یہ کیا رُک رُک کے پاکستانی عوام کی چھترول ہو رہی ہے ۔یہ کیا ہوا کہ پٹرول کی قیمت بیس روپے بڑھی ہے ‘ کچھ زیادہ کرتے تاکہ صحیح چیخ و پکار اٹھتی۔اب تک تو عوام کو جتنے لِتر پڑرہے ہیںوہ برداشت ہورہے ہیں۔چھترول تو تب مانیں کہ لوگ بلبلا اٹھیں‘ ایسا اب تک نہیں ہوا۔توپھر اتنی دُہائی کیوں ؟
حالات انتہا تک نہ پہنچیں تو مزہ کیسا؟ تکلیف حد سے بڑھ جائے تب ہی کچھ نیا پیدا ہوتا ہے۔جیسے مارکسِسٹ لوگ کہا کرتے تھے کہ تضادات شدت اختیار کر جائیں تب ہی کسی بڑی تبدیلی کی نوبت آتی ہے۔ یہاں عوام کی ٹکور آہستہ آہستہ ہو رہی ہے‘ کبھی پٹرول کبھی کچھ اور‘ معمولی جھٹکے لگ رہے ہیں جس کا انسان عادی ہو جاتا ہے۔ٹکور ہو تو صحیح طرح ہوتاکہ روس یا یوگوسلاویہ والی صورتحال پیدا ہواور ہم بھی کہہ سکیں کہ ہم ایک نئے دور میں قدم رکھنے جا رہے ہیں۔شہباز شریف کی حکومت کی شکل میں جو تحفہ پاکستانی قوم کو ملا ہے‘ اُس نے قوم کا مزاج بدل ڈالا ہے۔ ہلکی چھترول کی عادت قوم کو پڑ چکی ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ قوم اس انتظار میں رہتی ہے کہ اگلا جھٹکا کب لگے گا۔یعنی تکلیف سہنے سے قوم کو ایک عجیب مزہ آنے لگا ہے۔اس کیفیت کو انگریزی میں Masochism کہتے ہیں۔
پوری کوشش کی گئی ہے کہ ایسے قانون بنائے جائیں کہ پاکستان کی حالت مصر یا میانمار جیسی ہو جائے ‘لیکن سچ پوچھئے ابھی تک ہم مصر کی حالت سے خاصے دور ہیں۔9مئی کے بعدخاصے لوگ گرفتاری کا مزہ چکھ چکے ہیں لیکن پھر بھی مصروالی بات ابھی تک نہیں بنی۔پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ گرفتاریاں ہزاروں میں ہوئی ہیں لیکن یاد رہے کہ مصر میں گرفتاریاں چالیس پچاس ہزار تک پہنچ چکی تھیں۔اندر جو گئے اُن کی صحیح دیکھ بھال ہو رہی ہے لیکن پھر بھی مصراور میانمار والی کیفیت تک ہم نہیں پہنچے۔یعنی جھٹکے قوم کو بدستورلگ رہے ہیں لیکن قوم کی جوانمردی کو سلام کہ جو ہلکے جھٹکے لگ رہے ہیں بڑی خندہ پیشانی سے قبول کیے جا رہے ہیں۔آج کل کوئی محفل نہیں جس میں مہنگائی کا رونا نہ رویا جائے لیکن بات رونے تک ہی پہنچتی ہے‘ اُس سے آگے نہیں جاتی۔یعنی اگر سولہ ماہ قوم کے ساتھ بہت کچھ ہوا ہے تو مزید سولہ ماہ بھی ایسا ہو تا رہے تو بات رونے تک ہی رہے گی۔
ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ قوم کا درد چھوڑو ‘ یہاں ہونا ہوانا کچھ نہیں ‘ حالات ایسے ہی چلتے رہیں گے‘ بس اپنا سوچو اور اپنی شاموں کا سوچو۔ عجیب ہماری کھوٹی قسمت ہے‘ کوئی اور ملک ہوتا تو جو یہاں صورتحال چل رہی ہے ایسے میں غرضِ نشاط کے نئے ذریعے ڈھونڈے جاتے تاکہ عوام کا دھیان اُس طرف جائے اور وہ کڑھنا ذرا کم کردیں۔لیکن یہاں پر جو آتا ہے وعظ کرنے لگتا ہے اور مختلف حوالے دیتے ہوئے صبر کی تلقین کرتا ہے ۔ یہ چورن عوام کو اتنا کھلایا گیا ہے کہ صبرہمارے وجودکا سب سے بڑا حصہ بن گیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر تکرار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دست وگریبان ہو جاتے ہیں۔ سڑک پہ کوئی حادثہ ہو تو تماشا دیکھنے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔دیہات میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی لڑائیاں ہو جاتی ہیں اور جیسا ہمیں پتا ہے کہ غیرت کے نام پر تو اس معاشرے میں وہ کچھ ہو جاتا ہے کہ الامان الحفیظ۔لیکن مسلسل چھترول ہو‘ جیسے ہو رہی ہے توہم صبر کے مادھوبن جاتے ہیں۔سولہ ماہ ہماری غیرت کو تونہیں للکارا گیا لیکن ہمیں مسلسل بیوقوف بنایا جا رہا ہے اور قوم کے حوصلے کو داد کہ اس عمل کو بڑی کشادہ دلی سے قبول کررہی ہے۔
