈال رہے ہیں جس کا پہلے تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔نئی قانون سازی پڑھ لیجئے‘ تمام شکوک دور ہوجانے چاہئیں۔
متحدہ عرب امارات ‘ قطر اور سعودی عرب میں کوئی جمہوریت نہیں۔لیکن تیل اور مضبوط حکمرانی کی وجہ سے وہاں ایک قسم کی خوشحالی ہے۔ غیر جمہوری نظاموں کا جواز بھی یہی بنتا ہے کہ شخصی آزادیاں تو ہم نے سلب کرلیں لیکن امن و امان قائم ہے اور عوام کو معاشی خوشحالی دی جا رہی ہے۔ امن و امان کے فقدان اور معاشی بدحالی سے غیرجمہوری نظاموں کا جواز نہیں رہتا۔ پاکستان میں جو امن و امان کی صورتحال ہے وہ ہم جانتے ہیں اور جہاں تک معاشی خوشحالی کا تعلق ہے اس سے بھی ہم پوری طرح واقف ہیں۔اوپر سے سیاسی صورتحال ایسی کہ عوام سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔آپ خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ آیا ایسا فارمولا چل سکتا ہے ؟
ہم بہت تجربات دیکھ چکے ہیں اوران کی بنیاد پر قوم کی یہ رائے بن چکی ہے کہ غیرجمہوری نظاموں نے اس مملکت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ویسے تو ہماری تاریخ سانحات سے بھری پڑی ہے لیکن ہمارے ساتھ جو بڑے سانحے ہوئے وہ سارے کے سارے غیر جمہوری ادوار میں ہوئے۔ جن بڑے فیصلوں نے قوم کو نقصان پہنچایا وہ سب فیصلے تب لئے گئے جب آئینی اور جمہوری تقاضوں کو ایک طرف رکھا گیا۔اگر انہی راہوں پر ہم نے پھر چلنا ہے تواس عمل کو دانائی کا نام کون دے گا؟
ایک اور المیہ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ پہلے جب طالع آزما آیا کرتے تھے اور گھڑ سواری کرکے آئینی تقاضوں کو ایک طرف رکھتے تھے تو قوم میں ایک بڑی واضح تفریق آ جاتی تھی: آمریت کے حامی ایک طرف اور جمہوری قوتیں دوسری طرف۔ ایوب خان نے اپنی کنونشن مسلم لیگ بنائی ‘ ضیا الحق کے ساتھ کچھ سیاسی پارٹیاں تھیں ‘پرویز مشرف کے ساتھ (ق) لیگ تھی‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ تینوں طالع آزما اکیلے رہ گئے ‘ جمہوری قوتیں ان کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اپنے مفاد کی خاطربڑی بڑی سیاسی پارٹیاں غیر جمہوری روشوں کی علمبردار بن رہی ہیں۔ایسے میں خدشہ تو یہی ہے کہ جمہوریت اور آئین مذاق بن کے رہ جائیں گے۔پچھلے پندرہ سولہ ماہ میں معیشت کا حال بھی ہم نے دیکھ لیا۔ ایسی تباہی پاکستان کے نصیب میں پہلے نہیں آئی۔بڑے بڑے فیصلے تو بڑے اعتماد سے کئے جا رہے ہیں لیکن کیا گارنٹی ہے کہ یہی نظام چلتا رہا جو ہم نے پچھلے پندرہ ماہ میں دیکھا ہے تو مزید تباہی نہیں ہوگی؟
ہمارے برادر عرب ملکوں کا جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ وہاں جو طرزِحکمرانی رائج ہے اُن کی روایات اور تاریخ کے عین مطابق ہے۔ ہماری روایات مختلف ہیں ‘ یہ مملکت ایک جمہوری عمل سے معرضِ وجود میں آئی۔ جمہوریت ہماری نہ تھی ‘ انگریزوں کی تھی لیکن اُن کے جمہوی تقاضوں کے مطابق ہمیں ایک آزاد مملکت کی حیثیت ملی۔آئینی اور قانونی تقاضوں کو یہاں کے پس منظر سے نکال دیا جائے تو کسی چیز کاجواز نہیں رہتا۔یعنی آئینی اور قانونی تقاضوں کی پامالی ہمارے قومی وجود پر ایک حملے کے مترادف ہے۔سوچنے کا مقام ہے‘ ایک طرف ٹی ٹی پی دہشت گرد اور بلوچ یلغاری ہمارے قومی وجود پر حملہ کررہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے وجود کی جڑیں کاٹنے پر ہم خود لگے ہوئے ہیں۔یہ تو نہ چلنے والی صورتحال ہے۔