بھول جائیے اس بات کو کہ کہیں عقل آ جائے گی اور موجودہ پالیساں جنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے‘ تبدیل کر لی جائیں گی۔ ہماری تاریخ گواہ ہے ایسا نہیں ہوتا۔ جب صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ تباہی کی طرف جا رہے ہیں پھر بھی کوئی نہیں سنبھلتا‘ کسی کو عقل نہیں آتی۔
1971ء میں تب کے بہت سے اکابرینِ ملت اپنی عقلوں سے فارغ ہو گئے تھے‘ لیکن ایک دو شخص تھے جن کے ہوش قائم تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ مشرقی پاکستان میں سخت اقدام سے گریز کیا جائے۔ ان میں گورنر ایڈمرل محمد احسن اور مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان شامل تھے۔ لیکن ان کی ایک نہ مانی گئی اور انہیں بزدل کہا گیا۔ سخت اقدام وہاں ہوئے اور اُس کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوئی وہ ہم جانتے ہیں۔ تب کے اکابرین کی دماغی حالت یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں شکست ہونے کے باوجود اقتدار کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ تو اندر سے جب آوازیں اٹھیں اور تقریباً بغاوت کا سا سماں پیدا ہو گیا تو یحییٰ خان اور اُن کا ٹولہ اقتدار چھوڑنے کو تیار ہوا۔
یہ تو 1971ء کا سانحہ تھا‘ اُس سے پہلے 1965ء کا سانحہ رونما ہو چکا تھا۔ صدر ایوب خان تب ایک تھکے ہوئے شخص تھے۔ اُن کے اقتدار کا عروج گزر چکا تھا۔ 1964ء کا صدارتی انتخاب جس میں اُن کے خلاف مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کھڑی ہوئی تھیں‘ نے اُنہیں نفسیاتی طور پر خاصا مجروح کیا تھا۔ ہیرا پھیری سے صدر صاحب انتخاب جیت تو گئے لیکن قوم نے اُن انتخابات کو مانا نہ تھا اور یہ تاثر عام تھا کہ انتظامی مشینری اثر انداز نہ ہوتی تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔ اس صورتحال میں کوئی وجہ نہ تھی کہ صدر ایوب خان بھارت کے خلاف کشمیر میں مہم جوئی کا آغاز کرتے لیکن اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ کشمیر میں چھیڑ خانی شروع کی اس یقین کے ساتھ کہ بھارت کا ردِعمل کچھ نہ ہوگا۔ جب چھمب جوڑیاں کا سیکٹر گرم ہوا تو بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ کی جانب محاذ کھول دیا اور رات کی تاریکی میں یہ حملہ کیا ۔
یہ تو ہماری فوج اور ایئرفورس کی کارکردگی تھی کہ بھارتی حملے کو ہم روکنے میں کامیاب ہوئے نہیں تو جس قسم کی اوپر کی پلاننگ تھی‘ بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جنگ کے حامی تھے لیکن ذمہ داری تو صدر ایوب خان کی بنتی تھی کہ کسی فضول ایڈونچر سے پرہیز کریں۔ لیکن آنکھیں بند کرکے جنگ میں چلے گئے اور اُس جنگ سے پاکستان ہل کر رہ گیا۔ اُس وقت تک سیاسی کمزوریوں کے باوجود ہم آگے کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن جنگ کی وجہ سے جیسے ریل پٹڑی سے اُتر جاتی ہے‘ ترقی کی شاہراہ سے پاکستان اُتر گیا اور پھر کبھی سنبھلا بھی نہیں۔ جنگ کے بعد ہمارے دفاعی اخراجات بڑھ گئے‘ نئی ڈویژنیں کھڑی کرنا پڑیں‘ اسلحے کی دوڑ پہلے بھی تھی لیکن اُس کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔ اور ظاہر ہے کوئی یہ نہ بتا سکا کہ اُس جنگ میں ہم گھسے کیونکر تھے۔
ضیاالحق نے بھی کیا عجیب اقدامات کئے کہ اپنے غاصبانہ اقتدار کو طول دینے کا کوئی جواز نہ تھا اس لیے اُنہوں نے اسلام کا نعرہ بلندکردیا۔ جہاں ستانوے‘ اٹھانوے فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی وہاں اسلام تو کوئی مسئلہ ہونا نہیں چاہئے تھا لیکن جن کو لقب مردِ مومن مردِ حق کا دیا گیا‘ وہ اس بیچاری قوم کو پھر سے مسلمان بنانے میں لگ گئے۔ جو ٹھیکیدارانِ اخلاقیات ٹھہرے اُن کی خوب چاندی ہو گئی۔پاکستان ٹیلی ویژن پر تقریباً اُن کا قبضہ ہو گیا۔ جب ٹی وی سیٹ آن کرتے تو وعظ و نصیحت کی باتیں سننے کو ملتیں جو یقینا اچھی بات ہے اگر اس ساری کاوش کے نتیجے میں معاشرہ نیک و پارسا ہو جاتا۔ ایسے تو نہ ہوا بس منافقت میں بے انتہا اضافہ ہو گیا۔ ہر ایک نے ظاہری پارسائی کا لبادہ اوڑھ لیا لیکن اندر سے تو ہر کوئی وہی تھا جو پہلے تھا۔ سیاست اور حکمرانی میں کچھ نہ کچھ ہوشیاری ہوتی ہے لیکن مردِ حق سیاسی ہوشیاری کو ایک نئی سطح پر لے گئے۔ کیمرے میں سیدھا دیکھ کر ایسے اعتماد سے اعلانات فرما تے جن کا حقیقت سے دور کا تعلق نہ ہوتا۔ ایسی ہوشیاری اُنہی کا کمال تھا۔ اور جس افغان بخار کا وہ تحفہ قوم کو دے گئے اُس کے اثرات سے قوم آج تک نہیں نکل سکی۔
ایوب خان مجبور ہوئے تو مسندِ اقتدار چھوڑدی‘ اپنی مرضی سے نہ گئے حالانکہ آخری دنوں میں اُن کی صحت بھی وہ نہ تھی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ یحییٰ خان مرضی سے نہ گئے‘ مجبور ہوکر اُنہیں کرسی چھوڑنا پڑی۔ ضیاالحق ایک حادثے کا شکار ہوئے۔ پرویز مشرف کو بھی لے لیجئے‘ شروع کے دنوں میں مضبوط حکمران تھے لیکن آٹھ سال بعد اُن کی حکمرانی ڈگمگانے لگی تھی۔ وکلا تحریک نے اُنہیں ایکسپوز کرکے رکھ دیا تھا‘ اس لحاظ سے کہ اُس تحریک پر وہ قابو نہ پا سکے۔ اب بات سمجھ آتی ہے کہ اشفاق پرویز کیانی اندر سے اُن کا وہ ساتھ نہ دے رہے تھے جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ وکلا کی تحریک نے پہیہ جام ہڑتال کی شکل کبھی اختیار نہ کی لیکن جوں جوں وہ تحریک بڑھی تاثر یہی بنتا گیا کہ پرویز مشرف اُس کے سامنے بے بس ہیں۔ اُس صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پرائیویٹ ٹی وی چینل جنہیں خود پرویز مشرف نے آزادی دی تھی‘ نے کھل کر وکلا تحریک کو کوریج دی۔ مختلف مقامات پروکلا کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی تھی لیکن ٹی وی کیمرے اپنا کمال دکھاتے تھے تو چند ہزار کا مجمع لاکھوں کا لگنے لگتا تھا۔ اس صورتحال سے تاثر یہی اُبھرتا تھا کہ پرویز مشرف ہاتھ پیر ہلانے سے محروم ہو چکے ہیں‘ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ تب بھی وہ اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے اور چاہتے تھے کہ وردی پہنے وہ دوبارہ صدارت کا انتخاب لڑیں اور اُس انتخاب کو جیتیں بھی۔ متنازع انتخاب میں صدر منتخب ہو بھی گئے لیکن پھر آصف علی زرداری نے ایسا سیاسی جال بُنا کہ پرویز مشرف بے بس ہوکر رہ گئے اور پھر مجبوراً اُنہوں نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔
آصف علی زرداری نے کیوں یہ جال بُنا؟ کیونکہ وہ خود صدر بننے کی تمنا رکھتے تھے۔ یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ مجھ سمیت بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن نہ ہوگا اور ہم یہ بھی کہتے تھے کہ نہیں نہیں آصف زرداری کبھی صدارت کی خواہش نہ رکھیں گے۔ اس لیے داد دینا پڑتی ہے اپنی ساتھی ایم این اے کشمالہ طارق کو کہ کسی ٹی وی چینل پر مجھے ملیں اور اُنہوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں آصف زرداری ہی صدارت کے لیے سامنے آئیں گے۔ میں نے جب کہا کہ یہ ناممکن لگتا ہے تو اُنہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ملک کی صدارت کسی کی پہنچ میں ہو اور وہ اُس سے اجتناب کرے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تب صدارت بااختیار ہوا کرتی تھی‘ آج کی بے ننگ و نام صدارت نہ تھی۔ بہرحال یہی ہوا اور یہ قوم کی بدقسمتی تھی کیونکہ بہتر یہی ہوتا کہ پرویز مشرف صدر رہتے اور اُن کے نیچے پارلیمانی نظام چلتا رہتا۔ یہ کہتا چلوں کہ گو صدر مشرف سے سیاسی غلطیاں بہت ہوئیں‘ ذاتی طور پر وہ ایک کھلے ڈُلے اور اچھے انسان تھے۔ لیکن جو ہونا تھا وہی ہوا۔
بہرحال بات تو کچھ اور ہے‘ اگر ہماری تاریخ اس چیز کی گواہی دیتی ہے کہ پہلے والوں سے ناسمجھی میں فیصلے ہوئے تو کس بنیاد پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ قوم کی مجموعی عقل آج کے وقت میں کچھ زیادہ ہوگی؟