میں اپنا یہ کالم ڈکٹیٹ کراتا ہوں‘ فون پہ بولے جاتا ہوں اورہمارے دوست اسرار چکوال میں بیٹھے لیپ ٹاپ پہ میرے بولنے کولکھتے جاتے ہیں۔یہ والا کالم ڈکٹیٹ کررہا تھا تو بڑا عجیب اتفاق ہوا ‘لاہور کی جس بلڈنگ میں رہتا ہوں وہاں ڈکٹیٹ کرتے کرتے پہنچا تو لفٹ میں قدم رکھا توایک صاحب ملے جو گریڈ بائیس کے افسر‘اس حکومت اور پچھلی حکومت کے ساتھ رہ چکے ہیں۔اُن کا شعبہ آئی ٹی وغیرہ کا ہے ۔ بیسمنٹ سے چوتھے فلور تک ہمیں کتنا ٹائم لگا ہوگا؟ یہی دو‘ تین منٹ۔ پہلے تو اُنہوں نے وہ سوال کیا جو آج کل ہرپاکستانی کررہا ہے ‘ کہ بہتری کی کوئی امید ہے؟ میں نے کہا: اس کا جواب تو آپ بہتر دے سکتے ہیں کیونکہ آپ کابینہ کی میٹنگوں میں بیٹھتے رہے ہیں۔ بولے کہ پچھلی یعنی پی ٹی آئی کی حکومت میں ہماری سمت درست جا رہی تھی ‘ ہم نے ٹھیک کام کرنے شروع کر دیے تھے۔میں نے پوچھا: اور پھر ؟کہنے لگے: سب کچھ غرق ہوتا جا رہا ہے۔ یہی تو مسئلہ ہے ‘ یہ جوڈھنڈورچی آپ کو میڈیا اور حکومتی حلقوں میں ملتے ہیں وہ پچھلی حکومت کی برائیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ایک ہی سکرپٹ ہے ‘ ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پچھلے والوں کو برا بھلا کہتے رہیں۔ڈوریں ان کی پیچھے سے کھینچی جا رہی ہیں ‘ ڈگڈگی بھی پیچھے سے بجتی ہے اور یہ آگے ناچ رہے ہوتے ہیں۔ان کے ذہنوں کو اور کوئی بات سوجھتی ہے نہ آتی ہے۔قوم نے بھاڑ میں کیا جانا ہے‘ بھاڑ میں جا چکی ہے لیکن اس کی انہیں کیا پروا۔شکنجہ اتنا ٹائٹ ہو چکا ہے کہ میڈیا صحیح لائن پر چل رہا ہے۔پوری کی پوری اخبارات کھنگال لیں شاذ ہی ڈھنگ کی کوئی بات پڑھنے کو ملے ۔ٹی وی کا تو حال ہی نہ پوچھیں‘ ایسی تابعداری کہ رشک آتا ہے۔ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ بولنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔
البتہ یہ اور بات ہے کہ سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ جو کچھ ہورہا ہے اس کا مقصد کیا ہے؟کتنی بار یہ بات دہرائی جائے کہ جوحکومت میں لائے گئے تھے یا جن کے بارے میں ارادہ ہے کہ ان سے کام چلایا جائے گا یہ سارے کے سارے چلے ہوئے کارتوس ہیں۔چالیس پینتالیس سال سے قوم کی گردنوں پر بیٹھے رہے ہیں۔ان سے خیر کی توقع کیا کی جاسکتی ہے؟اور یہ جو ڈوریاں کھینچ رہے ہیں ان کے بارے میں کیا عرض کیا جائے؟ ایسے تجربات سے پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے ‘ کچھ ان تجربات سے نکلا ہے؟ توپھر ہم کیسے سمجھ لیں کہ پچھلے ایسے تجربات سارے کے سارے ناکام ثابت ہوئے ہیں‘ لیکن اس بار معجزات کی راہیں کھل جائیں گی؟
بڑا ڈر عوام کا لگا ہوا ہے ‘ کہ سیدھے سادھے آئین اور قانون کے تحت انتخابات کی طرف جائیں تو پِٹ جائیں گے۔اسی لیے پابندیوں اور قدغنوں کا سوچا جا رہا ہے۔حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بچہ بچہ سمجھ رہا ہے کہ انتخابات نے وقت پر نہیں ہونا۔عوام نے کچھ اور تو کرنا نہیں اُس کے پاس ایک ہی چیز رہ گئی ہے ‘ پرچی کا استعمال۔اسی پرچی کے استعمال سے اربابِ اختیار ڈر رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ وہ نہ ہو جائے جو شاید داستانوں میں بھی نہ لکھا ہو۔اسی لئے حیلے بہانوں سے کام لیا جا رہا ہے۔
لیکن حضورِ والا! دیکھ تو لیجئے ‘مصرمیں کیا ہو رہا ہے اور میانمار کہاں تک پہنچ چکا ہے۔اتنے ہنر والے ہم نہ تھے لیکن ملک کا اتنا برُا حال بھی نہ تھا۔کسی اور تجربے کے لائق تو ہم رہے نہیں لیکن اربابِ اختیار ہیں کہ اپنی مرضی کئے جا رہے ہیں۔کچھ اور انتظار کرلیتے ہیں ‘ دیکھتے ہیں آگے کیا ہونا ہے ۔ مزید کون سے ناٹک رچائے جانے ہیں‘ کون سے بھاشن قوم کو سنائے جانے ہیں‘ کون کون سے انقلابات کی نوید قوم کو مزید سنانی جانی ہے۔کچھ اور صبرکر لیتے ہیں۔